بھارت:مسلمانوں کی شکست کے ذمہ دار خود مسلمان

بھارتی پریس سے ۔۔۔ظفر آغا

پچھلے ہفتہ یو پی چناؤ میں ہم لکھنؤ ہار گئے۔کیا اس شکست کا ذمہ دار محض سنگھ پریوار تھا ؟

اس سوال کے جواب سے قبل اس سے جڑے چند سوالات کہ کیا 1856 میں واجد علی شاہ کی شکست کا ذمہ دار بھی سنگھ پریوار تھا اور اس کے بعد 1857 میں مغلوں کا چراغ بھی سنگھ کے ہاتھوں گُل ہوا تھا ؟ اس سے 100سال قبل 1757 میں کیا بنگال کی شکست کی ذمہ داری سنگھ پریوار کی تھی؟۔ سنگھ کا قیام 1925 میں ہوا تھا اس لئے ظاہر ہے کہ وہ 1856،1857 ہو یا پھر اس سے قبل 1757 کی شکست ہو ، ان تمام زوال کا سبب سنگھ پریوار نہیں تھا۔

لیکن پچھلے ہفتہ یو پی چناؤ کی شکست سے لے کر 1757 کی شکست میں ایک رُخ مشترک ہے اور وہ ہے مسلمانوں کا زوال۔ 1757 سے قبل ہندوستانی مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ آج سے بھی کم اقلیت کے باوجود پورے برصغیر ہند بلکہ افغانستان تک حاکم تھے اور سیاسی، سماجی و تہذیبی ہر سطح پر ان کا پرچم لہرا رہا تھا۔ یعنی 1757 میں کچھ ایسا ہوا کہ ہندوستانی مسلمان پھر سنبھل نہ سکے، اور تب سے اب تک مستقل زوال پذیر ہیں اور ان کی زبوں حالی کا یہ حال ہے کہ وہ اب غلامی کی کگار پر ہیں اور اب ان کی مسجد پر بی جے پی کا جھنڈا بلند کیا جارہا ہے اور دیہاتوں میں پوسٹر لگائے جارہے ہیں کہ’’ گاؤں خالی کرو ! ‘‘ ۔ یہ کیا ہوا، اور کیوں ہوا؟ سلطنت سے غلامی تک  کا یہ سفر آخر اس کی وجہ کیا ہے اس کا سبب کیا ہے؟

مسلمانوں کی غفلت کا عالم یہ ہے کہ وہ ہر شکست پر چند آنسو بہاتے ہیں اور پھر اپنی ذلت بھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم زوال کے اسباب پر بحث ہو اور پھر کوئی راستہ تلاش ہو۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف پہلے بھی کچھ قلم تراشی کرتا رہا ہے اور پھر ایک بار اسی جانب واپس جانے کی جرأت کررہا ہے۔

سنہ1757 میں نواب سراج الدولہ کی شکست سے لے کر 1857 میں بہادر شاہ ظفر کی شکست انگریزوں کے ہاتھ ہوئی، یعنی انگریزوں نے اس ملک میں قدم رکھا اور بس پھر مسلمانوں کی زبوں حالی اور زوال کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ آخر انگریزوں کے پاس ایسی کیا شئے تھی کہ جنہوں نے تقریباً 800 برس سے جمے ہوئے ہندوستانی عروج کے قدم اُکھاڑ پھینکے ، یہی وہ نکتہ ہے جس میں مسلمانوں کے زوال کا راز پنہاں ہے اور اسی نکتہ کو سب سے پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سنہ1757 میں لارڈ کلائیو نے جب نواب سراج الدولہ کو شکست دی تو اسوقت ہندوستان اور انگلستان میں بڑا فرق آچکا تھا۔ سیاسی، سماجی اور معاشی بلکہ یوں کہیں کہ تہذیبی و تاریخی اعتبار سے اسوقت کا ہندوستان اور مسلمان زمیندارانہ نظام میں جی رہے تھے۔ جبکہ انگلستان ہی نہیں بلکہ پورے یوروپ میں انڈسٹریل انقلاب کی لہر دوڑ رہی تھی۔ انگریز اسوقت زمیندارانہ نظام سے نکل کر انڈسٹریل دور میں قدم رکھ چکا تھا۔

بس یہ وہ انقلاب تھا کہ جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی ساری دنیا میں کایا پلٹ دی۔ اس سے قبل مسلمان سوپر پاور تھے، کبھی شام تو کبھی بغداد، کبھی ہندوستان تو کبھی ترکی میں قائم مسلم حکومتوں کا دبدبہ ساری دنیا پر ویسے ہی تھا جیسے آج امریکہ اور یوروپ کا دبدبہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرون وسطیٰ میں مسلم عروج اور مسلم دبدبے کا دور تھا، تو تاریخی اعتبار سے یہ غلط نہ ہوگا۔ لیکن 18ویں صدی میں یوروپ نے جو انگڑائی لی اس نے ساری دنیا کو یوروپ کا غلام بنادیا اور وہ انگڑائی تھی سائنس کی انگڑائی۔

سائنس کا علم وہ جادو کی چھڑی تھی جس نے انگریزوں کیلئے قدرت کو سمجھنے کے گُر سکھادیئے۔ بس پھر کیا ، اب یوروپ پانی سے بجلی بنارہا تھا اور اس بجلی سے فیکٹریاں قائم کررہا تھا۔ فیکٹریوں کے قیام نے طرح طرح کی نئی سائینسی ایجاد کی اور پھر راہیں کھلنے لگیں۔ اب یوروپ کبھی ریل گاڑی پر تھا تو کبھی موٹر پر سوار تھا تو کبھی ہوائی جہاز سے فضاؤں میں  پرواز کررہا تھا۔ یعنی سائنسی علوم نے یوروپ کے لئے ترقی کے ایسے دروازے کھول دیئے جو دنیا بھر کے لئے اسوقت ہر قوم یا بشمول ہندوستانی مسلمانوں پر بند تھے۔

اس سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ ساتھ یوروپ میں ایک اور انقلاب آیا۔ سائنسی ایجادات نے انڈسٹریل، سرمایہ دارانہ معیشت کو جنم دیا۔ اب اس معیشت کو ایک نئی سیاست، ایک نئے طرز علوم اور نئے اداروں کی تلاش تھی۔ یعنی اب یوروپ کے لئے زمیندارانہ طرز نظام زندگی بے سود ہوچکا تھا۔ چنانچہ یوروپ میں اب نئے سیاسی انقلاب پھوٹ پڑے جس کی شروعات 1789 میں فرانسیسی انقلاب سے ہوئی۔

اس انقلاب کے اُس وقت دو بنیادی پہلو تھے۔ اول یہ کہ انقلاب شاہی نظام کے خلاف جمہوری نظام کی داغ بیل ڈال رہے تھے اور دوم یہ کہ نظریاتی سطح پر چرچ کو چیلنج کرکے اندھے عقیدہ کی جگہ عقل کا راج قائم کررہے تھے۔ اس تاریخ ساز یوروپی اُلٹ پھیر نے اس دور میں پورے ایک نئے تہذیبی نظام کو جنم دیا جو سرمایہ دارانہ نظام زندگی تھا، اور اس نظام زندگی میں زمیندارانہ نظام کے بجائے ایک جمہوری نظام سیاست پنپ رہا تھا، اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹریل نظام معیشت بھی جنم لے رہا تھا۔ سائنسی و ٹیکنیکل نظام کی ترقی کیلئے ایک نیا تعلیمی نظام یونیورسٹیوں اور نئے اسکولوں کی شکل میں پرورش پارہا تھا۔

باالفاظ دیگر جس یوروپ کے ہاتھوں ہندوستانی مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا زوال ہوا، وہ یوروپ تاریخی و تہذیبی اعتبار سے مسلمانوں سے سائنسی انقلاب کی بنا پر بہت آگے نکل چکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستانی مسلمانوں کے پیروں تلے زمین کھسک چکی تھی تب ہی تو وہ نواب سراج الدولہ ہوں یا نواب واجد علی شاہ یا مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر سب ایک ایک کرکے انگریزوں سے شکست کا شکار ہورہے تھے۔

وجہ یہ تھی کہ مسلمان تاریخی و تہذیبی اعتبار سے زمیندارانہ نظام ہی پر اکتفاء کیا ہوا تھا جبکہ یوروپ سائنس کی پشت پر سوار تاریخ و تہذیب کے ایک نئے دور میں پہنچ کر ترقی کی نئی راہیں کھول رہا تھا تب ہی تو مسلمان مستقل زوال کے شکار ہوتے رہے، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ ساری دنیا کا مسلمان تاریخی و تہذیبی اعتبار سے اپنی زمیندارانہ قدروں کی زنجیروں میں قید ہے۔

کبھی اسلام کے نام پر اسامہ بن لادن اور کبھی البغدادی جیسوں کی وحشت انگیز احتجاج کی آواز تو اٹھتی ہے لیکن کہیں کوئی کامیابی ہاتھ نہیں آتی۔ ہم نے ہندوستان میں اپنی سیاست کو علماء کے ہاتھوں گروی کردیا ہے جو جمہوری سیاست کے پیچ و خم کو سمجھنے سے بے بہرہ ہیں۔ نتیجہ میں یو پی چناؤ کی شکست سے لے کر 1757 تک شکست و زوال کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک کہ مسلمان فکری طور پر جدید سائنسی دور کو گلے نہیں لگاتے۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا