روہنگیا شدت پسندوں نے ہندوؤں کا قتلِ عام کیا: ایمنسٹی

روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی کہانیاں تو زبان زد عام ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ فسادات کا آغاز مسلمان شدت پسندوں کی انتہا پسندانہ کاروائیوں کی وجہ سے ہوا۔ یاد رہے کہ روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے برما میں آباد ہیں لیکن پچھلے کچھ سالوں سے جہادی تنظیموں نے برما کے مسلمانوں تک بھی رسائی حاصل کی اور پرامن طور پر رہنے والی کمیونٹی میں فسادات کا آغاز کر دیا۔

انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیقات کے مطابق روہنگیا مسلمان شدت پسندوں نے گذشتہ سال اگست میں درجنوں ہندو شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے مطابق، ارسامی اس گروہ نے قتل عام کے ان ایک یا دو واقعات میں 99 ہندو شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔ تاہم، ارسا نے ایسا کوئی بھی حملہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔یہ قتل میانمار کی فوج کے خلاف بغاوت کے ابتدائی دنوں میں کیے گئے۔ میانمار کی فوج پر بھی تشدد کا الزام ہے۔

گذشتہ سال اگست سے میانمار میں 7 لاکھ روہنگیا اور دیگر افراد کو تشدد کی وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑی۔اس تنازعے کی وجہ سے، میانمر کی بودھ اور اقلیتی ہندو آبادی کی اکثریت بھی بے گھر ہوگئی ہے۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اس نے بنگلہ دیش اور رخائن میں کئی انٹرویوز کیے، جن سے تصدیق ہوئی کہ ارسا نے یہ قتل کیے تھے۔

شمال مشرقی شہر کے قریب گاؤں میں اس نسل کشی کا آغاز ہوا۔ اسی وقت، اگست 2017 کے اختتام پر پولیس چوکی پر حملہ کیا گیا تھا۔

تحقیقات میں پایا گیا ہے کہ ارسا دوسرے علاقوں میں شہریوں کے خلاف اس پیمانے کے تشدد کے ذمہ دار بھی ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ارسا کے اراکین نے 26 اگست کو ہندو گاؤں پر حملہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، اس ظالمانہ اور بے معنی حملے میں ارسا کے ارکان نے بہت سے ہندو خواتین، مردوں اور بچوں کو پکڑا اور گاؤں کے باہر لے جا کر مارنے سے پہلے ڈرایا۔

اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ہندوؤں نے ایمنٹسی کو بتایا کہ انھوں نے اپنے رشتہ داروں کو مرتے دکھا یا ان کی چیخیں سنیں۔

آہنوک کھامونگ سیک نامی گاؤں کی ایک خاتون نے کہا، انہوں نے مردوں کو مار ڈالا، ہم سے کہا گیا کہ ان کی طرف نہ دیکھیں۔ ان کے پاس خنجر تھے۔ کچھ نیزوں اور لوہے کی راڈز بھی تھے۔ ہم جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے اور وہاں سے کچھ کچھ دیکھ سکتے تھےمیرے چچا، والد، بھائی سب کو قتل کیا گیا تھا۔

یہاں 20 مردوں، 10 عورتوں اور 23 بچوں کو قتل کرنے کے الزامات ہیں، جن میں سے 14 کی عمر 8 سال سے کم تھی۔

ایمنسٹی نے کہا کہ پچھلے سال ستمبر میں اجتماعی قبروں سے 45 افراد کو لاشیں نکالی گئیں۔ تاہم قریبی دیہات ’یےبوک کیار‘ کے 46 افراد کی لاشیں تاحال نہیں ملیں۔

تحقیقات کے مطابق ’یے بوک کیار‘ میں بھی قتل عام اسی روز ہوا جس دن آہنوک کھامونگ سیک پر حملہ ہوا تھا۔ اس طرح اموات کی کل تعداد 99 ہے۔

ایمنسٹی نے میانمر کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے چلائے جانے والی مہم پر بھی تنقید کی ہے جو نامناسب اور غیر قانونی ہے۔انسانی حقوق تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، ’میانمار کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے روہنگیا آبادی کی نسل کشی کے بعد ہی ارسا کی جانب سے یہ حملے کیے گئے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ چرپورٹ بنگلہ دیش کی سرحد پر درجنوں افراد سے انٹرویوز اور تصاویر کی فورنزک جان کے بعد تیار کی گئی ہے۔

ایمنیسٹی کی اہلکار ترانا حسن کا کہنا ہے کہ ’یہ انکوائری شمالی ریاست رخائن میں ارسا کی جانب سے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالتی ہے، جسے خبروں میں زیادہ اجاگر نہیں کیا گیا۔

گذشتہ برس اگست سے 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش آئے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

روہنگیا مسلمان میانمار کی اقلیتی آبادی ہیں جنہیں وہاں بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ کئی نسلوں سے میانمار میں مقیم ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش بھی انہیں شہریت نہیں دیتا۔

BBC/NEWS DESK

Comments are closed.