انسان کا علم کیسے بڑھتا ہے.1

فرحت قاضی

آپ سے ایک سے زائد مرتبہ یہ کہا گیا ہوگا کہ آپ تو پڑھے لکھے ہو پھر یہ کیسے ہوگیا یہ وہ لوگ کہتے ہیں جن کے نزدیک علم صرف کتابوں سے ہی حاصل ہوتا ہے بلاشبہ کتابیں تعلیم کا ذریعہ ضرور ہیں مگر یہ واحد ذریعہ نہیں ہے نو مولود بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے اسی لئے نپولین نے ماں کے تعلیم یافتہ ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا: ۔
’’
تم مجھے تعلیم یافتہ مائیں، میں پڑھی لکھی قوم دوں گا‘‘۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے اور ان میں تعلیم کی افادیت وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے پاکستان میں بھی نئے رحجاتات دیکھنے کو ملتے ہیں اب ایک لڑکا تعلیم یافتہ لڑکی سے ہی شادی کا خواہش مند ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت ہی اس کے خیالات پڑھ سکتی ہے اور اس کے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے بھی یہ ازبس ضروری ہے جبکہ بعض نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ لڑکی کے با روزگار ہونے کے بھی آرزو مند ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مہنگائی اور بڑھتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل کے حل اور معیار زندگی کو معقول بنانے کے لئے گاڑی کے دونوں پہیوں کا متحرک ہونا ہی اس کی ضمانت ہے۔

گو کہ ہمارے سماج میں ایسے انسانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کے تصور کو محض اس بنیاد پر رد کرتے ہیں کہ یہ نک چڑھی اور شوہر کا احترام کرنا نہیں جانتی ہیں مساوی حقوق کی آرزو مند ہوتی ہیں یہ کہتے وقت ان کے ذہنوں میں یہی ایک خیال ہوتا ہے وہ یہ نہیں جانتے کہ ان پڑھ بیوی کی صورت میں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کیا ہوگا بہر کیف، لڑکوں کے ساتھ ساتھ اب لڑکیوں کی خواندگی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

اس کے اسباب میں جہاں سرمایہ دارانہ ضرورت ہے جسے پڑھے لکھے مزدوروں کی ایک فوج درکار ہے تو ہماری انفرادی اور خاندانی مجبوریاں بھی ہیں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں بے انتہا بڑھوتری ہوئی ہے تو کچھ اپنے آس پاس کا شعور ہے ۔والدین دیکھ رہے ہیں کہ اب لڑکیوں کے تعلیم یافتہ ہونے پر برا نہیں منایا جاتا ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں اگر ایک بچی شادی سے محروم بھی رہتی ہے یا اس سے شوہر بے وفائی کرتا ہے تو وہ اپنے معاش کا بوجھ اپنے کندھوں پر خود اٹھا سکتی ہے اسے کسی کے سامنے ہاتھ دراز نہیں کرنا پڑیں گے تعلیم ایک لڑکی میں اعتماد بھی پیدا کرتی ہے۔

بہر کیف، یہ تو والدین کی سوچ ہے کہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں دونوں تعلیم یافتہ ہوں سرمایہ دارانہ ضرورت بھی ان میں یہی شعور پیدا کر رہا ہے مگر اسی ملک اور سماج میں وہ طبقہ بھی سانس لے رہا ہے جس نے صدیوں غریبوں کو لاعلم رکھا یا پھر ان علوم تک محدود رکھا جس سے یہ طبقہ مستفید ہوتا رہا یہ وہی طبقہ ہے جس نے اپنی دولت کے بل بوتے پر تمام سہولیات، آسائشات اور تعیشات کو اپنی بلند و بالا عمارات میں لونڈی بنا رکھا تھا یہ آج بھی فرسودہ روایات کا سہارا لے رہا ہے اور لڑکیوں کے حصول تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

بچے کا دوسرا سکول اس کا محلہ، کالونی اور آبادی ہوتا ہے ماں اور خاندان کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت کے حوالے سے آبادی کی افادیت بھی اجاگر ہوتی جارہی ہے قدیم معاشرہ میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے انفرادی اخلاق و آداب پر تما م زور صرف کیا جاتا تھا چنانچہ قریبی عبادت گاہ میں جو کچھ پڑھایا جاتا تھا تو درسی نصاب کا بڑا حصہ بھی انہی اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ہوتا تھا مگر رفتہ رفتہ انسانوں میں یہ احساس بھی پیدا ہونے لگا کہ افراد خانہ کے ساتھ ساتھ محلہ بھی تعلیم یافتہ ہونا چاہئے یہی وجہ ہے کہ پوش آبادیوں کی طرف ہجرت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کیونکہ وہ تعلیم یافتہ افراد کا ماحول چاہتے ہیں۔

ان خاندانوں کا یہ خیال صحیح ہے کہ بچہ نہ صرف اپنے ماں باپ ، بڑے بھائیوں اور بہنوں سے سیکھتا ہے بلکہ محلہ کے بچوں سے کھیلتے وقت بھی ان کے تصورات اور عادات اپنالیتا ہے لہٰذا محلہ کا ماحول بہتر بنانے کی ضرورت مزید واضح ہو جاتی ہے اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر کیوں نہ علاقہ ہی بدل لیا جائے۔

سکول کی افادیت اظہر من الشمس ہے اس کا بنیادی مقصد ہی بچوں کو تعلیم دلانا ہے البتہ اس کا انحصار ملکی نظام اور معاشرے کے طبقاتی سیٹ اپ پر ہے اگر ملک میں جاگیرداروں کے اختیارات سب سے زیادہ ہیں وہ اس کی پالیسیاں بناتے ہیں اور تعلیمی پالیسی کے اختیارات بھی ان کے پاس ہیں تو ایسی صورت میں وہ اپنے طبقاتی مفادات کو پیش نظر رکھ کر نصاب ترتیب دیں گے چنانچہ اگر درسی کتب میں خاندان، اخلاقی قدروں، بڑوں کا احترام، ہمسایہ ممالک اور دیگرمذاہب کے پیروکاروں سے نفرت ، روایات اور توہمات کو زیادہ جگہ اور اہمیت دی گئی ہے طالب علموں کو اخلاق و آداب سکھانے پر زیادہ وقت صرف کیا جاتا ہے تو پھر پالیسی جاگیرداروں کے ذہنوں یا ان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے اور اگر اس کا سرسری طور پر ذکر کیا گیا ہے تو پھر سرمایہ دارانہ ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

پاکستان میں فوج کے اقتدار پر باربار شب خون اور قبضہ کی وجہ سے آئین کی بالادستی اور جمہوری حقوق کے مسئلہ کو پس پشت ڈالنے اور فوج کا قد اونچا رکھنے کی کوشش میں نصابی کتب میں اس کو نجات دہندہ ظاہر کیا گیا ہے اور ہمسایہ ممالک سے نفرت کا سبق دیا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اپنے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات سے بٹی رہے۔

ایسی حکومتوں کے دوران شخصیات کی پرستش کے لئے راہ ہموار کی جاتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اخلاقیات کا سہارا لیا جاتا ہے چنانچہ تاریخ سے بعض بادشاہوں کو چن کر ان کے انصاف اور عدل کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں ان کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بتایا جاتا ہے ان کو علم دوست ثابت کیا جاتا ہے اس تمام تگ و دو کا مقصد طالب علموں کے ذہنوں سے آئین، جمہوریت اور اداروں کے استحکام کو پس پشت ڈالنا اور شخصیت پرستی کے لئے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے یہ انہی تعلیمات کا اثرہے کہ آج پاکستان کا لکھا پڑھا طبقہ بھی جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کا موازنہ کرتے

ہوئے کسی کو اچھا اور کسی کو برا کہتا ہے اور ملک کی ترقی کے لحاظ سے جمہوریت، جمہوری اداروں، آئین کی بالا دستی، صحافت اور عدلیہ کی آزادی کی اہمیت سے نابلد و ناواقف ہے۔
حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود سرمایہ دارانہ ضرورتوں کے تحت معاشرے میں تبدیلیاں آرہی ہیں روزگار کے نت نئے ذرائع پیدا ہورہے ہیں جبکہ سرکاری سکولوں میں تاحال جاگیردارانہ تعلیمات، اخلاقیات و آداب کا غلبہ ہے جو جدید تقاضوں سے میل نہیں کھاتا ہے لہٰذا لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر ان کو نجی اور انگریزی سکولوں میں داخل کرارہے ہیں چنانچہ نہ تو اب کسی گھرانے میں عربی و فارسی پڑھنے کو ضروری قرار دیا جاتا ہے اور نہ ہی اردو اور پشتو کے قومی زبان ہونے کے نعروں پر کوئی توجہ دیتا ہے۔

بلکہ قومی زبان کے دعویٰ داروں کی اپنی حالت ان جاگیرداروں اور مذہبی پیشواؤں جیسے ہوگئی ہے جو لوگوں کے سامنے انگریزی تعلیم کو کفر کہتے تھے اور خود ان کے اپنے بچے یہی کافروں والی تعلیمات حاصل کررہے تھے چنانچہ ان کا بھی یہی حال ہے کہ زبان پر اپنی قومی زبان کا نعرہ ہے اور بچے برطانیہ و امریکہ میں پڑھ رہے ہیں۔

Comments are closed.