الحمدللہ ہم بھی یوسف زئی پٹھان ہیں

جمیل احمد خان

بچے سب ہی کو اچھے لگتے ہیں، خوبصورت بچوں کو ہر ایک پیار کرنا چاہتا ہے، لیکن کسی بچے کو ایک اک گھنٹے تک گود میں صرف حقیقی ماں باپ ہی اُٹھائے پھرتے ہیں۔ اپنا بچہ نہ ہو تو پانچ دس منٹ بعد ہی اکثر لوگوں کو بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ہماری چھوٹی بیٹی اب ماشاءاللہ سترہویں برس میں داخل ہوچکی ہے۔ بچپن میں بہت صحت مند تھی، ہم پیار سے اسے ٹُوٹُو بلاتے تھے۔ سولہ برس قبل کئی کئی گھنٹے ہم اسے گود میں اُٹھائے پھرتے تھے۔ اب اتنے وزن کے بچے کو دو منٹ اُٹھانا بھی ہمارے لیے دشوار ہوجاتا ہے، جبکہ اپنے بچے کا وزن بوجھ ہی نہیں لگتا تھا۔

 اپنا بچہ جیسا بھی ہو، ماں باپ کے لیے حسین و جمیل ہی ہوتا ہے۔ والدین اپنی اولاد کی ہر بات پر ہنستے ہیں اور اس کی شرارتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن وہی بات یا شرارت کسی دوسرے کا بچہ کرجائے تو ناک بھوں چڑھالیتے ہیں، سامنے سے کچھ نہ بولیں تو پیچھے ضرور بڑبڑاتے ہیں، اور بعض تو ڈانٹ بھی دیتے ہیں۔

 ایسے والدین جو اپنے بچوں کی ہر بات پر ہنسنے اور بہت سی بے ضرر دکھائی دینے والی شرارتوں کو نظرانداز کرنے کے بجائے ان کی تربیت کے بارے میں سوچتے ہوں، ان کے بچے ماحول کے برے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں اور تہذیب و تمیزداری قائم رکھتے ہیں۔

 جس طرح ہم اپنے بچوں کی بہت سی غلط باتوں کو نظرانداز کردیتے ہیں، اسی طرح اپنے خاندان کے لوگوں کی بُرائیوں پر بھی پردہ ڈالتے ہیں،اور بالکل اسی طرزفکر کے تحت اپنی برادری اور قوم کے لوگوں کی خوبیاں مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور برائیوں کو نظرانداز کرجاتے ہیں۔ ایک لحاظ سے تو یہ اچھی بات ہے، اور شاید انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ لیکن جب اس اندازِ فکر کے تحت مبالغہ آرائی بڑھتی جائے اور بُرائیوں سے بڑھ کر جرائم تک پر پردے ڈالے جائیں تو پھر یہ فکر، فکر نہیں رہتی، بلکہ ایک موذی مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

 کسی قوم کو بُرا کہنے کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو ان بُرائیوں سے مبرّا خیال کرتے ہیں، جن بُرائیوں کی وجہ سے کسی قوم کو لعن طعن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مختلف قوموں پر بنائے گئے لطیفے بدتہذیبی کے زُمرے میں شمار کرتے ہیں۔

 اسکول کی تعلیم کے دوران دوستوں کے گروپ میں ہم اکیلے خان تھے، چنانچہ پٹھانوں پر بنائے جانے والے تمام لطیفوں کا ہدف ہم ہی بنا کرتے تھے۔ حالانکہ ہم محض نسلاً پٹھان ہیں، پشتو زبان کی گنتی بھی یو، دوَہ، درے، سلور، پنزہ، شپگ سے آگے تک نہیں آتی۔ ہمارے ماموں روانی سے پشتو بولتے تھے، ان کے گھر پر آج بھی یوسف زئی منزل کی تختی لگی ہوئی ہے۔

 ہر قوم میں اچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ قومی تعصب ایک حد تک ہو تو قوم کی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ جب اپنی قوم کے جاہلوں، ظالموں، دوسروں کا حق مارنے والوں، دھوکے بازوں، چوروں، بدمعاشوں، لٹیروں اور دہشت و وحشت کا کاروبار کرنے والوں کے کرتوتوں پر پردے ڈالے جائیں تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس قوم میں ان برائیوں کی کثرت ہوجاتی ہے اور پھر اس کا نام برائیوں سے منسوب ہوجاتا ہے۔

 لیکن اس سب کے باوجود بھی ہم سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کو برائی سے منسوب کرنا خود ایک بُرا عمل ہے۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں آپ اس قوم میں موجود اچھے اور نیک لوگوں کے ساتھ زیادتی کررہے ہوتے ہیں۔

 مثال کے طور پر پشتون قوم کے بارے میں پاکستان میں بالعموم اور بیرونِ پاکستان بالخصوص یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں خواتین کو چادر اور چار دیواری میں قید کرکے رکھا جاتا ہے۔ لیکن پشتون قوم میں ہی ملالہ یوسف زئی بھی ہمیں نظر آتی ہے، جس کا قدوکاٹھ بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستانی خواتین میں بلند دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ہم یہاں ملالہ کا تذکرہ نہیں کریں گے، کہ بقول محترم صابر نذر کے اگر آپ کو سگریٹ سلگانی ہو، آپ کے پاس ماچس نہ ہو اور آپ کے اردگرد جماعتی موجود ہوں تو آپ فقط ملالہ یوسف زئی کا نام لے لیجیے، آگ لگ جائے گی، آپ سگریٹ سلگا لیجیے…. لیکن چونکہ یہاں آگ لگانا مقصود نہیں ہے، اس لیے ہم ملالہ کے بجائے ماریہ طور پکے وزیر، ثمر خان، نازیہ پروین، صبا اسماعیل اور گلالئے اسماعیل کے نام پیش کرنا چاہیں گے۔ ان پشتون بیٹیوں نے اپنی قوم کا ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کیا ہے۔

ماریہ طور کا تعلق وزیرستان سے ہے، ان کے والد باریش ہیں اور قبائلی رواج کے مطابق پگڑی باندھتے ہیں۔ بچپن میں ماریہ ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتی رہیں، پھر انہوں نے اسکواش سیکھنا شروع کیا، ان کے بارے میں تفصیلی معلومات نیٹ پر موجود ہے، کمنٹس میں ہم کچھ وڈیوز بھی شیئر کردیں گے۔ 

ہم ماریہ کا ذکر کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جس جرأت کا مظاہرہ ماریہ کے والد نے کیا اور طالبان کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے دباؤ میں آئے بغیر ماریہ کو اسکواش کی تربیت کے لیے تنہا کینیڈا بھیجا، ایسی جرأت و بہادری کا مظاہرے کی توقع کراچی کے بظاہر روشن خیال دکھائی دینے والے افراد سے نہیں کی جاسکتی۔ میں ایسے بہت سے افراد کو جانتا ہوں، جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو پیشہ ورانہ تعلیم تو دلوادی، لیکن اس پیشے کو اپنانے کی اجازت نہ دی، اور ان کی ایسے لڑکوں سے شادیاں کردیں، جو ان کے مقابلے میں کم پڑھے لکھے تھے۔ اب یہ ڈاکٹرز انجینئرز لڑکیاں گھریلو کام کررہی ہیں۔

 جبکہ وزیرستان کی ماریہ طور ہی نہیں، ریکارڈ قائم کرنے والی سائکلسٹ ثمر خان، پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما نازیہ پروین، اور پشتون خواتین میں آگاہی کے مشن کو فروغ دینے پر عالمی اعزازات حاصل کرنے والی بہنیں صبا اسماعیل اور گلالئے اسماعیل انتہائی خطرناک ماحول اور سخت مزاحمت کے باوجود اپنے اپنے عزم پر قائم ہیں۔

آج گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ کمپیوٹر اسکرین سے بھی مختصر ہوکر موبائل اسکرین میں پوری دنیا سمٹ آئی ہے۔ چنانچہ بہت سے تعصبات دم توڑ رہے ہیں، ایسے گھر انے جہاں کسی دوسری برادری و ثقافت کا لباس پہننے اور کھانا پکانے کو سخت معیوب سمجھا جاتا تھا، آج انہی گھرانوں میں اطالوی نان یعنی پزّا شوق سے تناول فرمایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کم از کم مردوں کی حد تک تو لگ بھگ ایک جیسا فیشن رائج ہوتا جارہا ہے، اور ہمارے ہاں خواتین کے مشرقی لباس بھی مغربی فیشن سے متاثر ہوئےبغیر نہیں رہ پاتے ہیں، ایسے ماحول میں مذہبی، قومی، لسانی اور نسلی تعصب ہماری قومی بقا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے، اسے بہرحال ختم کرنا ہی ہوگا، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔

3 Comments