کیا دین اسلام کا بھی کوئی متبادل بیانیہ ہو سکتا ہے؟

وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ قوم کے آگے دین کا وہ متبادل بیانیہ رکھنا ہوگا جو مذہب کے نام پر فساد کی مذمت کرتا ہے۔ بریلوی فرقہ کے مدرسے، جامعۂ نعیمیہ لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے لیے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں اور ہمیں ان کو رد کرنا ہے۔‘‘انھوں نے کہا کہ ہمیں فتووں سے آگے نکلنا اور قوم کے آگے دین کا متبادل بیانیہ رکھنا ہو گا اور یہی اسلام کا حقیقی بیانیہ ہے اور آج ضرورت ہے کہ اسے عوام کے سامنے رکھا جائے‘۔

انھوں نے کہا کہ علما کو عوام کو بتانا چاہیے کہ وہ معاشرہ مسلم کہلانے کا مستحق نہیں جس میں مسلکی اختلافات کی وجہ سے انسان قتل ہوں، جہاں اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھیں اور جہاں مذہب اختلاف اور تفرقے کا سبب بنے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ علما کو سوچنا ہو گا کہ ہمارے دینی ادارے دین کے مبلغ پیدا کر رہے ہیں یا مسالک کے علمبردار اور اس کے نتیجے میں معاشرہ دین کی بنیاد پر جمع ہو رہا ہے یا پھر تقسیم؟

نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے لیے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں اور ہمیں ان کو رد کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی بنیادیں انتہاپسندی میں ہیں، وہ انتہاپسندی جو دین کے نام پر پھیلائی جاتی ہے جس کا ایک مظہر فرقہ واریت ہے اور دوسرے مظہر میں جہاد کے تصور کو مسخ کیا گیا ہے اور خدا کے نام پر بےگناہوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

جامعہ نعیمیہ بریلوی فرقے کا ایک اہم مدرسہ ہے ۔ کچھ سال پہلے تک بریلوی فرقہ ایک اعتدال پسند فرقہ سمجھا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ دین کی تشریح کرنے میں سلفیوں اور دیوبندیوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل رہا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش تو بہت عظیم ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دین کی متفقہ تعریف پر پچھلے پندرہ سو سالوں سے کبھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور نہ ہی آئندہ ایسا امکان ممکن ہے ۔ پچھلے پندرہ سو سالوں سے دین کے نام پر مسلمان ایک دوسرے کو ذبح کرتے آرہے ہیں وہ اسی تشریح کا کیا دھرا ہے۔ ہر کوئی اپنے تئیں درست تشریح کا دعویٰ کرتا ہے مگر دوسرا اسے ماننے کو تیار نہیں۔

مغربی دنیا کو تین چار سو سال کی خانہ جنگی اور قتل و غارت کے بعد یہ سمجھ آ گئی کہ امن و شانتی سے رہنے کا واحد حل  سیاست اور مذہب کو علیحدہ کرنا ہی ہے۔ پاکستان سے فرقہ واریت، دین کے نئے بیانیے سے ختم نہیں ہو نے والی ۔الٹا نیا بیانیہ بھی چند سالوں بعد ایک فرقے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔نئے بیانیے سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ۔  پاکستان میں جس نے بھی دین اسلام کا نیا بیانیہ دینے کی کوشش کی ہے اسے اپنی جان بچانے کے لیے ملک سے بھاگ کر ان ممالک میں پناہ لینی پڑتی ہے جومذہب کو سیاست سے علیحدہ کرچکے ہیں۔

وزیراعظم نوازشریف اگر ملک سے فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں سیاست اور مذہب کو علیحدہ کرنا پڑے گا جو کم ازکم پاکستانی ریاست کے لیے ممکن نہیں۔جس ریاست کی بنیادہی مذہبی انتہا پسندی پر رکھی گئی ہو اس سےیہ توقع کرنا کہ وہ مذہبی انتہا پسندی سے باز آجائے ، دیوانے کی بڑ سے کم نہیں۔

کیا پاکستانی ریاست قرارداد مقاصد ( جو کہ مذہبی انتہا پسندی کی بنیادی دستاویز ہے اور پاکستانی آئین کے ابتدائیے میں شامل ہے) سے جان چھڑانے کے لیے تیار ہے؟

News desk

4 Comments