دہشت گردی سے نجات کیسے پائی جائے؟

آصف جیلانی 

ہمارے ملک میں ہر ، ہولناک دہشت گرد حملے کے بعد ، حکمرانوں کی طرف سے یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کیا جائے گا، لیکن دہشت گردی کے سنگین مسئلہ کے حل پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے بہیمانہ حملہ کے بعد جس میں ۱۴۵ ننھے طالب علم اور اساتذہ جاں بحق ہوئے تھے ، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان منظور کیا تھا لیکن اس میں، ممنوعہ تنظیموں کے قلع قمع ، فوجی عدالتوں کے قیام، مسلح تنظیموں پر پابندی ، نفرت آمیز تقریروں اور مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے اقدامات تجویز کیے گئے تھے ، لیکن دہشت گردی کے سد باب اور خاتمے کے لئے کوئی ٹھوس حل تجویز نہیں کیا گیا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم نکتہ کو نظر انداز کردیا گیا کہ دہشت گردی کا مسئلہ بنیادی طور پر نظریات اور حالات کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ تشدد کی اختراع ذہنوں سے شروع ہوتی ہے،دہشت گردی بلا شبہ کسی نہ کسی انداز سے جاری رہے گی جب تک دہشت گردی کے پس پشت نظریہ کا اس کے خلاف نظریہ سے مقابلہ نہ کیا جائے اور ذہنوں کو نہ بدلا جائے ، یا پھر دہشت گردی ،حالات سے پروان چڑھتی ہے۔

پس دہشت گردی کا حل ذہنوں کو بدلنے اور حالات میں تبدیلی میں مضمر ہے۔ ذہنوں کو بدلنے کا یہ عمل ، تعلیمی اداروں اور خاص طور پر ان دینی مدرسوں سے شروع ہونا لازمی ہے جہاں سے دہشت گردوں کی بھرتی کا خطرہ رہتا ہے ، ابتدائی مدارس کا ایسا نصاب تیار کیا جائے جس کے تحت طلباء کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام کے غلبہ یا جنت کے حصول کی راہ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ امن و آشتی اور قران وسنت کے مطابق زندگی اختیار کرنے کی ہے۔

دہشت گردی کے سدباب کے لئے سراغ رسانی کی بے حد اہمیت ہے جس کی طرف ہمارے ہاں بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ سی آئی ڈی کی سراغ رسانی کے طریقے نہایت فرسودہ ہیں ۔ یورپ میں جہاں دہشت گردی کا مسلۂ سنگین ہے وہاں دہشت گرد تنظیموں میں خفیہ ایجنٹوں کے بھیس بدل کر گھسنے اور ان کے منصوبوں تک رسائی کا طریقہ عام ہے اور اسی کے ساتھ جدید ترین آلات کا بھی استعمال کارگر ثابت ہواہے۔ یوں دہشت گردی کے منصوبوں کا پہلے ہی سراغ لگا لیا جاتا ہے۔

برطانیہ کے شمالی آئرلینڈ میں 1969سے لے کر 1997تک آئریش لبرشن آرمی آئی آر اے ، کی مسلح جدو جہد جاری رہی ہے اور نہ صرف یہ علاقہ بلکہ انگلستان کے بعض شہر بھی تشدد اور دہشت گردی کی زد میں رہے ہیں۔ ہندوستان کے آخری وایسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن اور ٹوری پارٹی کے وزیر بھی اس دہشت گردی کا شکار رہے ہیں اور برایٹن میں ٹوری پارٹی کی کانفرنس میں وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر آئی آر اکے کے حملہ میں بال بال بچی تھیں۔ 

آئی آر کی جنگ کے دوران مجھے شمالی آئر لینڈ کے دار الحکومت بیلفاسٹ جانے کا موقع ملا۔ پورا شہر جا بجا جنگی مورچوں میں خاردار تاروں اور پہرے والی مچانوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف انگلستان کے حامی اکثریتی فرقہ پروٹسٹنٹ کے شہری تھے اور دوسری جانب اقلیتی ، رومن کیتھولک فرقہ کے لوگ مورچہ بند تھے، جو جمہوریہ آئرلینڈ میں شمولیت کے لئے بر سر پیکار تھے۔ مسئلہ وہاں، فرقہ وارانہ تصادم کا بھی تھا اور رومن کیتھولک فرقہ کی حکومت میں عدم نمایندگی اور اقتصادی احساس محرومی کا بھی تھا۔ ایک طرف برطانوی فوج نے بڑے پیمانہ پر سراغ رسانی کے ذریعہ دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش کی اور دوسری طرف ، حکومت نے رومن کیتھو لک فرقہ کو حکومت میں نمایندگی کا حق دے کر اور اقتصادی شراکت کے ذریعہ اس شورش کے خاتمہ کے لئے گڈ فرائی ڈے سمجھوتہ کیا۔

اب یہ شورش ، جس میں برطانوی فوج کے ڈیڑھ ہزار سپاہی اور افسر ہلاک ہوئے اور چار ہزار شہریوں کی جانیں گئیں ، تاریخ کے صفحات میں دب گئی ہے۔ لیکن اب بھی جب پاکستان میں ہولناک دہشت گرد حملوں کی خبریں آتی ہیں ،مجھے شمالی آیرلینڈ کی شورش یاد آتی ہے اور دل مسوس ہوکے رہ جاتا ہے کہ کاش ہمارے ملک میں بھی دہشت گردی پر اسی طرح سے قابو پالیا جائے۔

دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے بلاشبہ حالات کو بدلنے کے لئے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے جن میں تعلیم کی سہولیتیں عام کرنا، بے روزگاری کو ختم کرنے کے لئے موثر اقدامات اٹھانا، نا انصافی کے خاتمے کے لئے عدلیہ کی اصلاحات کا نفاذ، اور عوام کے پسماندہ طبقوں میں، غربت اور احساس محرومی کا خاتمہ لازمی ہے۔ 

بلاشبہ یہ ہمہ گیر پروگرام ہے جو ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لئے لازمی ہے ورنہ، دہشت گردی کا عفریت بڑھتا ہی جائے گا اور ملک اور عوام موجودہ حالات میں سسک سسک کر دم توڑتے رہیں گے۔ 

One Comment