پاکستان میں لبرل پارٹی کی ضرورت

یوسف صدیقی

پاکستان میں ایک طبقہ ہے جو خود کو امیر اور ’اَپر کلاس‘ سے موسوم کر تا ہے ۔اِن کی خواہشات،میلان ،تہذیب و معاشرت اور زندگی کی ہر سرگرمی ’’بادشاہوں‘‘کی طرح ہے ۔ڈیفنس،ماڈل ٹاؤن اور مہذب سوسائٹیوں(کالونیوں) میں رہنے والے اکثر مذہبی جماعتوں کے سربراہ ،سرمایہ کار اور جاگیردار ہوتے ہیں۔پیسے کی فراوانی کی وجہ سے زندگی کے ہر معاملے میں دولت کو خرچ کر نے لت ان کو مگر لگ چکی ہے۔

یہ لوگ دوسروں کو’’ کمی کمین‘‘ جبکہ خود کو اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں۔فوجی اور غیر فوجی حکومتوں سے ان کے تعلقات ہر وقت خوشگواررہتے ہیں۔قانون نافذ کر نے والے ادارےِ ان کے نوکر ہوتے ہیں۔کوئی آدمی اگر ان کو ملنا چاہیے تو بہت ہی زیادہ شناخت کرنے کہ بعد اس مقام پر پہنچتا ہے کہ اگر صاحبِ خانہ اجازت دیں تو قریے میں داخل ہوا جا سکتا ہے ورنہ واپسی میں ہی عافیت سمجھی جائے ۔ مہنگائی اور بے روز گاری کی ان کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی ۔

اُن کے ہاں بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اُس کے پیشے کے متعلق سوچا جاتا ہے۔فکرِ معاش سے آزادی کی وجہ سے بچے بہت جلد نشوونما کے مداراج طے کر لینے کے بعد اتنے ذہین و فطین ہوجانے ہیں کہ بین لاقوامی یونی ورسٹیوں میں داخل ہو نا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو تا ۔ یہ لوگ بھی پاکستان کے باسی ہیں۔اور عیاشی کر رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف غریب پاکستانی۔

سماج میں ہر غریب شخص کاچہرہ مرُجھایا ہوا ،اُفسردہ اور آنکھیں چمک سے محروم ہیں۔نوجوان جوکسی بھی قوم کا سرمایہ ہو تے ہیں ان کی دل میں منزل تک پہنچنے کی لگن تو ہے لیکن منزل نہیں دکھائی دے رہی ۔کتنے ہی ایسے خواب اور خواہشیں ہوتیں ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہو تا ۔بہت سے خواب اور خواہشیں دل میں پیدا ہو نے کے بعد جلد ہی دَب جاتی ہیں،کیونکہ ان کے پور ے ہو نے کا کوئی امکان نہیں ہو تا ۔ کوئی نظام بدلنے کی بات کر رہا ہے تو کوئی اپنی باری کے انتظار میں حکمرانوں کو ’’جلی کٹی‘‘ سنا رہا ہے ۔رجعتی عناصر اپنے حصے کی وصولی کے لیے بے تاب ہیں۔

جب کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اس وقت خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔پاکستانی عوام کا میعا رِ زندگی دن بدن گر رہا ہے ۔دوسری طرف حکمران ہیں جنھیں اس بات کا علم ہے کہ لوگ مہنگائی کی وجہ سے پس رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود انھوں نے گیس،بجلی،اشیاء خوردو نوش،الیکٹرونکس ،غذائی اجناس،اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے ۔کئی اشیاء ایسی ہیں کہ غریب آدمی اس کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے کیونکہ وہ اس کی پہنچ سے دور ہیں اس کی اتنی مالی سکت نہیں ہے کہ و ہ اِن کو خرید سکے۔

جب بھی حکومت اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر تی ہے عین اسی وقت سیاسی جماعتوں اور حکمران طبقات میں ’’نورا کشتی ‘‘شروع ہوجاتی ہے۔ایسے معاملات میں جن کا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہو تا۔ اِن پر کمیٹیاں اور کمیشن بنانے کے معا ملے میں چپقلش اور پھر اتفاق رائے جیسے امورمیں کئی مہینے صرف کیے جاتے ہیں۔اِس طرح یومِ قائد اعظم،حب الوطنی کا دن،کشمیر کا دن ،آزادی کا دن، عید کی چھٹوں کومنانا مبارکبادیں دینے اور ملنے ،ملانے اسی طرح سانحات و حاثات کے غم میں مرثیہ گوئی جیسے ’کاموں ‘ میں حکومت کے بارہ مہینے پورے ہو جاتے ہیں۔

پورے سال میں اس کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ اشیاء کی قدرِ قیمت کم کرنے کے متعلق سوچے یا لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے مستقل بنیادوں پر کثیر الجہتی منصوبے بنائے۔حکمرانوں نے اپوزیشن نام پر خطرناک اور زہریلے ہتھیار رَکھے ہوئے ہیں، جو محنت کشوں،غریبوں اور سماج کی دوسری پسماندہ پرتوں کے مسائل کو نہ سامنے لاتے ہیں اور نہ کسی دوسری تحریک کو سامنے آنے دیتے ہیں۔جب مہنگائی کے خلاف کوئی تحریک اٹھے تو ہمارے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں والے ایک ہی بات کہتے ہیں کہ’پارلیمنٹ ‘ موجود ہے اور اس کی موجودگی میں کسی طرح کے احتجاج اور تحریک کا جواز نہیں ہے ۔

لیکن پارلیمنٹ میں جتنے بھی چہرے موجود ہیں وہ ذہنی طور پر اپاہج ہیں ۔وہ سب سرمایہ دار ،جاگیر دار اور’ رجعتی ملاں‘ ہیں ۔ایک بات طے ہے کہ نواز شریف سرمایہ پرستوں کا نمائندہ بن کر ابھرا ہے۔نواز شریف نے ڈیوس میں خطاب کر تے ہو ئے کہا تھا کہ ’’سرمایہ کار دوست پالیسیوں کی بدولت دنیا کا کوئی بھی بڑا اِنویسٹر پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ضائع نہیں کرے گا‘‘۔(اخبارات20-2-2017)۔

ان کی سرمایہ کاروں کی دوست پالیسوں کو چرچا تو ہر طرف ہے ۔ اور میں سرمایہ کاری کے خلاف نہیں ہوں ۔لیکن مہنگائی ختم کرنے کے لیے نواز حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اس کی ابھی تک کسی کو خبر نہیں ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔جرائم کی صورتحال خود حکومت سے کنٹرول نہیں ہو رہی۔لیکن معاملہ نظام کو بدلنے کا نہیں ہے ۔بلکہ مسائل سے نجات کا ہے ۔مغربی دنیا نے اس نظام یعنی جمہوریت میں غریبوں ،دِہکانوں اور مزدوروں کے مسائل کا حل کیا ہے ۔

امریکہ اور برطانیہ جن ممالک میں جمہوریت کوکبھی آمریت نے داغدار نہیں کیا، وہاں پر امن عامہ ، مساوات ، روزگار کے مواقع ،خواتین کو حقوق کی فراہمی اور آزادی اظہارِ رائے کی صورتحال بہت بہتر ہے بلکہ قابل مثال بھی ہے ۔مشرق میں اور خاص طور پر پاکستان میں رَجعت پسندی حاوی ہے۔جب تک رَجعتی پالیسوں پر عمل درآمد کیا جاتا رہے گا ،تب تک پاکستان میں نہ مہنگائی ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ ملک فلاحی ریاست بن سکتا ہے ۔

پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں جو یہ اعلان کر ے کے وہ ’’سیکولر ‘‘ ہے ۔ ہر پارٹی ’’ رجعتی ملاؤں‘‘ کے مفادات کو مقدم رکھ رہی ہے۔اس وقت ملک کو سیکولر قیادت کی ضرورت ہے جو ریاست اورسیاست کو مذہب سے علیحدہ کرے۔ جی ہاں ایک ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو ’یوم شوکتِ اسلام‘ جیسے جلوسوں کی پرواہ کیے بغیر ریاست کی تمام اکائیوں (بشمول اِقلیتوں)کو یکساں حقوق مہیا کرے۔ یہ خلاء لبرل پارٹی ہی پورا کر سکتی ہے۔

Comments are closed.