مگر یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیا سمجھے

آصف جیلانی

ہمارا ملک بھی عجیب ہے کہ اطلانتک کے پار ،آٹھ ہزار میل دور، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر نے وہاں ایک اخبار میں کیا ایک مضمون لکھا کہ پاکستان کو ایسے ہلا کر رکھ دیا کہ جیسے اس کی چولیں ڈھیلی ہوگئی ہوں۔واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والا مضمون بھی ایسا کہ اس میں جو لکھا گیا ہے ، اس کے بارے میں بہت کچھ پہلے سے سب کو معلوم تھا۔ یہ محض باسی کڑھی میں ابال ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ حسین حقانی نے اس وقت جب وہ امریکا میں سفیر تھے، سابق صدر آصف علی زرداری کے کہنے پر سی آئی اے اوربلیک واٹر کے ہزاروں عملداروں کو پاکستان میں خصوصی کاروائیوں کے لئے ویزے جاری کئے تھے۔ ہاں حسین حقانی نے پہلی بار یہ دعوی ٰکیا ہے کہ سی آئی اے کے ان عملداروں نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی کمین گاہ کا سراغ لگایا اور یوں اسامہ کی ہلاکت کے سہرے میں ایک پھول ان کے نام کا بھی ہے۔ 

وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ حسین حقانی نے قومی سلامتی کو اعلیٰ سطح پر نقصان پہنچایا ہے۔ لہذا ان کے خلاف پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے۔خواجہ صاحب کا یہ مطالبہ مضحکہ خیز نظر آتا ہے کہ حکومت کا ایک وزیر حکومت سے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہے۔خواجہ آصف نے حسین حقانی پر قومی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے ، وزیر دفاع کی حیثیت سے یہ خود، خواجہ آصف کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ فی الفور ، ان تمام شخصیات کے خلاف اقدامات کریں ،جن کی نشاندہی امریکی جاسوسوں کو ویزوں کے اجراء کے سلسلہ میں حسین حقانی نے اپنے مضمون میں کی ہے۔ 

لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پارلیمانی کمیشن کے قیام سے کیا حاصل ہوگا؟ سوائے اس کے کہ اس معاملہ کو بھی کمیشن کے پردہ میں چھپا دیا جائے۔ پاکستان میں یہ ریت نہیں کہ جو بھی کمیشن مقرر کیا جائے اس کی رپورٹ شائعکی جائے اور عوام کو اصل حقایق سے آگاہ کیا جائے۔ ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جن کے نام پر یہ حکمرانی کرتے ہیں ، انہیں اصل حقائق جاننے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک طویل فہرست ہے ان کمیشنوں کی جو اہم واقعات کی تحقیقات کے لئے قائم کئے گئے تھے لیکن جن کی رپورٹ سرکاری تجوریوں میں بندپڑی ہے۔

سب سے اہم رپورٹ ، ملک کے دو لخت ہونے اور ملک کے دفاع میں فوج کی ناکامی کے بارے میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے تجوری میں مقفل کر دی تھی کیونکہ نشیب میں پانی مرتا تھا۔ اور ملک کے دو لخت ہونے میں ان کا رول بے نقاب ہوتا تھا۔ وہ تو ہندوستان کے میڈیا کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے نہ جانے کہاں سے کھوج کر یہ رپورٹ افشا کر دی ورنہ پاکستانی عوام کو اس کے بارے میں بالکل پتہ نہ چلتا ۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھی پاکستان کی شکست کے ذمہ داروں کا قطعی کوئی احتساب نہیں ہوا۔ 

یہی حال، ایبٹ آباد میں2 مئی 2011کو امریکی سی سیلز کے حملہ اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں عدالتی کمیشن کی رپورٹ کا ہوا۔ سپریم کورٹ کے جج ، جسٹس جاویداقبال کی سربراہی میں عدالتی کمیشن نے 52سماعتوں کے بعد۴ جنوری ۲۰۱۳ کو رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کردی تھی ۔336صفحات کی اس رپورٹ میں ان تمام پہلووں کا جایزہ لیا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن کیسے ۹ سال تک پاکستان میں چھپے رہے اور ایبٹ آباد میں ۲ گھنٹے تک امریکی حملہ کے سلسلہ میں غفلت اور اس کی مزاحمت میں ناکامی کاکون کون ذمہ دار تھا۔

ایبٹ آباد کے حملہ کے فورا بعد میمو گیٹ کے معاملہ نے سر اٹھایا۔ یہ معاملہ اس میمو کے بار ے میں تھا جس کے بارے میں کہا گیا تھاکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو فوج کیطرف سے تختہ الٹے جانے کا خطرہ تھا ۔ صدر زرداری کی طرف سے حسین حقانی نے امریکی ایڈمرل مولن کے نام ایک میمو لکھا تھا جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت بچانے کے لئے اوباما انتظامیہ کی مدد طلب کی گئی تھی۔ حسین حقانی نے یہ میمو ایک امریکی شہری، منصور اعجاز کے ہاتھ ایڈمرل مولن کو بھجوایا تھا۔ پاکستان سپریم کورٹ نے جب اس بارے میں تفتیش شروع کی تو حسین حقانی نے امریکی سفیر کی حیثیت سے استعفی دے دیا۔ 

یہ واضح نہیں کہ انہوں نے کس کے کہنے پر یا کس کے دباو کے تحت استعفی دیا تھا۔ اپریل2012 میں سپریم کورٹ میں حسین حقانی کی گرفتاری اوران کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ کی درخواست دی گئی ۔ لیکن اس سے پہلے ہی حسین حقانی ملک سے فرار ہوگئے۔ بعد میں جب سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ حسین حقانی نے ہی مولن کے نام میمو تحریر کیا تھا توان کی انٹر پول کے ذریعہ گرفتاری کی کوشش کی گئی لیکں حقانی نے پاکستان واپس آنے سے صاف انکار کردیا۔ یوں یہ معاملہ بھی اپنے نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔

اس وقت حسین حقانی چھلاوا ہیں، اور اس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحفظ اور عنایات کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حقانی اس کایاں پرندے کی مانند ہیں جو ہوا کے رخ کے ساتھ ہر درخت کی ٹہنی پر پھدک کر جا بیٹھتا ہے اور پھل کترنے کے بعد دوسرے درخت پر جا بیٹھتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ1988میں انتخابات کے دوران جب میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان معرکہ جاری تھا۔ میں نے بی بی سی اردو سروس کے لئے حسین حقانی سے انٹرویو کیا تھا۔

اس انٹرویو میں حقانی نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی جو گندی زبان استعمال کی اس پر مجھے سخت حیرت ہوئی اور اسے نشر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔پھر1993 میں جب بے نظیر بھٹو بر سر اقتدارآئیں تو میں حقانی کو بے نظیر بھٹو کے مشیر کے عہدہ پر فائزدیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے بے نظیر بھٹو کے ایک قریبی معتمد ، اپنے قریبی دوست بشیر ریاض سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تو بشیر ریاض نے یہ جواز پیش کیا کہ بے نظیر بھٹو ، اسٹبلشمنٹ سے رابطہ رکھنا چاہتی ہیں۔ حسین حقانی، بے نظیر بھٹو کے ایسے ہی قریبی مشیر بنے رہے جس طرح وہ ۱۹۹۰ سے ۱۹۹۲ تک میاں نواز شریف کے قریبی مشیر تھے ۔ پھر ۱۹۹۲ سے ۱۹۹۳ تک ان کی حکومت کے سری لنکا میں سفیر رہے۔ 

اب حسین حقانی کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، جو عملی طور پر محال ہے کیونکہ اس وقت ان پر امریکی دست شفقت ہے دوسرے ان کو پاکستان لانا یکسر نا ممکن ہے۔ ہاں البتہ ان شخصیات کے خلاف بلا شبہ مقدمہ چلایا جانا چاہیے جن کی حقانی نے ہزاروں امریکی جاسوسوں کے ویزوں کے اجراء کے سلسلہ میں نشاندہی کی ہے۔ اس بارے میں بھی تفتیش ہونی چاہئے کہ سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کے مقدمہ کے دوران انہیں امریکی سفیر کے عہدہ سے مستعفی ہونے کا کس نے مشورہ دیا یا ان پر دباو ڈالا اور ملک سے فرار ہونے میں کس نے مدد کی؟

اس بات کی بھی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے کہ اس وقت ، حسین حقانی کا یہ مضمون لکھنے کا اصل مقصد کیا ہے۔ مگر یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیاسمجھے۔

3 Comments