نسل انسانی کے لئے نشاۃ ثانیہ ۔۔۔

پا ئند خان خروٹی

ادب اور سیاست کی رنگینی اور خوبصورتی ترقی پسدانہ نظریات سے وابستہ ہے اور ترقی پسند ادب معاشی آسودگی ،سیاسی آزادی اور معاشرتی مساوات کو یقینی بنانے کیلئے طبقات پرمبنی استحصالی نظام کے خاتمے کو اولین شرط قرار دیتا ہے ۔ اہل علم ودانش کاسماج میں اہم فریضہ سماج میں موجودہ طبقاتی تضاد کو اجاگر کرنا اور مظلوم طبقات کی بھرپور نمائندگی کرنا ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں جبر واستحصال سے پاک ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کیلئے زیر دست طبقے کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ محرو م ومحکوم لوگوں کی فکری رہنمائی بھی انہی اصحاب فکر ونظر کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن ایک خلقی دانشور کی سوچ واپروچ میں اس قوت آفاقیت نمودار ہوجاتی ہے جب وہ زیار کشوں اور کسانوں کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیتا ہے ۔

یہیں سے تخلیق ، تعمیر اور مقصدیت سے معمور فکر وادب کی سچی بنیادیں پڑنا شروع ہوجاتی ہے ۔ طبقاتی جدوجہد کے اس ارتقائی سفر میں مارکسی نظریہ اور مبارزہ کے ساتھ ہم آہنگی سے ہی لوکل اور گلوبل میں قربت پیدا ہوتی ہے ۔ جرمن مفکر گوئٹے نے لفظ قومی ادب کو بے معنی قرار دیتے ہوئے عالمی ادب کازمانہ آ پہنچنے اور اس تک جلد رسائی حاصل کرنے کو یوں بیان کیا ہے :۔
National Leterature is now umeaning term; the epoch of the world leterature is at hand and everyone must strive to hasten its approach.”(1)

ترقی پسند ادب سے کیا مراد ؟ ترقی پسندی کا تمام تر منظر نامہ کیوں عقیدت کی بجائے مزاحمت پر استوار ہوتا ہے؟ یہ کس طرح بادار کے دربار میں پرورش پانے کی بجائے طبقاتی شعور کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ؟ مارکسی نظریہ کیوں کسی ادیب کو ادب برائے ذہنی عیاشی یاتفریح کاوسیلہ بنانے سے روکتا ہے ؟ کیا ترقی پسندانہ نظریات انسانوں کو تقسیم کرنے اور ان میں اونچ نیچ پیدا کرنے کی بجائے تمام بنی نوع انسان کی حدود اور یگا نگت کاباعث بن سکتا ہے ؟ ترقی پسند ادب پوری انسانیت کانشاۃ ثانیہ بنانے کیلئے لوگوں کو سلانے ، مطمئن کرنے اور رُلانے سے زیادہ ان کے ذہنوں میں باغیانہ جذبات اُبھارنے کوکیوں اولین شرط قرار دیتا ہے ؟

ان سوالات کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جدید دنیا کی جدید سہولتوں سے لطف اندوز ہونے، نت نئی سائنسی ایجادات کو استعمال کرنے اور ترقی پسندی کا لیبل لگانے ، چند مخصوص خیالات کی جُگالی کرنے ، چند کتابوں کے نام زبانی یاد رکھنے یاترقی پسند نظریات وتاریخ کے بارے میں محض معلومات حاصل کرنے سے کوئی ادیب یا سیاستدان ترقی پسند نہیں بن سکتا بلکہ انقلابی نظریہ ، ترقی پسند ادب اور معروضی سیاست کی نوعیت اور خاصیت اہل قلم وفکر کو امتیازی بناتا ہے ۔ ترقی پسندانہ نظریات کو اپنے رویوں کالازمی جُز بنانے سے دیکھنے اور پرکھنے کے انداز بدل جاتے ہیں ۔

ترقی پسند ادبی تحریک کا حصہ بننے اور ترقی پسندی اپنانے سے پہلے ترقی پسندانہ نظریات کودرست انداز میں سمجھنے اور ان کے تاریخی پس منظر سے متعلق معقول علم و معلومات حاصل کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ جذباتی وابستگی قائم رکھنے اور غیر عقلی ربط وتعلق بنانے سے ا نسان اصل راہ سے بھٹک جاتا ہے ۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ ظلم ، استحصال ، ناانصافی اور غلامی کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کے بیشمار واقعات وشخصیات سے بھری پڑی ہے لیکن انسانی تاریخ میں پہلی بار حقیقی معاشی آزادی اور مساویہ نہ حقوق وسلوک کے حصول کیلئے پرولتاریہ کے مبہم کردار کو واضح کرنے کاسہرا اشترا کی مفکرین کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے سر ہے ۔ یہیں سے خیالی اور سائنسی کمیونزم کافرق واضح ہوتا ہے ۔

’’ مارکس اور اینگلز کی جدلی مادیت اشتمالیت کاسنگ بنیاد ہے۔ مارکس نے فوئر باخ کی مادیت پر ہی قناعت نہیں کی بلکہ ہیگل کی جدلیات کومادیت میں منتقل کرکے جدلی مادیت کی تاسیس کی ۔ مارکس نے سب سے پہلے نظریہ اور عمل کی تفریق کوختم کیا اور کہا کہ نظریہ اور عمل کامل اتحاد ہے کیونکہ جدلی مادیت بہ یک وقت ایک نظریہ بھی ہے اور عمل بھی ہے جو شخص اس کاقائل ہوتا ہے وہ اس کی عملی ترجمانی کیلئے کوشاں رہتا ہے ۔ اس کی روح سے فلسفی اس شخص کو نہیں کہیں گے جوگوشتہ تنہائی سرنگوں بیٹھا خیالات میں غرق رہتا ہے بلکہ فلسفی وہ ہے جو اپنے نظریے کی عملی تعبیر کیلئے کشمکش کرتا ہے ‘‘۔(2)۔
دنیا میں ترقی پسندوں کے مزل اور منزل میں مشترکات پائے جاتے ہیں ۔ ترقی پسند اہل علم ودانش شخصی ملکیت کو تمام برائیوں اورفساد کی جڑ قرار دینے پر متفق ہیں ۔ ا ن کی سوچ واپروچ جدلیاتی مادیت پرمبنی ہوتی ہے۔ وہ انسانی زندگی کو جہد مسلسل سمجھ کر اس کو پیچھے دھکیلنے کی بجائے آگے بڑھنے کی جانب گامزن کردیتے ہیں ۔ وہ ماضی کے خرافات اور روایتی تو ہمات کو حال پر مسلط نہیں ہونے دیتے ۔ وہ ہر قسم کے تعصبات وذاتی مفادات کو بالا ئے طاق رکھ کر صرف مفاد خلق کوعزیز رکھتے ہیں ۔ وہ انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے استحصال کے سخت مخالف ہیں ۔ ان کے نزدیک لوگوں کے مسائل ومشکلات کی بار بار تشریح کرنے سے ان کا پائیدار حل زیادہ اہم سمجھتے ہیں ۔

ترقی پسند اہل قلم اپنے نظم ونثر میں انسانوں کے مشترکہ مقاصد کواجاگر کرنے پر زور دیتے ہیں ۔ وہ رنگ ونسل اور جغرافیائی حدود کو توڑ کر صرف انسانی حدود قائم کرنے کیلئے انسانی معاشرے کی عظیم اکثریت کومنظم اور متحرک کرنے کیلئے شعوری کاوشیں کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ عظیم اکثریت کی اجتماعی آزادی اور معاشی آسودگی میں کسی کی انفرادی حیثیت ہر گز ختم نہیں ہوجاتی بلکہ مارکسی نظریات انسان اور سماج دونوں کی آزادی کاحسین امتزاج ہے ۔’’ انفرادی آزادی کے معنی یہ نہیں ہے کہ انسانی سماجی حالات سے بے نیاز ہوکر جو چاہے کرے ، آزادی اور ضرورت کے باہمی تعلق کو سمجھ کر ہی ہم حقیقی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اوران حدود کومتعین کرسکتے ہیں جن کے اندر ہمارا عمل واقعی آزاد ہوسکتا ہے‘‘۔(3)۔

مارکسی تعلیمات کے مطابق علم کیلئے عمل اور عمل کیلئے علم کو لازم وملزوم قرار دیاگیا ہے جبکہ علم اور عمل دونوں کافریضہ سماج کی آزادی اورانسانی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے میں بے علم اور بے عمل لوگوں کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور علم اور عمل دونوں مارکسی تنقید سے گزرنے کے بعد ہی نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں ۔ اس ضمن میں اشترا کی نظریات میں انقلابی عنصر کے شامل ہونے اور علم وادب کوترقی پسند بنیادیں فراہم کرنے کو علی عباس جلالپوری نے یوں بیان کیا ہے ۔’’فرانس میں بالزک، انگلستان میں ڈکنز اور روس میں گوگل اس تحریک کے بلند پایہ ترجمان تھے ۔

بیسویں ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں اشتراکیت کے فروغ کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند ی میں انقلابیت کاعنصر پیدا ہوا اور اسے ترقی پسندی کانام دیاگیا ۔ ترقی پسند قصہ نویسیوں ،شاعروں اور تمثیل نگاروں کاعقیدہ تھا او ر ہے کہ حیات ایک تخلیقی عمل ہے جس کامقصد یہ ہے کہ انسان کی فنی صلاحیتوں کو پوری طرح پنپنے کے مواقع دیئے جائیں اور اس دنیا کو بنی نوع انسان کیلئے خوبصورت اور دل آویز ٹھکانہ بنایا جائے ۔ اشترا کی معاشرے میں پہلے بار محنت کش بطور ہیرو کے ظاہر ہوا جس کے انقلابی عزائم کااظہار ترقی پسند ادب میں ہوتا ہے ‘‘۔(4)۔

طبقاتی جدوجہد میں استحصالی نظام بدلنے کافریضہ پرولتاریہ طبقے کو سرانجام دینا ہے اس لئے ہمیں تمام مظلوم طبقات کومنظم اور متحرک کرنے کیلئے دور رس کوشش کرنی ہوں گی ۔ منافع پرمبنی بورژوازی نظام کو سر کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے ترقی پسند ادب کو سیاست ، صحافت اور دیگر علوم کے ساتھ جوڑ کر ہی مربوط ومنظم رکھا جاسکتا ہے ۔ ادب کو سیاست اور سماج سے الگ کرنا اوراپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ لہذا یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ انسان اور انسانیت کی ترقی کا راز ترقی پسندانہ نظریات میں پیوست ہے اور ترقی پسندانہ نظریات پرعمل درآمد ہی پوری انسانیت کیلئے نشاۃ ثانیہ کاباعث بن سکتا ہے ۔

حوالہ جات :۔
۔1۔ By Dr. David Damrosch What is World literature 2003,ء ۔ ص2۔
۔2۔ جلالپوری ، علی عباس ،ر وایات فلسفہ 2013ء ، ناشرتخلیقات لاہور ، ص140
۔3۔ حمیرا اشفاق،فکری ونظری مباحث، ترقی پسند تنقید۔ پون صدی کاقصہ، 1936تا 2011ء
ناشر سانجھ پبلیکیشنز لاہور ، 2012ء ص 203
۔4۔ جلالپوری ، علی عباس ، تاریخ کانیا موڑ، 2013ء ، ناشر تخلیقات لاہور ، ص 131/132

6 Comments