مختار مسعود ۔۔ نایاب دانشور 

آصف جیلانی 


ہمارے نصیب میں قحط الرجال کا دور آیا ہے۔ پرانے بادہ کش ایک ایک کر کے اٹھتے جارہے ہیں ۔ مختار مسعود ہمارے دور کے نایاب دانشور تھے جو 15اپریل کو 88سال کی عمر پا کر ہمیں تہی دست کر گئے۔ کیا تہہ دارشخصیت تھی ان کی۔ والد ان کے کشمیری شیخ جناب عطا اللہ تھے جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کئی دہائیوں تک معاشیات کے پروفیسر رہے تھے۔ مختار مسعود اپنے آپ کو سید کہتے تھے ۔ کیونکہ انہوں نے سر سید احمد خان کی یونیورسٹی میں آنکھ کھولی تھی۔ اور پھر انہیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اُن گنے چنے فارغ التحصیل طلباء میں تھے جنہوں نے پہلی جماعت سے ایم اے تک اسی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ ان کا دعوی تھا کہ اگر سید نہیں تو وہ سر سید زادہ ضرور تھے۔

ایک طرف والد شیخ عطا اللہ کی تربیت اور دوسری جانب ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ماحول اور بے لوث و لاجواب اساتذہ کا وجدانی دست شفقت کہ جس نے مختار مسعود کی شخصیت کو ہیرے کی طرح تراشا۔گو تعلیم کے دوران ان کا اصل مضمون معاشیات تھا اور اسی میں انہوں نے ایم ائے کیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو زبان کو ہمیشہ مختار مسعود پر فخر رہے گا کہ وہ ان کی زبان میں بولی اور ان کے قلم سے لکھی گئی۔

ایم اے انہوں نے تقسیم کے وقت کیا تھا اور تقسیم کے بعد انہیں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان منتقل ہونا پڑا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے زمانے میں انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے جس ملک کے قیام کا خواب دیکھا تھا اس کو سنوارنے اور اس کے عوا م کی بہبودی کے لئے خدمات سر انجام دینے کی خاطر مختار مسعود نے1949میں پاکستان کی سپیریر سروس کا امتحان دیا اور اس میں کامیابی کے بعد وہ پہلے کمشنر، ، پھر وفاقی سیکریٹری ، اس کے بعد پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن کے سربراہ ، زرعی ترقیاتی بنک کے سربراہ اور آخر میں ، علاقائی اقتصادی تعاون کے ادارے RCDکے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے چار سال تک تہران میں تعینات رہے۔ یہی زمانہ تھا جب ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تھا۔

اس سے پہلے اردو ادب اور مشاہداتی تاریخ نویسی میں مختار مسعود نے اپنی پہلی کتاب ’’آواز دوست ‘‘ سے ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔اس کتاب سے یہ ثابت ہوا کہ ان کی فکر نظر میں کتنی وسعت اور گہرائی ہے۔ ۔ آواز دوست ، نئے وطن کے قیام کی تحریک کے ذاتی مشاہدات اور تجربات کی داستان ہے۔ اس کتاب میں دو طویل مضامین ہیں ، ایک مینار پاکستان کے بارے میں ہے ، ان سے بہتر اس موضوع پر کوئی نہیں لکھ سکتا تھا کیونکہ وہ خود مینار قرار پاکستان کی مجلس تعمیر کے رکن تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا کے تصورسے جدانہ پایا گیا تو منصوبے سے یاد گار کا لفظ خارج کر دیا گیا۔

مختار مسعود نے لکھا ہے کہ ’’تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مینار کی ابتدائی صورت دفاعی ضرورت کے تحت وجود میں آئی پھر اسکی علامتی حیثیت قائم ہوئی ، اسکے بعد یہ دین کا ستون بنا اور آخرکار نشان خیر کے طور پر بنائے جانے لگا، مینار قرار داد ان ساری حیثیتوں پر محیط ہے۔یہ نظریاتی دفاع کی ضرورت ، تحریک آزادی کی علامت ، دین کی سرفرازی کا گوا اور ہماری تاریخ کا ایک نشانِ خیر ہے۔‘‘انہوں نے آگے چل کر لکھاہے ’’اس بر صغیر میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعدجو پہلا اہم مینار مکمل ہوا ہے وہ مینار قرارداد پاکستان ہے ، یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں مگر ان کے درمیان جو ذرا سے مسافت جس میں سکھوں کا گوردوارہ اور فرنگیوں کا پڑاو شامل ہیں تین صدیوں پر محیط ہے ۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گم شدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا ، مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی ، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں،جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے ، ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں یوں ہی گم ہو جاتی ہیں‘‘۔

آواز دوست کی کتاب کے دوسرے مضمون کا عنوان ، قحط الرجال ہے۔ یہ مضمون اس آٹوگراف کے گرد گھومتا ہے جو 1938میں مختار مسعود نے جب وہ پانچویں جماعت کے طالب علم تھے اپنے والد کے مشورہ پر خریدی تھی کیونکہ ایک چینی مسلم عالم محمد ابراہیم شاکیو چن ان کے ہاں چائے پر آرہے تھے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ جب میں نے نامانوس خال و خط کے مہمان کے سامنے اسے پیش کیا تو بڑی مانوس مسکراہٹ اور شفقت سے انہوں نے میری طرف دیکھا ، کچھ باتیں ابا جان سے کی اور قلم ہاتھ میں لے کر چینی زبان میں تین سطریں لکھیں پھر ان کا لفظی ترجمہ انگریزی میں کر دیا اور دستخط کر کے البم مجھے واپس کردی۔ میں بہت خوش ہوا حالانکہ نہ چینی سمجھ میں آئی نہ انگریزی ۔ ۔ ہر اچھے آدمی کے گرد ایک ہالا ہوتا ہے اس کے نزدیک جائیں تو دل خود بخود منور ہو جاتا ہے۔

مختار مسعود نے ان تمام شخصیتوں کے بارے میں نہایت دلچسپ پیرائے میں ذکر کیا ہے جن سے انہوں نے آٹو گراف لئے اور ا ن کا بھی ذکر کیا ہے جن سے آٹو گراف لینے کا جی نہیں چاہا اور آٹو گراف البم اپنی جیب میں بڑی مضبو طی سے تھام لی تاکہ البم ان کے سامنے نہ چلی جائے۔ جن شخصیتوں کے انہوں نے آٹو گراف لئے ان میں قائد اعظم ، سروجنی نائڈو، مارشل ٹیٹو، یو تھانٹ، خالدہ ادیب خانم ، ملا واحدی، حسرت موہانی، ظفر علی خان نواب بھوپال، اور راجہ صاحب محمود آباد اور عطااللہ شاہ بخاری نمایاں ہیں۔

کتاب کے آخر میں مختار مسعود نے لکھا ہے’’ میری آٹو گراف البم کے دو حصے ہیں یہ نصف بھر چکی ہے اور نصف خالی ہے۔ پہلا حصہ خوشحالی کے سات گذرے ہوئے سالوں کی یادگار ہے اور دوسرا اس خشک سالی کی نشانی، فحط الرجال کے یہ سات سال اتنے طویل ہو گئے ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے، ایک دن تو اس قحط کا زور ٹوٹے گا اور پھر وہ سال چڑھے گا جس سال مینہ خوب دل کھول کر برسے گا ۔ میں ایک دشت بے آب میں اس بارش کا انتظار کر رہا ہوں ، اور ایک ہجومِ آبادی میں انسان کی تلاش کر رہا ہوں ۔ میرے ایک ہاتھ پر چراغ رکھا ہواہے اور دوسرے پر میری آٹو گراف البم اور لب پر یہ شعر، 

گفتند یافت می نشود جستہ ایم ما۔۔۔گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست

۔’’لوح ایام‘‘، مختار مسعود کے ان مشاہدات اور تجربات کی دستاویز ہے جو تہران میںآرسی ڈی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے تعیناتی کے دوران ،درپیش رہے۔ جس روز وہ تہران پہنچے اسی روز اسلامی انقلاب کا آغاز ہوا۔ وہ چار سال تک تہران میں رہے ۔ انقلاب اور اس کے بعد کے حالات کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ مختار مسعود نے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ’’ اس کتاب کو لکھنے میں اتنا وقت نہیں لگا جتنا یہ طے کرنے میں کہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے اور اگر لکھا جائے تو اس کی حد بندی کیسے کی جائے ۔ انقلاب خواہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہوجائے اس کی داستان ہمیشہ تازہ رہتی ہے امید اور عمل، بیداری اور خودشناسی ، جنون اور لہو کی داستان بھی کہیں پرانی ہو سکتی ہے ۔ زمانہ اس کو بار بار دہراتا ہے۔ فرق صرف نام مقام اور وقت کا ہوتا ہے۔

اس وقت جب پورا ایران سنگین حالات سے گذر رہا تھا، جنرل ضیا الحق کے بے وقت دورہ تہران کا ذکر مختار مسعود نے یوں کیا ہے ’’صدر ضیا الحق فوجی وردی پہنے ہوئے جہاز کی سیڑھیوں سے نیچے اترے ۔ انہیں لینے کے لئے شاہی محکمہ تشریفات کا ایک کم سن نمایندہ کھڑا تھا۔ ریئس تشریفات تبدیل ہوگئے ہیں یا علیل ہیں وزیر دربار نے آج استعفی دے دیا ہے ۔ استقبالیہ صف میں نئی کابینہ کا کوئی وزیر نظر نہیں آتا ۔ ادھر صدر پاکستان کے ہمراہ چار وزراء تشریف لائے ہیں۔ خارجہ امور، دفاع اور مالیات کے وزراء کو میں پہچانتا ہوں چوتھے وزیر کے محکمے کا مجھے علم نہیں۔ صورت حال دیکھ کر صدر نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔ غلام اسحاق خان وزیر مالیات سے میں نے علیحدگی میں کہا کہ آپ لوگ کیا کرنے آئے ہیں اور کیا لینے آئے ہیں۔ کہنے لگے مذاکرات کے لئے آئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ کس سے مذاکرات کریں گے۔ یہاں نہ کسی کو اس کی فرصت ہے اور نہ اختیار ہے۔آخر کار شاہی تشریفات کے نئے نوجوان نایب نے سب کی مشکل آسان کر دی اور اعلان کیا کہ سارا پروگرام تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ نئے پروگرام میں ملاقاتیں ہیں اور نہ مذاکرات ۔ تہران میں قیا م رات بھر کا رہے گا‘‘۔

شہنشاہ ایران کے آخری دنوں کے بارے میں مختار مسعود لکھتے ہیں’’ ان دنوں میں بے حیائی اور مے نوشی کے عام ہونے کا شماریاتی جائزہ مجلس میں پیش ہوا۔ شراب بنانے کے چالیس کارخانے، دو مے خانے، چھ سو ایسی طعام گاہیں جہاں کھانے کے ساتھ پینے پلانے کا اہتمام کیا جاتاہے ۔ بئیر کی روزانہ کھپت چار لاکھ بوتلیں ۔ جسم فروشی کے ایک سو ساٹھ بڑے مراکز اور ایک ہزار سے زاید چھوٹے اڈے ۔بڑے مراکز کو کلب اور کسینو کا نام دیا جاتا، چھوٹے مراکز مہمان سرائے کہلاتے۔ ایک مرکز کے ریکارڈ کے مطابق صرف اس عشرت کدہ سے چودہ ہزار افراد فیض یاب ہوتے تھے ۔ یہ سب اعداد شمار محض ایک شہر کے ہیں جو پہلوی بادشاہت کی پایہ تخت ہے۔ باقی ملک کا عالم کیا ہوگا‘‘؟۔

اسلامی انقلاب کی آمد کا نقشہ ، مختار مسعود نے یوں کھینچا ہے۔’’ریڈیو کہتا ہے ۔ توجہ بفرماید ، توجہ بفرماید، ایں صدائے انقلاب است ۔ ٹی وی پر نیا ترانہ بجایا گیا ۔ اس نئے ترانے کے ساتھ نیاایران وجود میں آگیا۔ اس وقت شام کے سات بجے ہیں۔ بادشاہت کا سورج غروب ہو گیا ۔ میں نے اسے غروب ہوتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ جب یہ سورج طلوع ہورہا تھا تو اس روز میں موجود نہیں تھا اور ہوتا بھی کیسے کہ یہ بات ڈھائی ہزار سال پرانی ہے ۔آج جب انقلاب کے نتیجہ میں بادشاہت کو شکست ہوئی ہے تو میں یہاں موجود ہوں۔یہ واقعہ چند گھنٹہ پہلے رونما ہوا ہے ۔ آج اتوار کا دن ہے، گیارہ تاریخ ہے ، مہینہ فروری کا ہے ، سال عیسوی 1979یہ شام کا وقت ہے میں موم بتی کی روشنی میں روزنامچہ لکھ رہا ہوں۔ خوشی کے مارے موم بتی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہیں۔‘‘۔

مختار مسعود کی تیسری کتاب ، ’’سفر نصیب‘‘ دو حصوں میں ہے ۔ ایک حصہ سفری داستان ہے اور دوسرا ایک شخصی خاکہ۔سفر نصیب میں مختار مسعود ، سری لنکا کے خوشبوں کے علاقہ کا ذکر یوں کرتے ہیں۔ ’’مسافر ہر خوشبو کے ساتھ تھوڑی دور تک گیا مگر وہ راستہ میں اس کا ہاتھ دوسری خوشبو کے ہاتھ میں دے کر خود گم ہوگئی ۔ جاتے ہوئے کہہ گئی ۔ تمھاری طرف جو ہاتھ بڑھاتا ہے تم اس پر بیعت کر لیتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمھیں اب تک راستہ نہیں مل سکا ۔ مسافرنے خوشبو کی تتلیوں کا پیچھا چھوڑ دیا‘‘۔

مختار مسعود نے اپنے اعلی سرکاری عہدوں پر کار ہائے نمایاں انجام دئے لیکن انہیں ستارہ امتیاز ان کی تخلیقات پر دیا گیا۔ ہیں تو یہ صرف تین کتابیں لیکن یہ اردو ادب کا لازوال خزانہ ہیں۔مشاہدات اور تجربات اور تاریخ کی آگہی سے بھرپور ، جس سے آنے والی نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں گی۔

Comments are closed.