مظلوم قومیتوں کا اتحاد اور حکمت عملی

ایمل خٹک 

پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے عوام دشمن اور غیر جمہوری مذموم عزائم ،  سیاسی برتری اور اجارہ داری کے قیام کیلئے ملک میں بسنے والی مختلف قوموں ، لسانی اور مذھبی اقلیتوں کے درمیان دوریاں اور نفرتیں پیدا کرنے کو ہمیشہ ایک ہتھیار  کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کی اس تقسیم کرو ، آپس میں لڑاو اور حکومت کرو پالیسی کا نشانہ سب سے زیادہ پشتون اور مہاجر بنے۔  اور سندھ کے شہری علاقوں خاص کر کراچی میں دونوں کے درمیاں نوبت خونی فسادات اور ایک دوسرے کو جان سے مارنے تک پہنچی ۔

اس مخاصمت کی فضا  کو بنانے اور قائم رکھنے میں مہاجر اور پشتون عوام کی اپنی نادانیوں اور ان کی جذباتی اور انتقامی جذبات کا بھی عمل دخل رہا ہے۔  اس طرح بہت سے جرائم پیشہ افراد کو بھی مخاصمت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دہونے کا موقع ملا۔ بدقسمتی سے ان فسادات  یا ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں بیگناہ اور معصوم شہری لقمہ اجل بن گئے ۔ 

بہت سی ثقافتی ، سماجی ، اقتصادی اور سیاسی عوامل کی وجہ سے پشتون اور مہاجروں کے درمیان مختلف مسائل پر اختلاف نظر موجود تھا اور ہے جس کواسٹبلشمنٹ نے دونوں کے بیچ نفرت اور تشدد کے بیج بو کر بھرپور طریقے سے استعمال کیا ۔  تین دھائیوں سے زائد عرصے پر محیط مخاصمت اور دشمنی کے اس دور میں دونوں جانب کے سنجیدہ عناصر ہمیشہ اس صورتحال پر پریشان رہے ہیں اور اس سلسلے میں وقتا فوقتا صلح کی کوششیں بھی ہوئیں ۔ مگر کچھ ان کی اپنی نادانیوں اور کچھ اسٹبلشمنٹ کی سازشوں کی وجہ سے صلح اور امن کی فضا کبھی بھی دیرپا نہ رہی ۔  بدقسمتی سے دونوں طرف کچھ مفادی حلقے بھی پیدا ہو گئے ہیں جن کا مفاد مخاصمت اور خون خرابے کی فضا برقرار رکھنے سے جڑا ہوا ہے ۔ 

 چاہے مہاجر ہو یا پشتون دونوں کراچی کی ناقابل تردید حقیقتیں ہیں اور ان حقائق سے چشم پوشی کرنا نادانی ہوگی ۔ نہ صرف دونوں بلکہ کراچی میں بسنے والی تمام قومیتوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا اور اس حقیقت کے ساتھ رہنا ہوگا ۔ کمزور طرز حکمرانی اور غیر منصوبہ بند ترقی کی وجہ سے ملک کے بہت سے علاقے خصوصا پشتون بیلٹ صنعتی لحاظ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے پسماندہ اور دیہی علاقو ں سے شہروں خصوصا کراچی کی طرف وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔

عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنوں سے نقل مکانی میں شدید اضافہ ہوا اور سندھ کے شہری علاقوں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی نقل مکانی ہوئی۔ مسلسل اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے کراچی شہر کی سیاسی ، سماجی اور ثقافتی ترکیب متاثر اور کسی حد تک تبدیل ہوئی ہے ۔ شہر کے محدود وسائل پر بوجھ بڑا ہے اور ان  وسائل تک رسائی ، کنٹرول اور استفادے کیلئے مقابلے اور  آپس کی چپقلشوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ 

 جہاں تک پشتون اور مہاجر تعلقات کا تعلق ہے تو ملک میں صرف مہاجروں کے ساتھ پشتونوں کی خونی دشمنی ہے جو دونوں کیلئے خطرناک اور باعث پریشانی ہے ۔ کراچی میں جاری لسانی اور مذھبی چپقلشوں کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی مشکل اور اجیرن بن چکی ہے۔ پاکستان اور خصو صا سندھ کے شہری علاقوں میں پرامن بقائےباھمی کے اصول کے تحت پشتونوں اور مہاجروں میں مخاصمت اور دشمنی کی فضا کو ختم کرنے اور ھم آھنگی اور  بھائی چارے کی فضا بنانے کی ضرورت ہے ۔

اس طرح تمام مظلوم قومیتوں کے درمیان ریاستی جبر اور نا انصافیوں کے خلاف کم سے کم نکات جیسے پارلیمان اور قانون کی بالادستی ، انسانی حقوق کی تحفظ اور احترام ، جمہوریت کے استحکام اور بہتر طرز حکمرانی کے قیام کیلئے افہام وتفہیم اور مشترکہ جہدوجہد کی ضرورت ہے ۔ ہزاروں پشتون ، سندھی ، بلوچ اور مہاجر نوجوانوں کی پراسرار گمشدگی ، ماورائے عدالت قتلوں کے نا ختم ہونے والے سلسلہ جس کی حالیہ بدترین مثالیں نقیب اللہ محسود ، ڈاکٹر عارف حسن وغیرہ کی سفاکانہ اور بہیمانہ طریقے سے شہادتیں ہیں اور شورش زدہ علاقوں میں فورسز کی عوام کے ساتھ ناروا سلوک اور زیادتیاں عوام میں غم وغصہ کی باعث بن رہی ہے۔   اگر مظلوم قومیتوں اور طبقات میں افہام وتفہیم نہیں پنپ سکا تو خدشہ یہ ہے کہ عوام دشمن قوتیں اس طرح ایک ایک کرکے ہم پر وار کرینگے اور ہم ایک دوسرے پر وار پر خوش ہونگے اور جب ھماری نوبت آئیگی تو ہم سے اظہار یکجہتی کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ۔ 

اب سوال یہ ہے کہ ماضی کو لیکر اور بعض ناخوشگوار واقعات اور حادثات کو سامنے رکھ کر مخاصمت اور دشمنی کی فضا کو جاری رکھا جائے یا بدلتے ہوئے حالات جہاں فریقین کو بہت سی غلطیوں اور زیادتیوں کا احساس ہوچکا ہے اور تشدد سے دونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے میں مفاھمت اور خیرسگالی کی ضرورت ہے؟ کیا پشتون یا مہاجر ایک دوسروں کو بزور دبانے اور کراچی  یا اس کی سیاست سے نکال باہرکرنے  میں  ابھی تک کامیاب ہوئے یا کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟ کیا خالصتا سیاسی ، سماجی اور ثقافتی مسائل کا حل تشدد کے ذریعے ممکن ہے یا نہیں ؟ کیا دشمنی اور مخاصمت کی موجودہ فضا دونوں کیلئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں ؟ کیا خوشگوار تعلقات کی فروغ کیلئے عفو درگزر ہونی چائیے یا مخاصمت کی موجودہ پالیسی کو جاری رکھنا چاہئیے ؟

ان سوالات کا جواب  ڈھونڈتے ڈھونڈتےہم اس حقیقت کو پاچکے ہیں کہ  کراچی کی عوام بالعموم اور پشتونوں  اور مہاجروں میں بالخصوص یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ بس مخاصمت بہت ہوچکی اور دشمنی سے فریقین نے ناقابل تلافی مالی اور جانی نقصان اٹھایا ہے اور اب اصلاح احوال کی ضرورت ہے ۔ دوستی اور بھائی چارے کی فضا کے قیام کیلئے کسی نہ کسی کو اناپرستی اور بیجا ضد کو چھوڑنا اور پہل کاری کرنی ہوگی ورنہ مظلوم قومیتوں اور طبقات کے درمیان تعلقات بد سے بدتر ہوتے جائینگے اور خون ریزی کا سلسلہ یوں جاری رہے گا ۔ہم آپس کی لڑائیوں میں مصروف ہونگے اور عوام دشمن اور آمرانہ سوچ کی حامل قوتیں آرام سے مظالم کرتے رینگے اور اپنے غیر جمہوری مذموم مقاصد کو پروان چڑھاتے رہیں گے۔ 

میری حال ہی میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔ ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔اس موقع پر ایم کیو ایم کے کئی سینئر راھنما اور کارکن بھی موجود تھے ۔ الطاف حسین سے  لاکھ سیاسی اختلافات کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ریاستی سیاسی انجینرنگ کی نتیجے میں ایم کیو ایم کی تنظیمی ساخت کو کسی حد تک نقصان پہنچنے کے باوجود وہ  اب بھی مہاجروں کے غیر متنازعہ راھنما ہیں ۔

ہم نے ملاقات میں نقیب اللہ شھید اور بعد میں پشتون تحفظ موومنٹ کی مطالبات اور اس کے حق میں مختلف بیانات اور ایک واضح موقف اختیار کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ یادرہے کہ الطاف حسین وہ واحد غیر پشتون راہنما ہیں جو مسلسل اس موضوع پر بیانات دے رہیں ہیں ۔ اور 16مارچ کو یو این سے خطاب کے دوران بھی خصوصی طور پر نقیب اللہ محسود اورقبائلی عوام کے مسائل پر بات کی ۔

ملاقات میں مظلوم قومیتوں کے درمیان ھم آھنگی اور بھائی چارے کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور اس ضرورت پر زور دیاگیا کہ پاکستان میں عوام دشمن ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے مختلف لسانی اور مذھبی گروہ ظلم وستم کا شکار ہے اور اسٹبلشمنٹ بھی تقسیم کرو اور لڑاو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ ریاستی ظلم و جبر کے خلاف اور ملک میں حقیقی جمہوریت اور امن او امان کے قیام کیلئے قوموں کے درمیان ھم آھنگی اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تمام قومیتیں کسی نہ کسی شکل میں ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ہم آھنگی کے فروغ کیلئے اس تجویز پر اتفاق رائے ہوگیا کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس پر ایک دوسرے سے معافی مانگی جائے اور مشترکہ جہدوجہد یا ہم آھنگی کیلئے ایک سازگار فضا پیدا کی جائے ۔

لندن میں ایک بہت بڑے عوامی اجتماع جو ایم کیو ایم کی چونتیسویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا میں الطاف حسین نے واضح الفاظ میں دیگر اقوام سے معافی مانگی ۔ اس اعلان کے تین نکات قابل ذکر ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ انہوں نے انتہائی نیک نیتی اور وسیع القلبی کا مظاھرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اگر ہم سے کوئی غلطی یا زیادتی ہوئی ہے تو ہم دیگر قومیتوں سے معافی مانگتے ہیں اور انہوں نے یہ بات بغیر کوئی شرط عائد کرتے ہوئی کہی ۔ دوسرا انہوں نے مزید یہ کہا کہ ہم دوسروں کو بھی معاف کرتے ہیں ۔ تیسرا اہم نکتہ اس اعلان کا یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک جتنے بھی لسانی اور مذ ہبی فسادات ہوئے ہیں وہ ایجنسیوں نے کرائے ہیں اور ایجنسیوں نے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا اور کر رہی ہے ۔ 

امید ہے کہ پشتون اور مہاجروں میں خیرسگالی کی یہ ادنی سی کوشش نکتہ آغاز ثابت ہوگی اور آھستہ آھستہ دیگر مظلوم قومیتیں بھی اس افہام و تفہیم کا حصہ بنی گی ۔ ایم کیو ایم کے قائد آلطاف حسین کی اس فراخدلانہ اعلان کے بعد سندھ میں بھائی چارے اور امن کی فضا کے قیام کیلئے پشتون اور  دیگر قومیتوں کو  بھی وسیع القلبی اورفراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ہمیں نہ صرف الطاف حسین کی بیان کو خوش آمدید کہنا ہوگا بلکہ ھمیں بھی اپنی اپنی سطح پر معافی اور درگزر سے کام لینا ہوگا۔ مختلف سیاسی ،سماجی اور ثقافتی تنظیموں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ 

پشتون ایک امن پسند قوم ہے اور خون خرابہ اور مار دھاڑ کو ناپسند کرتی ہے اور ہمیشہ صلح صفائی اور عفو درگزر سے کام لیا ہے ۔ اس موقع پر بھی وہ اپنی روایتی وسیع القلبی کا مظاہر ہ کرے گی ۔ہمیں پرامن اور بہتر مستقبل کیلئے عوام مفاھمت اور خیرسگالی کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا اور ملک اور خصوصا کراچی میں امن و امان کے قیام ، ھم آھنگی اور بھائی چارے کیلئے مثبت اور بھرپور کردار ادا  کرنا ہوگا ۔

یقیناً یہ کام آسان نہیں مختلف قومیتوں میں خاص کر پشتون اور مہاجروں میں اتنی بدگمانیاں اور دوریاں پیدا ہوچکی ہے اور پھر عوام دشمن غیر جمہوری قوتوں کی مفاد اور کوشش بھی یہی ہے کہ سیاسی قوتیں منتشر اور تقسیم ہو تاکہ انھیں اپنا اُلو سیدھا کرنے میں آسانی ہو ۔ وہ اس پہل کاری کو ناکام بنانے کیلئے دونوں طرف موجود اپنے پٹھوؤں اور ایجنٹوں کے ذریعے مختلف حیلوں بہانوں سے اس کی مخالفت کرینگے مگر اسٹبلشمنٹ کی سازش بے نقاب ہوچکی ہے ۔  مہاجر اور پشتون مخاصمت اور دشمنی پر سیاست کرنے والے مفادی ٹولے کو پہچانتی ہیں ۔ 

Comments are closed.