بلوچستان اپنا حق مانگتا ہے

لیاقت علی ایدووکیٹ

ڈاکٹر قیصر بنگالی کا پاکستان کے معروف اکنانومسٹ ہیں۔ڈاکٹر بنگالی ایسے ماہرین اقتصادیات میں سے نہیں ہٰیں جواعداد و شمارکی جادو گری سےعوام کو بے وقوف بناتےاورحکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ ان کا فوکس پاکستان کے محروم عوام ہیں وہ ان کے مسائل اور مشکلات کو اٹھاتے اور ان کےممکنہ حل کی راہ سجھاتے ہیں۔

انھوں نے رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان کو درپیش معاشی، ادارہ جاتی اور سماجی ترقی سے جڑے مسائل کے بارے میں کتاب لکھی ہے۔

A Cry for Justice

نام سے لکھی گئی اپنی اس کتاب میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نےٹھوس شہادتوں اور قابل اعتبار اعداد وشمار کی مدد سے بلوچستان کو درپیش مختلف النوع مسائل کو اجاگر کیا ہے۔

ڈاکٹر بنگالی کی یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس میں بلوچستان کے مختلف مسائل اور اس کی معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔

بلوچستان اور قدرتی گیس کو باہم لازم ملزوم سمجھا جاتا ہے ڈاکٹر قیصر نے قدرتی گیس سے جڑے مسائل اور اس سے حاصل ہونے والے ریونیو پر بھی بحث کی ہے۔ بلوچستان کے ملنے والےترقیاتی فنڈز، ان کا استعمال اور سول سروسز کا بحران بھی ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا فوکس ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کا موقف ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی غیر ارادی نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اور یہ منصوبہ بندی مرکز کی سطح پر کی جاتی ہے۔بلوچستان کو منظم انداز میں اس کے قدرتی وسائل سے محروم کیا جارہا ہے۔اس کے وسائل پاکستان کے دوسرے صوبوں میں استعمال کئے جارہے ہیں۔

قدرتی گیس 1952 میں سوئی میں دریافت ہوئی تھی۔ 1955 میں بذریعہ پائپ لائن یہ ملک کے دوسرے شہروں اور صوبوں میں پہنچنا شروع ہوگئی تھی لیکن بلوچستان کو، جہاں سے یہ گیس نکلتی ہے 1984 میں ملی۔ اس سے قبل گیس بلوچستان کے کسی شہر کو میسر نہیں تھی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان کے قدرتی گیس کے وسائل بہت حد تک کم ہورہے ہیں۔ سوئی جو ایک وقت میں قدرتی گیس کی سپلائی کا سب سے بڑا مرکز تھا اب وہاں گیس کے ذخائربہت حد ختم ہوچکے ہیں۔آنے والے دس سالوں میں سوئی میں گیس کے ذخائیر ختم ہوجائیں گے۔

اس صورت حال میں ان افراد اور اداروں کا کیا بنے گا جنھوں سوئی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔بہت سے لوگوں نے اپنی عمر بھر کی کمائی سے وہان رہائش کے لئے گھر تعمیر کئے تھے۔ بہت سے اداروں نے وہاں اپنا انفراسٹرکچر تعمیر کیا تھا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ سوئی قریب المرگ ہے۔ جب ہم سوئی کی گیس کراچی،لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی صنعتوں کو انتہائی معمولی قیمت پر فراہم کر رہے تھے ہم نے یہ کیوں نہ سوچا کہ اس گیس نے ایک دن ختم بھی ہونا ہے اور اس دن کے لئے ہم نے کیا منصوبہ بندی کی تھی؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی بلوچستان کی ترقی کی صورت حال پر بھی نالاں ہیں۔1982 سے آج تک جتنی بھی سٹڈیز ہوئی ہیں ان کے مطابق پاکستان کے جن اضلاع کو انتہائی پسماندہ قرار دیا گیا ہے ان میں سے تین چوتھائی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔2001 کی ایک سٹڈی کے مطابق ماسوائے کوئٹہ بلوچستان کے 26 میں سے 24 اپنے معاشی اور سماجی اشاریوں کے اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہیں۔

جس کا مطلب ہے کہ بلوچستان کی 88 فی صد آبادی کا شمار پاکستان کی انتہائی محروم اور پسماندہ عوام میں ہوتا ہے ۔ مختلف ادوار میں ہونے والی سٹڈیز سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کے ذرائع آمدن محدود بلکہ بعض صورتوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں، انفراسڑکچر معدوم اور تعلیم نام کی چیز مفقود ہے۔ انسانی زندگی کی بقا کے لئےپانی بنیادی ضرورت ہے اور بلوچستان میں پینے کا پانی سرے سے میسر نہیں ہے۔

بلوچستان میں رہائشی سہولتوں کے فقدان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1990 اور 2016 کے درمیانی سالوں میں حکومتی سطح پر کوئی رہائشی سکیم لانچ نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ 2010 تک رہائشی سکیموں کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے پاس تھی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ 2010۔2020 کے لئے جو رہائشی سکیمیں اور دفاتر تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں وہ تمام کے تمام سیکورٹی اداروں اور سول سروسز کی رہائشی اور دفتری ضرورتوں کو پیش نظر رکھ بنائے گئےہیں۔

بلوچستان کو درپیش معاشی،سماجی مسائل کو سمجھنے کے لئے ڈاکڑ قیصر بنگالی کی یہ کتاب ہمیں ریاستی بیانیہ سے مختلف منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ ریاستی بیانیہ محض وعدوں اور تسلیوں کا مجموعہ ہے جب کہ یہ کتاب ہمیں بلوچستان کے بارے میں ٹھوس حقائق سے روشناس کراتی ہے ۔

One Comment