کرشنا کماری کی آمد اور مولانا سمیع الحق کی رخصتی

پاکستان میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اقلیتی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری کو منتخب کیا گیا ہے۔دوسری جانب مولانا سمیع الحق کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

 پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی اڑتیس سالہ کرشنا کماری کا سفر طویل تھا۔ ان کا تعلق دلت ذات سے ہے، جسے ذات پات کے لحاظ سے بھارت میں اب بھی سب سے ’نچلا ترين‘ اور اچھوت تصور کیا جاتا ہے۔

صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے ڈسٹرکٹ نگر پارکر کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری کولھی کی حمایت پیپلز پارٹی کی تمام قیادت نے کی تھی۔

 کرشنا کماری ابھی سولہ سال کی ہی تھیں کہ ان کی شادی لال چند سے ہو گئی تھی لیکن ان کے شوہر نے شادی کے بعد بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں۔

کرشنا کماری نے2013کے دوران سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے تھر کے غریب لوگوں کی مدد کے لیے فلاحی اور سماجی سرگرمیاں بھی جاری رکھی ہوئی تھیں۔ اس وقت اڑتيس سالہ کرشنا کماری کے انتخاب کو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ پاکستان کے حریف ملک بھارت میں بھی سراہا جا رہا ہے۔

دوسری جانب اس مرتبہ سینیٹ کے انتخابات میں ’فادر آف طالبان‘ کے نام سے مشہور پاکستان کے مشہور مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر کرشنا کماری کی سینیٹ میں آمد کو مولانا سمیع الحق کی رخصتی سے جوڑا جا رہا ہے۔

 ایک سوشل میڈیا صارف کا ٹویٹ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مولانا سمیع الحق کو مدرسہ ریفارمز کے نام پر سات سو ملین روپے دیے گئے ہیں تاکہ وہ حمایت حاصل کر سکیں لیکن انہیں شکست ہوئی ہے۔ دوسری جانب ایک غریب ہندو خاتون کو کامیابی ملی ہے۔ یہ ترقی پسند پاکستان کی نشانی ہے‘‘۔

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا کے باون نئے ارکان کے انتخاب کے لیے ہفتہ تین مارچ کو تمام علاقائی اسمبلیوں میں رائے شماری ہوئی۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے۔

عبوری غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پندرہ امیدوار کامیاب ہو کر سینیٹ میں پہنچے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے بارہ امیدوار کامیاب قرار پائے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چھ امیدواروں کو کامیابی ملی۔

DW

3 Comments