پریوں کے دیس میں۔1

علی احمد جان

ویسے تو ہم پلے بڑھے ان ہی پہاڑوں میں تھے مگران پہاڑوں کا تعلق روزمرہ کی مشقت کیساتھ ہونے کیوجہ سے بچپن میں کبھی بھی اچھے نہیں لگے۔ جب عمرعزیز کے چالیسویں پیڑے میں پہنچے تو دوبارہ پہاڑوں کا رخ کیا اور ہم نے اپنی شوق آوارگی کو سیاحت کا نام دیا ۔ پہاڑوں کے باسیوں کا سارا دارومدار ان ہی پہاڑدں پر ہوتا ہے ، ان ہی پہاڑوں پر ان کے مویشی چرتےہیں، وہ یہاں سے لکڑی لاتے ہیں، پتھر لاتے ہیں اور ان کے کھیتوں کا پانی یہی سے آتا ہے۔

ہم چونکہ سست طبیعت کے واقع ہوۓ تھے تو پہاڑ وں سے لگاؤ کم ہی رہا اورنوجوانی میں ہی بغرض روزگار شہروں کا رخ کر گئے ۔ شہروں کی خاک چھاننے کے بعد جب معلوم ہوا کہ پہاڑ نہ صرف اپنے باسیوں بلکہ پورے کرہ عرض کے لیٔے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں سے پتھر،مٹّی ، پانی، بیچ اور لکڑی ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ حیاتیاتی تنووع یا گوناگونی حیات کا دارومدار بھی ان ہی پہاڑوں پر ہے تو ان پہاڑوں سے کرۂ عرض کے لیٔے ان ضروریات کی دائمی فراہمی کے مشن سے وابستہ ہوۓ ۔

افسر شاہی کو خیرباد کہہ کرقدرتی وسائل کے پاییٔدار استعمال کےلیٔے کام کرنے والی بین الا قوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے رہے اور گلگت بلتستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے ایک منصوبے میں کام بھی کیا۔ اس دوران نہ صرف پہاڑوں بلکہ دنیا کے کچھ ملکوں میں آوارگی کا شرف بھی حاصل ہوا اور وہاں کے تجربات سے سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ گلگت میں روزگار کی کمیابی اورذرائع آمدن کی عدم دستیابی کیوجہ سے اسلام آباد منتقل ہونا پڑھا اوراب مسکن یہی ہے۔

اسلام آباد کے مکینوں کے لیٔے مرگلہ کی پہاڑیاں صرف ایک خوب صورت نظارہ ہی نہیں بلکہ شوق رکھنے والوں کے لیٔے مکمل سامان آوارگی فراہم کرتی ہیں۔ یہاں چھوٹی بڑی ساٹھ سے زیادہ پگڈنڈیاں ہیں جو مختلف عمر، صلاحیت، ہمت اور شوق رکھنے والوں کے لیٔے سیاحت، تفریح اور ورزش کا زریعہ ہیں۔ ہم نے بھی ابتدائی طور پر اپنے دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ مرگلہ کے پہاڑوں پر گھومنے پھرنےسے اپنی آوارگی کا آغاز کیا جو چند منٹوں کی ایک تھکادینے والی مختصر ورزشی سیر سے لیکر دن بھر کی پہاڑ کے سیر تک محیط رہتی ہے۔

اس پہاڑی سیر کے دوران بہت سارے اچھے دوست بھی بن گیٔے جن میں مختلف شہروں اور ملکوں کے رہنے والے شامل ہیں۔ جب دوست بڑھ گیٔے اور ان سے رابطے کے لیٔے ایک وسیلے کی ضرورت پیش آیٔی تو ہم نے سماجی رابطے کا ایک گروپ بنایا ہے اور ہفتہ وار طعطیلات کے دوران مشترکہ سیروتفریح کے پروگرام جاری رکھے ہوے ہیں۔ اسلام آباد میں ہفتہ وار پہاڑی گشت کے علاوہ کبھی کبھار گلیات ، آزاد کشمیر ، سوات ، ناران، کاغان اور مری کے علاوہ گلگت بلتستان میں پہاڑوں میں سیر اب ایک معمول بن چکا ہے۔

دوستوں نے اس دفعہ فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیِ نگر میں واقع زیریں قراقرم کی رش جھیل جس کو مقامی لوگ رش بری کہتے ہیں پہنچنے اور اس کیساتھ پانچ ہزار دو سو میٹر اونچی رش چوٹی سر کیجاۓ ۔ جرمن حکومت کے امدادی تعاؤن کے ادارے سے وابستہ ہمارے دوست جارج کی غیر متزلزل کاوشوں سے آخرکار جون گیارہ سے اس مہم کو کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔

اس مہم میں جارج ور میرے علاوہ میرے شریک کاروبار اور دوست ایاز آصف، سیالکوٹ سے خواجہ حسین مبارک، امریکہ میں مقیم پاکستانی امین سکھیرا، لندن میں مقیم عدنان پاشا صدیقی، وائس آف امریکہ کی پاکستان اور افغانستان کے لیٔے نمایٔندہ عائشہ تنظیم اور وال اسٹریٹ جرنل کے پاکستان میں نمائندہ سعید شاہ پر مشتمل آٹھ رکنی گروپ اس مہم کے لیۓ تیار ہو گیا۔حتمی تاریخ طے ہونے کے بعد ہم نے ہوائی جہاز کی نشستیں بک کروادیں اور مقررہ تاریخ کو سفر کا آغاز کیا۔

بد قسمتی سے موسم کے خراب ہونے کیوجہ سے اسلام آباد سے اڑان بھر کر جہاز نے مفت کی ایک سیر کروانے کے بعد دوبارہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر مسافروں کو اتاردیا اور ہمارے گروپ نے زمینی راستے سے اپنا سفر شروع کیا۔ دریاۓ سندھ کے کنارے بشام میں رات گزارنے کے بعد اگلے دن دو بجے ہم گلگت پہنچے جہاں دنیور میں تازہ اور خستہ خوبانیوں کی ضیافت کے بعد ہم ساڑھے تین بجے غلمت نگر میں راکاپوشی ویو پوایٔنٹ پہنچے جہاں مقامی سوپ ڈوڈو کے علاوہ کھانے اور بعد میں مین تازہ تازہ چیری سے ہماری تواضع کی گئی۔ ہمارے کچھ دوستوں نے تو ایسی تازہ چیری اور ڈوڈو کا سوپ پہلی دفعہ چکھا تھا بہت پسند کیا۔

راکاپوشی دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑوں میں سے ایک ہونے کے علاوہ اپنی ۷۷۸۸میٹر (سات ہزار سات سو اٹھاسی میٹر) کی بلندی کے ساتھ دنیا کی ستائیسویں بلند ترین ، پاکستان میں بارویں بلند ترین اور زیریں قراقرم کی پہلی اونچی چوٹی بھی ہے۔ راکاپوشی شاہراہ قراقرم پر واقع اس ویو پوایٔنٹ سے اپنے سر سے لیکر دامن تک مکمل نظر آجانے والی واحد اس بلندی کی چوٹی ہے جو کوئی اپنی گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے ورنہ اس بلندی کے کسی پہاڑ کو اس طرح دیکھنے کےلئے کئی دنوں کی نہیں تو کئی گھنٹوں کی پیدل مسافت ضرور طے کرنی ہوتی ہے جو ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہوتی۔

یہاں سیاحوں اور مسافروں کا ہر وقت جم غفیر رہتا ہے۔ موبائل کیمروں سے سیلفیاں لیتے نوجوان یہاں ہر وقت نظر آتے ہیں ۔ مقامی لوگ انتہائی ٔ مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔ یہاں سے بھی راکاپوشی کے دامن تک ایک پگڈنڈی نکلتی ہے جو عمودی ہونے کی وجہ سے چڑھائی میں مشکل نظر آتی ہے۔

راکاپوشی ویوپوایٔنٹ میں کھانے اور تومورو کی چاۓ کے بعد ہم پریوں کے دیس ہنزہ روانہ ہوۓ اور شام ڈھلے باز کے گھونسلے یعنی ایگلز نیسٹ میں پہنچے جہاں ہمیں رات کو ٹھہرنا تھا۔ ایگلز نیسٹ کریم آباد ہنزہ کے گاؤں دویکر کےایک ایسے انچے مقام پر بنایا گیا ہوٹل ہے جہاں باز گھونسلہ بنایا کرتے تھے۔ویسے ہنزہ کریم آباد بھی دنیا کا واحد مقام ہے جہاں پر چھ سے سات ہزار میٹر اونچی پانچ چوٹیاں بیک وقت آپ کو اپنی گاڈی کی سیٹ اور گھر، ہوٹل کی چھت یا سڑک سے نظر آجاتی ہیں ورنہ اس بلندی کی پانچ چوٹیوں کو ایک ساتھ دیکھنے کےلیٔے کئی دنوں کی مسافت پیدل درکار ہوتی ہے جو ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہوتی۔

اس ہوٹل کے کمروں سے وادی ہنزہ اور نگر کے گاؤں، دریاؤں، نالوں کے علاوہ راکاپوشی، دیران کی چوٹی، التر کی چوٹیاں،لیڈی فنگر (بھنڈی) اور کچھ انچائی سے سنہری چوٹی یعنی گولڈن پیک بھی نظر آ جاتی ہے۔ رات کے وقت بالخصوص چاندنی راتوں کو یہاں نظارہ انتہائی پر کیف ہوتا ہے جب سفید چادر اوڑھے آسمان چھوتے پہاڑ چاند کی روشنی میں چمکتے ہیں اور وادی کی گہرائی میں دریا چاند کی دودھیا روشنی میں نہا کر دودھ کی تصوراتی بہشتی نہر کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ سیب، خوبانی، ناشپاتی، چیری اور انواع اقسام کے پھلوں کے باغات کی یہ وادی زمین پر جنت کا حقیقی روپ ہی تو ہے۔ رات دیر تک چاند، تاروں، برف پوش پہاڑوں اور وادیوں کے پر کیف نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد صبح مقامی طور پر گھر میں تیار کیۓ جام اور شہد کے ناشتے کے بعد ہم وادی نگر کے گاؤں ہوپر جانے کے لیۓ تیار تھے جہاں سے آگے پہاڑوں کا سفر کرنا تھا۔

جاری ہے