افغان حکومت اور طالبان مذاکرات، اب بھارت بھی ایک فریق ہوگا

روس افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک نئے مذاکراتی عمل کی میزبانی کرے گا۔ کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات کی بحالی کے لیے ہونے والے اجلاس میں پہلی بار بھارت کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

یہ بات چیت فروری کے وسط میں روسی دارالحکومت ماسکو میں ہو گی اور اس میں، روسی وزیر خارجہ کے مطابق، افغانستان، ایران، چین، پاکستان، روس اور بھارت حصہ لیں گے۔

اسلام آباد میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کو اس بات چیت میں شرکت کی دعوت موصول ہوگئی ہے۔ ان ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغانستان کے حوالے سے سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر پاکستان ہے۔ افغانستان کے اندرونی حالات کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان اور پورے خطے کے مفاد میں ہے‘‘۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس گفتگو کے لیے امریکا کو اب تک مدعو نہیں کیا گیا، جو افغان مسئلے کا ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس کا مطلب ممکنہ طور پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روس اور چین مل کر افغانستان کے حوالے سے ایک علاقائی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم روسی میڈیا نے ایک ملکی سفارت کار کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ روس میں اس مذاکراتی عمل میں امریکا کو مدعو کیا بھی جا سکتا ہے، اگر واشنگٹن یہ فیصلہ کر لے کہ اس جنگ زدہ ملک سے متعلق اس کی پالیسی کیا ہو گی۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک اپنی افغانستان پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔

ان مذاکرات میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہوں گے۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہو گا کہ افغانستان میں حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی بحالی کی کوششوں میں پاکستان کا روایتی حریف ملک بھارت بھی شامل ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں شدید سرد مہری پائی جاتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے لیے یہ بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ اب وہ افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ بنے گا۔ یاد رہے کہ بھارت پچھلے دس سالوں سے افغانستان میں کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے جس کے مطابق بھارت افغانستان کی آرمی کو تربیت کے ساتھ ساتھ فوجی سازو سامان بھی مہیا کرے گا۔

جبکہ دوسری طرف پاکستان کا ٹریک ریکارڈ طالبان کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی حمایت سے کافی خراب ہے۔ افغانستان میں طالبان کی دہشت گردی کے تمام تانے بانے پاکستانی ایجنسیوں سے ملتے ہیں۔افغان صدر اشرف غنی نے بارہا پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگا چکے ہیں جبکہ بھارت بھی پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگاتا ہے۔

روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کل منگل کے روز کہا تھا، ’’ہمیں توقع ہے کہ  تمام ممالک اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔‘‘ اسی پریس کانفرنس کے دوران لاوروف نے کہا تھا کہ ان کی افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ افغانستان کی طالبان تحریک کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کابل حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ بننا ہو گا۔

DW/News Desk

Comments are closed.