غدار

یوسف صدیقی

نسیم حجازی کے ناوَل پڑھ کر ہماری ’’قومی سلامتی ‘‘ کے ذِمہ دار’ ’رجعتی عناصر ‘ جس شخص کو اَپنے مفاد کا دشمن سمجھ لیں اُس محبِ وطن کو بہت جلد’’غدار ‘‘کے لقب سے ملقب کردیتے ہیں۔پاکستان میں کسی بھی شخص کو حبُ الوطنی کی سند حاصل کرنے کے لیے اِن کے رجعتی نظریات کو قبول کرنا لازم ہوتا ہے۔اگر ہماری یہ ’مخمل نسل ‘ کسی کو غدار قرار دینے پر تُل جائے تو ’قذف ‘ جیسے قوانین کا خیال کیے بغیر اپنے مشن میں مگن رہتی ہے ۔

کچھ دن پہلے حسین حقانی نے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ سے غدارکا’اعزاز‘ حاصل کیاہے ۔حسین حقانی کو محبِ وطن شہریوں کی فہرست سے نکال کر’غدار ‘ اِس لیے کہا جا رہا ہے کہ اُ س نے پاکستان کے معتبر اداروں اور شخصیات کے متعلق ’ سچ ‘ بولنے کا جرم کیا ہے ۔حقانی نے محتاط الفاظ کا انتخاب کیا یاغیر محتاط ،استعجابیہ انداز میں بات کی یاپھرِ استفہامیہ انداز میں کسی کی طرف اشارہ کیا ۔بحرحا ل اُس کے آرٹیکل کو قومی سلامتی سے جوڑ کر اسامہ بن لادن والے کیس میں وزیزوں کے اجراء والے معاملے کو دَبانے کے لیے ’غدار‘ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔

اُسامہ کی موت وہ سربستہ راز ہے جس سے ہر پاکستانی آگاہی حاصل کر نے کے لیے بے چین ہے ۔دوسری طر ف ہمارے ’ قومی سلامتی ‘ والے ہیں ،جن کو یہ ڈر کھائے جارہا ہے کہ کہیں ان کا کردار عوام کے سامنے نہ آجائے ۔امریکوں کی ایبٹ آباد میںآمد سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہاں پر دُنیا کامطلوب شخص 10 سال سے کیسے رہ رہا تھا ؟ ۔لاکھوں روپیہ کا بجٹ صرف کرنے والے ہمار ی انٹیلی جنس ایجنسیاں اِس بات سے بے خبری کا دعویٰ کیوں کر رہے ہیں کہ ان کواسامہ کی موجودگی کاپتہ نہیں تھا ؟۔

فرض کریں اُن کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسامہ وہاں موجود ہے توپھر انہیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ لاکھوں روپے کا بجٹ صرف کریں!!!۔اِس طرح کے سوال اُٹھانے والوں کو عمو ماً’غدار‘ کہا جاتا ہے۔اس وقت حقانی اپنے موقف کے مقدمے کی حقانیت ثابت کر نے کے لیے بے چین ہے ۔وہ ریاست ،سیاست اور ملائیت سمیت سب کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے ۔حقانی اَب خود عدالتی چکروں میں پھنسنا چاہتا ہے ،تا کہ دُنیا سربستہ رازوں کو جان لے ۔اُس کے ضمیر پر ماضی کی کوتاہیوں کا بوجھ موجود ہے ۔مگر سچ کڑوا ہوتا ہے ۔ویسے بھی قومی سلامتی کے ٹھیکیدارسچ سننے کو تیار نہیں ہیں۔ 

اکثر سچ بولنے والوں کو غدار کہہ کر سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ایسے ہی غداروں میں ایک شخص منصور اعجازبھی ہے۔اُ سامہ بن لادن کے قتل والے معاملے میں اِس شخص کا بھی ایک کردار ہے ۔اِس کا تعلق احمدی فرقے سے ہے ۔احمدی کمیونٹی کے ایک سپوت ڈاکٹر عبد السلام نے پاکستان کو نوبل پرائز انعام تک لے دِ یا، مگر رَجعتی عناصرکی طرف سے اَحمدیوں کی حبُ الوطنی پر شک بڑھتاہی گیا۔ابھی کل کی بات ہے کہ ڈاکٹر عبد اسلام کے کزن کو ننکانہ صاحب گولی مار کر قتل کر دِیا ہے ۔ان کی حب الوطنی اور اسلام پر ایک کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی ‘ کو شک ہو گیا تھا ۔

اِس طرح پاکستان میں غداری کا خطاب پانے والوں کی تعدا د بہت زیادہ ہے ۔بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں،شیعہ مذہب کے پیروکار ،اور اقلیتیں آج بھی اپنی حب الوطنی ثابت کر نے کے لیے رِیاست کی منتیں کر رہی ہیں ۔قائد اعظم نے کہا تھا کہ ’’ہمیں احساسِ حب الوطنی پیدا کر نا چاہیے جو ہم سب کو ایک متحد اور طاقتور قوم کی شکل میں متحرِ ک کر تا ہے‘‘۔

ضیا الحق کے دورِ حکومت میں بے انتہا وحشت اور بربریت کا ’رجعتی کھیل‘ کھیلا گیا ۔ اسی دور میں مذہب کی بنیاد پرغداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے۔بائیں بازو کے لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کر نے کے لیے انہیں’ کوڑے‘ مارے گئے ۔اس طرح جی ایم سید سے لے کر الطاف حسین تک کو محض حقوق مانگنے پر غدار کہنا ہمارے قومی سلامتی کے نمبر داروں کا سیاہ کارنامہ ہے ۔ابھی تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کراچی کے ایک آزاد منش صحافی سلیم شہزاد کی حب ا لوطنی مشکوک ٹھہری ۔کراچی سے اغواہ کرنے کے بعد منڈی بہاول الدین کی جہلم لنک کینا ل تک کا سفر غداری کے جرم کی سزا میں کروایا گیا ۔

سلیم شہزاد نے ریاستی بیانیے سے اختلاف کرنے جرم کیا تھا ۔اسی جرم کی سزا میں انہیں غیر اعلانیہ سزائے موت دے دِی گئی ۔ہمارے حکمران پہلے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر قومی سلامتی کا مذاق اُڑا لیتے ہیں ،جب کوئی آواز اُٹھاتا ہے تو پھر یہ اپنی وحشت پر اُتر آتے ہیں ۔جب کسی ملک کے حکمران عوام میں سے اہلِ دانش یا پھر اپنے سیاہ کرتوں کے چشم دیدہ گواہوں کو’غدار‘ کہنا شروع کر دیں تو اس سے ان کی ذہنی پسماندگی کا اظہار ہوتا ہے ۔

بہرحال حب الوطنی صرف ایک احساس ہی نہیں بلکہ زندہ جذبہ بھی ہے ،جو کسی قوم کو مسلسل تحریک دیتا ہے اور رِہنمائی کرتا ہے ۔کسی بھی باشعور انسان کو حکمرانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔وطن ہر انسان کے لیے سب سے بڑھ کر ہوتا ہے کوئی بھی شخص وطن کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ہم سب محبِ وطن ہیں اور محب وطن رہیں گئے ۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کب اپنے مخالفوں کو ’’غدار ‘‘ کہتے رہیں گئے۔۔ ۔آخر کب تک؟۔

اس وقت ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں کو شائع کر نے کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے ۔لیکن ہمارے ہاں کمیشنوں کی رپورٹس کو شائع کر نے کا رواج نہیں ہے ۔کیونکہ اس سے بہت سے چھپے چہر ے سامنے آسکتے ہیں ۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی بہت دیر تک اندھیرے کمروں میں دبی رہی تھی ۔یہ ہی حال ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا ہے وہ بھی شائع نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے پاکستان کی عوام ابیٹ آباد میں ہونے والے آپریشن کے حقائق معلوم نہ ہو سکے۔

پاکستان کی عوام کی اکثریت آج بھی اس بات سے لا علم ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن موجود تھا کہ نہیں ؟۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور عوام موجودہ حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو شائع کرے ۔اس سے جہاں پی پی پی کا کردار بے نقاب ہو گا ،وہیں دیگر کئی سربستہ رازوں سے قوم کو آگاہی ملے گی!!!۔

2 Comments