قاضی حسین احمد کے منافقانہ بیانات

پاکستان کے سیاسی رہنما خاص کر مذہبی رہنما جو اسلام کی بالادستی کی دعویٰ کرتے ہیں درحقیقت بھرپور منافقت کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں۔ عوام کے لیے ان کے بیان کچھ اور ہوتے ہیں اور خواص کے لیے کچھ اور ، وہ بھی جب معاملہ مغربی ممالک کا ہو۔

سیاسی رہنماؤں کی منافقت کا راز حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب” ٹائٹ روپ واک” میں کیا گیا ہے جس کے مصنف امان اللہ خان ہیں جو امریکی ایمبسی اسلام آباد میں تیس سال تک بطور سیاسی مشیر کام کرتے رہے ہیں۔

اس کتاب کی رونمائی سوموار کو ہوئی ہے۔

اپنی کتاب میں انہوں نے پاک امریکہ تعلقات پر بہت سے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ امان اللہ خان لکھتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات بہت زیادہ عروج پر تھے۔

انہی دنوں جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے امریکی سفیر ننسی پاول کو کہا کہ وہ ”امریکہ کے دوست ہیں”اور انہیں یقین دہانی کرائی وہ امریکہ مخالف بیانات صرف عوام کو خوش کرنے کےلیے دیتے ہیں۔

یہ قاضی حسین احمد کے الفاظ ہیں۔ قاضی حسین احمد کی مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے مذہبی رہنما منافقت کی بہترین مثال ہیں۔ امان اللہ نے کہا۔

قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے ایک مقبول رہنما تھے جو ایک لمبے عرصے تک جماعت اسلامی کے امیر رہے ہیں اور کہا جاتا تھا کہ ان کی زندگی اسلامی تعلیمات کا نمونہ ہیں۔اور وہ ملک میں اسلام کی بالا دستی قائم کرنے کے دعوے کرتے رہےہیں۔

یاد رہے کہ انہی کے دور میں جماعت اسلامی نے پیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے آئی ایس آئی سے بھی بھاری رقم ہتھیائی تھی ۔

امان اللہ 1973 سے لے کر 2003 تک امریکی ایمبسی میں کام کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اس دوران پاکستانی سیاستدانوں کی امریکی سفارت کاروں سے گفتگو اور ان کی منافقت نے انہیں یہ کتاب لکھنے پر مائل کیا۔

اپنی ملازمت کے دوران انہوں نے بارہ امریکی سفیروں کے ساتھ کام کیا اور اس دوران کئی ایسے مواقع آئے جب اسلام آبا د اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں تلخیاں بھی آئیں۔ 1979 میں امریکی سفارت خانے کو آگ لگانے اور 1988میں جنرل ضیا کے طیارے کی تباہی جس میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل بھی تھےاور پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام پر پابندی جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔

سنہ1988میں جنرل ضیا کے طیارے کی تباہی کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی سفیر رافیل نے کوئٹہ جانے سے ایک دن پہلے اگلے دن کے لیے لنچ پر ملاقات کا وقت رکھا ۔ تاہم ان کی کوئٹہ کی فلائٹ لیٹ ہوگئی اور انہوں نے اس ملاقات کو ایک دن اور آگے کردی۔

لیکن وہ دن پھر کبھی نہ آیا” امان اللہ نے کہا

امریکہ میں پاکستان کی سابقہ سفیر عابدہ حسین نے کہا کہ اس کتاب کا بیانیہ بہت زبردست ہے اور یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پرکا ایک اور رخ دکھاتا ہے۔

لیکن کیا اس کتاب میں سیاستدانوں کی منافقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے یا جرنیلوں کی منافقت کا بھی کوئی ذکر ہے؟

ایکسپریس ٹریبیون، پاکستان

One Comment