مشرقی گھگو گھوڑے اور امریکہ

طارق ضیا

جیری کو بیٗر پینے کے ساتھ قیمہ بھرے دیسی نان کھانے کا بے حد شوق ہے۔ قیمہ بھرے نان سے پہلا تعارف تو میں نے ہی کرایا تھا لیکن اسکے ساتھ جو وہ پیتا ہے وہ خالص اسی کی تخلیقی آمیزش ہے۔

ہم جیسے ہی سی ایٹل کے ایک قدیمی حصے میں واقع سردار جی کے ریستوران میں داخل ہوتے تو ایک کونے میں ای سگار پیتے ہوئے سردارجی اپنے منہ سے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرنا نہ بھولتے۔ بار ریستوران کی پچھلی جانب بنا ہوا ہے جو ولایتی گاہکوں سے بھرے اس دیسی ریستوران کا بظاہر حصہ نہیں لگتا۔ لیکن یار لوگوں کی تیز نگاہی سے ایسی جگہیں زیادہ دیر چھپی نہیں رہ سکتیں۔

یاد نہیں جیری سے دوستی کب ہوئی۔ لیکن جو بات یاد رہنے کی ہے، وہ یہ کہ جیری میرا پہلا افریقی امریکن دوست ہے۔

جب جیری کی دوسری بیوی آنجہانی ہوئیں تو ہماری شام کی ملاقاتوں میں تسلسل گہرا ہونے لگا۔ کبھی اِس مے خانے کبھی اُس مے خانے۔ کچھ عرصے کے بعد جب جیری نے اپنی تیسری ہونے والی بیوی سے راہ و رسم بڑھانی شروع کی تو ویک اینڈ کی ملاقاتوں میں ہچکیوں کا دورانیہ بڑھ گیا۔

مجھے جیری کی پہلی، دوسری اور تیسری بیوی سے کئی ملاقاتوں کا شرف ملا۔ جیری جب مجھے اپنے گھر مدعو کرتا تو میرا تعارف کچھ اس انداز میں ہوتا کہ جیسے مجھے دریافت کرنے کا سہرا جیری ہی کے سر ہے۔ سب جاننے کی کوشش کرتے کہ بجلی ، موٹر اور ڈیپارٹمینٹل سٹورز کے بغیر میرا بچپن کیسا گذرا ہوگا اور مجھے کھیلنے کیلئے کیسے کھلونے میسر ہوئے ہونگے؟ میں بھی انہیں دیہی زندگی کی داستانیں الف لیلوی رنگ میں سنا سنا کر محظوظ کرتا۔ لیکن مٹی سے بنے کھلونوں سے کھیلنے کا ذکر کرکے مجھے ایسے لگتا کہ میں نے اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی نوادراتی حیثیت دے دی ہے۔ لیکن سننے والوں کےمنہ سے بے اختیار یہ ضرور نکلتا ’’او مائی گاش، کتنا کیوٹ ہوگا وہ زمانہ!!‘‘ اب بھلا گھگو گھوڑے میں اتنا کیوٹ پن کہاں تھا اس زمانے میں؟

ان ملاقاتوں میں مجھے امریکی سماج کی اندرونی خوبصورتی اور خانگی زندگی کے کئی پہلو سمجھنے میں مدد ملی۔

وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب جیری نے اپنی بیٹی کی اکیسویں ویں سالگرہ پہ مجھے بلایا۔ یہ موقع جیری کی خانگی زندگی سمجھنے کیلئے خاص بن گیا۔

جیری نے اپنی جواں سال بیٹی اور بیٹے سے ملوایا۔ ابھی ہم نے ادھر ادھر کی باتیں شروع ہی کی ہوں گی کہ اتنے میں ایک باوقار ادھیڑ عمر سفید فام عورت ہاتھوں میں کیک اور سویٹ ہارٹ فرنچ لیلِک کے بنفشی پھول تھامے سٹنگ روم میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے سب کی نظروں کو جیسے اپنے حصار میں لے لیا ہو۔ جیری کی بیٹی نے مامی (Mommy!)  کا نعرہ لگایا اور اسی عورت کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔ انکے پیچھے آنے والے گورا صاحب نے جیری کے ساتھ امریکی انداز میں کندھے سے کندھا ملا یا اور دونوں نے ایک دوسرے کی پشت پر تھپکی دی۔

امریکہ میں مرد ایک دوسرے کو جپھی نہیں لگاتے لیکن مرد اور عورت کا گلے ملنا انسیت، دوستی اور احترام کی نشانی ہے۔ یہ انداز ملاقات اجنبیوں سے نہیں صرف قریبی جان پہچان والے حلقے میں چلتا ہے۔

جیری نے جب میرا تعارف ان مہمانوں سے کرایا تو میری آنکھوں کی پتلیوں نے ناچنا شروع کردیا۔ یہ سہجی شخصیت والی جیری کی پہلی بیوی تھیں اور انکے ہمراہ گورا صاحب جیری کی پہلی بیوی کے خاوند تھے۔ جیری کی دوسری بیوی نے اپنے خاوند کی پہلی بیوی کا بھی ایسے ہی والہانہ استقبال کیا۔ جیری اپنی پہلی بیوی کے خاوند سے خوش گپیوں میں مصروف جبکہ جیری کی دوسری بیوی اپنے خاوند کی پہلی بیوی سے ایسے گپ ہانکنے لگی جیسے دونوں پچپن کی سہلیاں ہوں۔ جیری نے مجھے کن آکھیوں اور دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ وہ جان چکا تھا کہ جس دیس سے یہ روح یہاںوارد ہوئی ہے وہاں شاید ایسا چلن نہیں۔ وہ صحیح تھا، تبھی تو میری آنکھوں کی پتلیوں کا بے ہنگم ناچ بند نہیں ہوا تھا۔

اگلے ویک اینڈ پہ ہلکی ہلکی بارش تھی۔ سی ایٹل شہر ہی کچھ ایسا ہے جہاں رومان پرور دھند سی چھائی رہتی ہے۔ میرا جی چاہا کہ ڈاوٗن ٹاوٗن کی بلند و بالا عمارتوں کے بیچوں بیچ کی راہداریوں پہ چلتا اور نسوانی خدوخال دیکھتا جاوٗں۔ مجھے بھانت بھانت کے تازہ وجواں چہرے دیکھ کر ایک روحانی آسودگی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن جیری کو میرا یہ انداز ایک آنکھ نہ بھاتا۔ اسے کسی ایسے مے خانے کی تلاش تھی جہاں کسی عالمی موسیقی کی شام بھی ہو۔ اس نے جاپان سے آئی ہوئی ایک پیانو بجانے والی کا سراغ ڈھونڈ ہی لیا۔

سی ایٹل شہر کی روایت ہے کہ بڑے بڑے بار دنیا بھر کے موسیقاروں کو مدعو کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی و سماجی تحریکوں کے علاوہ سی ایٹل اپنی موسیقی نوازی کیلئے بھی مشہور ہے۔ نصرت فتح علی یہاں کے مہمان رہ چکے ہیں انہوں نے ایک عوامی پارک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے سی ایٹل کے باسیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ جیری کے پاس موجود دنیا بھر کی موسیقی کے زخیرے میں نصرت کی شرابی غزلیں بھی موجود ہیں۔

جب ہم خوب سیر ہو کے باہر نکلے تو بارش کی دھیمی دھیمی پھوہار چار سُو برس رہی تھی۔ جیری خاموش تھا اور میں پُر اشتیاق کہ ساٹھ سالہ زندگی میں جیری نے کیا کھویا اور کیا پایا!! یہ سوال اپنی نوعیت میں کافی جارحانہ ہے اور ہم منہ پھٹ مشرقی سوال کچھ ایسے داغتے ہیں کہ شاید یہ کوئی خاصے کی بات ہے۔

’’بات یہ ہے۔‘‘ جیری نے خود ہی اپنی خاموشی کا تالہ کھول دیا لیکن جو بات اس نے کی، اس نے میری ذات میں پنہاں ایک ایسا تالہ کھول دیا کہ مبہوت ہوئے بنا کوئی چارہ نہیں تھا۔

’’ ہم امریکی فیصلے کرتے ہیں اور پُرانے جذباتی بیگ اپنے ساتھ ساتھ اٹھائے جینےکے قائل نہیں، یہ اپنی ذات سے سچا ہونے کا اٹل اصول ہے، جو ہے وہ ہے ۔ مصلحت اور رواداری کی چادر اوڑھنے کے ہم روادار نہیں۔‘‘ جیری یہ بات کرکے خاموش ہوگیا۔ میں نے دور سی ایٹل کی مشہور کسان مارکیٹ کی جلتی بجھتی بتیوں کو دیکھنا شروع کردیا۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جو کہنے کے نہیں، محسوس کرنے کے ہوتے ہیں۔

جیری کی پہلی شادی کالج کے زمانے میں رومانویت سے لبریز جوانی میں ہوئی ، لیکن کچھ ہی برس کے بعد دونوں نے جان لیا کیا کہ یہ فیصلہ روحانی واردات سے زیادہ بدنی ضرورت کے تحت تھا۔ سو، بارہ برس کی رفاقت کے بعد دونوں نے اپنی اپنی ذات کے سچ کو بیچ چوراہے میں لا پھوڑا۔ زندگی اگر جھوٹے سمجھوتے کا نام ہے تو ہم سے یہ ہونے کا نہیں ۔ راہیں جدا ہوئیں؛ لیکن سچائی کے بندھن نے دونوں کو خلوص کی لڑی میں پُروئے رکھا۔ بچوں کی ذمہ داری دونوں نے مل کر ادا کی ۔زندگی کی اگلی مسافت میں بھی انہیں ایسے ہی جیدار ملے۔ سو دونوں خاندان آج بھی ایسے ہیں جیسے کہ سچائی کے مسافروں کو ہونا چاہئیے۔

امریکی جب تک شادی کے بندھن میں رہتے ہیں بڑی حد تک دوسری صنف کی طرف التفات کی آنکھ نہیں بھرتے۔ لیکن معاملہ جب فطری حدود سے باہر ہونے لگے تو بیٹھ کر بات کی جاتی ہے، اپنی ذات سے سچائی کی خوف ناک پاسداری اس گفتگو کا محور ہوتا ہے۔

جیری کو کسی زمانے میں مذہب سے دلچسپی انتہا کی تھی لیکن زندگی کو پرکھنے کی آزاد طبعیت نے اسے لا مذہب بنا دیا۔ موسیقی اور کتابیں اسکی زندگی کا محور بن گئیں ۔لیکن لامذہبوں کی اخلاقیات کا خمار اگر گریک تہذیب سے اٹھے تو دنیا کے خوبصور ت اور انسان دوست نمودار ہوتے ہیں۔ جیری بھی انہیں میں سے ایک ہے۔

آج کل وہ صاحب فراش ہے لیکن چہرے کی مُسکان ایسی ہی تازہ ہے جیسے پہلے دن اس سے ملاقات میں دیکھی تھی۔

جب میں نےآخری مرتبہ اُسے دیکھا تو میرے مشرقی تہذیب تلے بلکتے آٹے سے گندھے پیڑوں کی سڑانڈ دو چندہو چکی تھی۔

2 Comments