میں قاسم علی شاہ کو کیوں نہیں سنتا

عبدالرحمن وڑائچ

پاکستان میں عمومی طور پر نوجوان نسل میں سے بہت کم لوگ ادب اور فنون و لطیفہ کے حوالے سے با زوق ہیں ۔ان بہت کم میں سے کچھ کے پاس موبائل فون میں اپنے اپنے فرقے کے علما کی مذھبی تقریریں ،بیان اور باقیوں کے پاس نئے تھرکتے گانے ہیں۔ مگر آج کل پڑھے لکھے نوجوانوں میں اک نیا رجحان بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ، ان کے پاس مختلف سپیکرز کے لیکچر ہیں جنھیں وہ فرصت میں بیٹھے کہیں بھی سننے لگ جاتے ہے ،ان میں مشہور سپیکرز قاسم علی شاہ اور سندیپ مہیشوری ہیں ۔ سندیپ کا تعلق بھارت سے ہے ۔

نوجوان مذھبی علما کی دھواں دھار تقریروں کی نسبت ان سپیکرز کے شیریں انداز بیان کے معترف ہیں۔میں خود بھی ان کے کئی لیکچر سن چکا ہو۔ مگر ان کی دی ہوئی تحریک کچھ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔

وہ بس سارا زور اس چیز پر دیتے رہتے ہے کے اگر اپ کوئی چیز پانا چاہتے ہیں ،کوئی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس اس کی شدید خواہش کیجیے،اس لئے کیا کیا درکار ہے مثلا علم ،قابلیت وغیرہ کچھ ضروری نہیں۔

دراصل تحریک خواہ وہ کسی بھی کام لئے ہو، کسی کے جگائے نہیں جاگتی ، اور اگر یہ جگا بھی دی جائے تو محض یہ لمحاتی ہوتی ہے اور اسے بار بار جگائے ہی رکھنا پڑتا ہے۔

ایسی تحریکی سرگرمیاں زیادہ تر جنگی ماہرین ہی استعمال کرتے ہیں جن میں فوجیوں کو وقتی جوش و جنون دلوا کر کسی بھی محاذ پر لڑوایا جا سکتا ہے۔

اپ اک طالبعلم کی مثال لیجیے

آپ ایک طالبعلم کو پڑھنے لئے جتنا مرضی متحرک کر لیں ،وہ تب تک پڑھنے لئے متحرک نہیں ہو گا جب تک کہ وہ دلی طور پرپڑھائی لئے آمادہ نہ ہو ، جب تک کہ خود اس کے اندر سے علم کےلئے شوق نہ اٹھے۔

ہمارے مذھبی علما بھی اسی حوالے سے صدیوں سے لوگوں کو متحرک کر کے رائےراست پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں ، بڑے بڑے مقرر اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں مگر نتیجہ! خود انہیں کے مطابق برائی دنیا میں بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے ایسے اسپیکرز کو مہنگے داموں لیکچرلئے بلاتی ہیں ۔طالبعلم اس لئے ٹکٹ خریدتے ہیں آڈیٹوریم کھچاکھچ بھرے ہوتے ہے مگر گھنٹہ دو گھنٹہ کے لیکچر میں ایسی کوئی بات شاید ہی ہو جو طالبعلوں کی علمی استطاعت کو بڑھائے ، ماسوائے چند گھڑی باتوں کے جو اپ کو وقتی طور پر سحرانگیز لگتی ہیں کیوں کے وہ حقیقت پسندی کی بجائےپرتخیل ہوتی ہیں۔

اصل اور مستقل تحریک انسان کے بطن سے خود پھوٹتی ہے۔اور یہ لمحاتی نہیں ہوتی نہ ہی اسے بار بار دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ یہ اسے بڑی سے بڑی مشکل کو جھیلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔یہ تحریک علم اور خود شعوری سے پیدا ہوتی ہے ۔دنیا کے تمام بڑے بڑے مصلح اسی تحریک کے زیر اثر دنیا کو اک نئی سمت میں ڈال گئے تھے۔

یہ اب ایک کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کو ایسے لوگوں کو مدعوں کی ضرورت ہے جو خود میں ایک تحریک ہوں ،جن کو محض دیکھ کر تحریک ملے ، وہ سائنس دان ہوں ، وہ سماجی کارکن ہوں ، وہ صحافی ہوں ، وہ رائیٹر ہوں جن کو سن کر آپ میں علم کا ذوق پیدا ہو نہ کے ایسے لوگ جن کو سن کر اپ جوش سے کچھ کرنے لئے ٹکریں تو مارے مگر اپ لئے کوئی راہ متعین نہ ہوں۔

4 Comments