مانچسٹر کا خود کُش حملہ یا مکافات عمل

آصف جیلانی

مانچسٹر کے خودکش بمبارسلمان عابدی کے کوائف اور پس منظر کی کرید کرید کر چھان بین کے نتیجہ میں جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے انکشاف ہوا ہے کہ اس حملہ کے تانے بانے بالواسطہ طور پر لیبیا سے ملتے ہیں ۔ سلمان عابدی کے والد رمضان عابدی ،لیبیا میں معمر قذافی کے دور میں انٹیلی جنس سروسز میں ایک اعلیٰ افسر تھے لیکن بعض امور پر اختلافات کی وجہ سے لیبیا سے فرار ہو کر انہوں نے برطانیہ میں پناہ لی تھی، اور مانچسٹر میں والی رینج کے علاقہ میں سکونت اختیار کی تھی، جہاں لیبیایوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

سلمان عابدی اور اس کے بھائی بہن یہیں مانچسٹر میں پیدا ہوئے۔ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکسنے 1992میں رمضان عابدی کو معمر قذافی کو قتل کرنے کے مشن پر لیبیا بھیجا تھا لیکن یہ مشن راز افشا ہونے کی وجہ سے ناکام رہا تھا جس کے بعد ایم آئی سکس نے انہیں برطانیہ واپس بلا لیا۔لیکن برطانیہ کی خفیہ ایجنسی نے رمضان عابدی کو 1994میں دوبارہ لیبیا بھیجا تھا اور اس بار مشن ، معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ،لیبین اسلامک فاٹینگ گروپ منظم کرنا تھا ، جس کا مقامی القاعدہ سے رابطہ تھا۔ ایم آئی سکسنے اس گروپ کو معمر قذافی کے قتل کے مشن کے لئے ایک لاکھ پونڈ کی رقم ادا کی ، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی، جس کے بعد برطانوی خفیہ ایجنسی میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور ایک اعلیٰ افسر ڈیوڈ شایلر نے غیر ممالک کے رہنماوں کے سیاسی قتل کے منصوبوں کا انکشاف کرکے اس پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔

لیبین اسلامک فاٹینگ گروپ میں رمضان عابدی کا ایک قریبی دوست ، باسط الزوز ، جو مانچسٹر میں رہتا تھا، 2009 میں پاکستان منتقل ہوگیا اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کا قریبی معتمد بن گیا تھا۔ 2011میں باسط الزوز لیبیا میں ناٹو کے آپریشن میں پیش پیش تھا اور گیارہ ستمبر 2012میں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے زیر کمان آپریشن میں لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹفر اسٹیونس کو قتل کیا گیا تھا۔ 2014 میں اسے ترکی میں گرفتار کر کے امریکا کے حوالہ کردیا گیا ، جہاں خیال تھا کہ اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا لیکن تین سال گذرنے کے باوجود ابھی اس کی نوبت نہیں آئی ہے۔

یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ لیبین اسلامک فاٹینگ گروپ نے جس کے سلمان عابدی کے والد رمضان رکن تھے ،2011میں عراق میں القاعدہ قائم کی تھی۔ اس کے بعدرمضان عابدی نے، لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت میں سرگرم حصہ لیا تھا ۔ اور معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد مانچسٹر واپس آگئے۔ اور بہت جلد لیبیا منتقل ہو گئے ۔جہاں کہا جاتا ہے کہ ان کا داعش سے گہرا تعلق ہے۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ رمضان عابدی ، جو معمر قذافی کے دور میں انٹیلی جنس کے اعلی افسر تھے اور جن کا کام ، شدت پسندوں کا سراغ لگانا اور انہیں گرفتار کرنا تھا، دو دہائیوں کے بعد خود ان کا بیٹا داعش کا خود کش بمبار نکلے گا۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ کہ جس طرح 9/11کے حملوں کے بعد ملبہ میں سعودی حملہ آوروں کے پاسپورٹ برآمد ہوئے اسی طرح مانچسٹر کے خود کش بمبار کی جیب سے اس کا بنک کارڈ نکلا ہے۔ اس بات پر بھی لوگوں کو تعجب ہوا کہ حملہ کے بعد نصف گھنٹہ کے اندر اندر امریکی انٹیلی جنس نے حملہ آور سلمان عابدی کی شناخت ،امریکی میڈیا کو افشا ء کر دی ۔ یہ ایسے راز ہیں جو ابھی تک عوام سے پوشیدہ ہیں۔

ادھر ،برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے اس بیان پر زبردست تہلکہ مچ گیا ہے کہ مانچسٹر کے حملہ کا مشرق وسطی میں برطانیہ کی خارجہ پالیسی سے گہرا تعلق ہے۔ ایک عرصہ سے برطانیہ کے مسلم رہنما اور نوجوان ، برطانیہ میں شدت پسندی اور دہشت گردی کی اصل وجہ ، برطانیہ کی خارجہ پالیسی قرار دیتے رہے ہیں لیکن برطانوی حکومت نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ برطانیہ کے ایک ممتاز رہنما نے مسلم رہنماوں کی ہم نوائی کی ہے۔ جیریمی کوربن نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی نے اس ملک میں خطرات میں اضافہ کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو دلیری سے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کارگر نہیں رہی ہے ۔

جیریمی کوربن صحیح ہیں ، کیونکہ جب بھی ٹونی بلیر اور ڈیوڈ کیمرون اس کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں کہ افغانستان ، عراق اور لیبیا میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے برطانوی خون اور پیسہ کیوں بہایا گیا ، تو ان کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس کا مقصد برطانیہ کی سڑکوں کو دہشت گردی سے بچانا تھا اور ’’شدت پسند اسلام ‘‘ کو کچلنا تھا۔ پچھلے سترہ سال کے دوران ، افغانستان، عراق اور لیبیا میں حکومتوں کا تختہ الٹا گیا ہے لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں برابر دہشت گرد حملے ہورہے ہیں ۔ ۷ جولائی 2005 کو لندن میں چار مسلم نوجوانون نے انڈر گراونڈ ریلوے پر جو خود کش حملے کئے تھے اس کے بارے میں انہوں نے جو ویڈیو چھوڑا تھا اس میں بھی انہوں نے برطانیہ کی خارجہ پالیسی کی شدید مذمت کی تھی اور اپنے انتہا پسند اقدام کا جواز خارجہ پالیسی کے سلسلہ میں اپنی بے بسی کا پیش کیا تھا۔

یہ تازہ انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ملک میں ایسے 23 ہزار جہادی افراد کی شناخت کی ہے جن سے دہشت گردی کا خطرہ ہے ۔ ان میں سے 3 ہزار افراد کے بارے میں تفتیش کی جارہی ہے ۔ 

غرض یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ برطانیہ میں دہشت گردی کی بڑی وجہ اس کی خارجہ پالیسی ہے ، خاص طور پر مشرق وسطی میں فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کی حمایت اور ارض فلسطین پر اسرائیلی تسلط کے لئے اسلحہ کی بھر پور مدد۔ یمن اور شام میں مسلمانوں کے قتل و خون کے لئے دھڑا دھڑ اسلحہ کی فروخت کیا جارہا ہے ۔ برطانیہ کے مسلم نوجوان برطانیہ میں جمہوری حقوق سے لیس ہونے کے باوجود وہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی کوششوں میں بے بس اور بے کس محسوس کرتے ہیں۔

مانچسٹر کے سانحہ سے یہ حقیقت بھی اجا گر ہوئی ہے کہ برطانیہ نے لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے لیکن اس کے بعد سوائے افرا تفری کے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ مانچسٹر ایسے ہولناک سانحہ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مکافات عمل نہیں تو کیا ہے؟

♦ 

Comments are closed.