جکارتہ سے تل ابیب تک

طارق احمدمرزا

چند ہفتہ قبل ایک اسرائیلی وزیر نے پہلی مرتبہ کھلے بندوں اعلان کیاتھا کہ کئی عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ غیر رسمی سفارتی روابط اور تعلقات قائم ہیں۔

عرب ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر مسلمان ممالک کے ساتھ بھی اسرائیل کے خفیہ روابط کافی عرصہ سے چلے آرہے ہیں جن میں دنیاکا سب سے بڑا اسلامی ملک انڈونیشیا بھی شامل ہے۔

اسرائیل کے نائب وزیرخارجہ نے2016 میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے’’ انکشاف‘‘ کیا کہ گو انڈونیشیا نے رسمی طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور انڈونیشیا کے بعض وزراء وغیرہ بظاہراسرائیل کے خلاف بیان بازیاں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک سرکاری سطح پر انتہائی اہم معلومات کاتبادلہ کرتے رہتے ہیں اور دونوں ممالک کے مابین غیر رسمی سفارتی تعلقات کافی عرصہ سے بلا تعطل جاری ہیں۔انہوں نے بتا یا کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل جکارتہ کا دورہ بھی کرچکے ہیں جنہوں نے انڈونیشی وزیرخارجہ کے دورہ یروشلم کی تفصیلات طے کی تھیں۔

stop_pa1


اسی برس انڈونیشین صحافیوں کے ایک وفد نے اسرائیلی وزارت خارجہ کی دعوت پر اسرائیل کا مطالعاتی اور خیرسگالی دورہ کیاتھا ۔ اسرائیلی وزیراعظم ناتھن یاہونے وفدسے ملاقات میں کہا کہ وقت آگیا ہے کہ اب انڈونیشیا اور اسرائیل کے درمیان رسمی سفارتی تعلقات بھی قائم ہو جائیں۔اسی طرح جنوری 2017 میں ایک اعلیٰ سطحی انڈونیشی وفداسرائیل پہنچا تھاجس کے اعزاز میں اسرائیلی صدرنے یروشلم میں واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ میں استقبالیہ کااہتمام کیا۔اسرائیلی صدر نے وفد کو بتایا کہ اسرائیل میں بلا تخصیص ہر کسی کو اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ہم لوگ اکٹھے مرنے کے لئے نہیں بلکہ اکٹھے جینے کے لئے تیارہورہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے والد نے 1936میں قرآن کریم کا عبرانی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت پائی جسے وہ اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔

انڈونیشی وفد کے سربراہ پروفیسراستبجاروب نے اسرائیلی صدرکو بتا یا کہ وہ چئرپرسن اسلامک کونسل بورڈانڈونیشیا ،صدر انسٹی ٹیوٹ فار ہائر ایجوکیشن اور سابق انڈونیشی سینیٹر ہیں اور اسرائیل کا دورہ کرنے والے اس وفد کی سربراہی ان کے لئے باعث افتخار ہے۔

وفد کی ایک خاتون رکن نے کہا کہ فلسطینیوں کی ٹھوس مدد کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسرائیل کو اچھی طرح سے سمجھیں اور اس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنائیں تا کہ وہ ہماری بات بھی سنجیدگی کے ساتھ سننے کے لئے آمادہ ہو سکے۔

بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل سابق اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک رابن انڈونیشیا کا اور سابق انڈونیشین صدرعبدالرحمٰن وحید اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔سابق اسرائیلی صدر شمعون پیریز بھی سنہ 2000 میں بحیثیت اسرائیلی وزیر برائے علاقائی تعاون انڈونیشیا کا دورہ کر چکے ہیں۔اسی طرح ایک انڈونیشی وفد تل ابیب میں ہونے والی ہوم لینڈ سیکیورٹی کنونشن میں شرکت کرچکا ہے وغیرہ۔ ان دوطرفہ سفارتیٍ سرگرمیوں کا مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج دونوں ملکوں کے مابین باہمی تجارت کا سرمایہ لگ بھگ پانچ سو ملین ڈالرتک پہنچ چکاہے۔ اس کا زیادہ فائدہ انڈونیشیا کو ہی ہورہا ہے کیونکہ اس تجارت کا اٹھاسی فیصدحصہ انڈونیشین ایکسپورٹس پر مشتمل ہے جو اسرائیل کو جاتی ہیں۔
https://thediplomat.com/2015/03/the-quiet-growth-in-indonesia-israel-relations/

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق چونکہ انڈونیشیا میں اسرائیل کا ٹریڈ مشن موجود نہیں لہٰذہ یہ تمام تجارتی لین دین سنگاپورکی وساطت سے سرانجام پاتے ہیں۔اخبار کے مطابق دونوں ملکوں کے سرکاری افسران اور بزنس مین ہی ان دوطرفہ باہمی تعلقات سے فائدہ نہیں اٹھارہے بلکہ ایک طرف اگر سنگاپورآنے والے عام اسرائیلی شہری انڈونیشیا کے جزیرہ بالی میں تفریح سے لطف اندوزہونے کے لئے اندونیشین ویزہ آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں تو دوسری طرف اسرائیل ہر سال گیارہ تا پندرہ ہزار انڈونیشین شہریوں کو اسرائیل (بشمول یروشلم)میں موجود تاریخی اورمقدس مذہبی مقامات کی زیارت کے لئے ’’پِلگرم ویزہ ‘‘کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

قارئین ،جیسا کہ بیان ہوا انڈونیشیا ایک اسلامی ملک ہے،دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک۔وہاں بھی توہین مذہب سے متعلق انتہائی سخت رجحانات اور قوانین موجود ہیں لیکن اسرائیل کے ساتھ مذکورہ بالا تعلقات سے نہ تو انڈونیشیا میں اسلام کوکوئی خطرہ لاحق ہواہے اور نہ ہر سال اسرائیل جانے والے ہزاروں انڈونیشین مسلمانوں اور ان کے لیڈروں کووطن واپسی پر یہودی ایجنٹ، اسرائیلی جاسوس یادین و ملت کے غدار قرار دیا جاتا ہے۔

سوال ہے کہ کیا اس حوالہ سے پاکستان اپنے اس اسلامی برادر ملک اور اس کے عوام سے کچھ نہیں سیکھ سکتا؟۔ سردارعتیق احمد خان نے کسی زمانہ میں اسرائیل کو تسلیم کرلینے کی تجویز پیش کی تھی لیکن وہ غالباً ایک ہی جلوس کی مار تھے،ہمیشہ کے لئے دم سادھ کر بیٹھ گئے !۔

Comments are closed.