نئے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نئی قانون سازی

طارق احمدمرزا

جیسا کہ پہلے ایک کالم میں راقم نے بیان کیا تھا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ ایک معمول بن چکاہے کہ پاکستان میں بننے والی ہر نئی حکومت خود کوقادیانی مخالف ثابت کرنے کے لئے پاکستان میں موجوداحمدیوں کے خلاف بنے ہوئے پہلے سے قوانین،آئینی ترامیم،آرڈیننس وغیرہ کے اوپر مزیدکئی قسم کے نت نئے قوانین کااضافہ کرنا لازمی فریضہ سمجھتی ہے۔

چنانچہ ایک بارپھربعینہٖ ایسا ہی ہواہے اور موجودہ حکومت نے بھی اپنے سودن پورے ہونے سے پہلے پہلے عاطف میاں کی تقرری کے پھڈے سے اپنی جان مکمل طورپر چھڑوانے اور خود پر لگے قادیانی نواز ہونے کا لیبل اچھی طرح سے دھونے کے لئے مؤرخہ ۱۹؍ستمبر کوایک تازہ ترین ترمیمی بل سینیٹ میں بغرض منظوری پیش کردیا جس کی ایک آدھ نہیں ،پوری پانچ عدد شقیں صرف احمدیوں کے حوالہ سے ہیں ۔

یہ ترمیمی بل نئے پاکستان کے نئے وزیربرائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیو نی کیشن جناب خالدمقبول صاحب کا تیارکردہ ہے جسے ان کی عدم موجودگی میں سٹیٹ منسٹرفارریونیوجناب حماداظہر نے سینٹ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔جس کے بعداسے پریزائڈنگ آفیسر محترمہ ستارہ ایاز نے متعلقہ قائمہ کمیٹی سینیٹ کے سپردکردیا۔
https://www.pakistantoday.com.pk/2018/09/19/prevention-of-electronic-crimes-bill-2018-presented

الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام سے متعلق اس ترمیمی بل میں احمدیوں کاخصوصی ذکر کرکے بتایاگیا ہے کہ احمدی اب یہ بھی نہیں کرسکیں گے ا ور وہ بھی نہیں وغیرہ ،اور اگر ایساایساکریں گے توفی جرم تین سال کے لئے جیل میں ڈال دیئے جائیں گے وغیرہ۔اس پرمزید یہ کہ اگرکوئی احمدی ان چارپانچ’’الیکٹرانک جرائم‘‘ کامرتکب ہوکر کسی مسلمان کے جذبات کو مجروح کرتاہے تو اسے مزید تین سال کے لئے جیل کی سزادی جائے گی۔

بل میں مؤخرالذکرشق کی مزید وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر کسی احمدی کے ان جرائم کے ارتکاب سے کسی ایک نہیں بلکہ بیک وقت ایک ملین مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو وہ ایک ملین سال کی قید کا سزاوارگردانا جائے گا یا پھر بھی صرف تین سال کی ہی سزاکاٹے گا۔

قبل ازیں محترمہ شیریں مزاری صاحبہ نے عا لمی برادری کو یہ واضح یقین دہانی کروائی تھی کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہورہی۔

مذکورہ بل کاا جرا نہ تو کوئی اچنبھے کی بات ہے اور نہ اس پر کسی قسم کے احتجاج کی ضرورت یاگنجائش ہے۔بقول استاد امام دین ’’گوزگوز،وٹ گوز،یؤرفادرگوز؟‘‘۔

میں کوئی قانون دان تو نہیں تاہم انسانی مساوات کے ا یک ادنیٰ وکیل کی حیثیت سے مجوزہ ترمیمی بل کومیں نے باربار اس نیت سے پڑھا کہ کیا اس میں یہ بھی ذکر کیا گیاہے کہ احمدی کے بالمقابل اگر کوئی مسلمان کسی احمدی کے مذہبی جذبات کو اس اس طرح سے مجروح کرتاپایاگیا تو اس کی سزاکیا ہوگی؟۔تو اس ضمن میں انتہائی مایوسی ہوئی۔

’’تحریک انصاف‘‘کاتو یہ تقاضا تھا کہ آپ احمدیوں سے بھی پوچھ لیتے کہ بتائیں آپ کے نزدیک آپ کے مذہبی جذبات کوئی دوسراشخص کس کس طرح سے مجروح کرسکتاہے اور پھراس قسم کی چارپانچ شقیں خصوصی طورپرمسلمانوں کے لئے بھی شامل کرلیتے تودنیا بھی مان لیتی کہ ہاں یہاں دونوں طرف سے انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔ کیونکہ جب یہ متفقہ پاکستانی پارلیمانی فیصلہ ہوچکا ہے کہ احمدیہ جماعت مسلمان نہیں اور مسلمانوں سے جدا ایک الگ امت ہے تو پھر اس غیرمسلم امت یا مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے بھی تو کوئی نہ کوئی تو مذہبی جذبات تو ہونگے۔لیکن ایسی کوئی بات موجود ہی نہیں۔شاید اس لیئے کہ یاتو غیرمسلموں کے کوئی مذہبی یاغیرمذہبی جذبات ہوتے ہی نہیں اور یاپھر ان کے ہر قسم کے جذبات کی ہر قسم کی پامالی عین کارثواب سمجھاجاتا ہے۔

امرِواقعہ تویہ ہے کہ بدقسمتی سے وطن عزیز میں مذہبی جذبات اور ان کے مجروح ہونے سے عملاً پاکستانی مسلمانوں کے جذبات اور ان کا مجروح ہونا ہی مرادلیا جاتاہے۔ پاکستانی احمدی، مسیحی، بدھ، بہائی، پارسی، ہندو، سکھ وغیرہ کے مذہبی جذبات توہمیشہ ہمیش کے لئے ایسے ماردیئے گئے ہیں کہ ان کامجروح ہونا اب بعید ازممکنات ہو چکا ہے۔

چنانچہ عوام کالانعام تو کیا،ذمہ دار عمال حکومت بھی بڑی آسانی سے ڈکارلئے بغیرغیراز اسلام مذاہب سے متعلق ایسی زبان استعمال کرجاتے ہیں ،جو اس مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے جذبات مجروح کرنے والی ہوتی ہے لیکن نہ خود انہیں اس کا احساس ہوتا ہے اور نہ کوئی اور اس کا نوٹس لیتایا نوٹس لینے کی جراًت کرتا ہے۔جبکہ وہی جملہ یا الفاظ کوئی غیرمسلم اداکرلے توپھرپین دی سری کردی جاتی ہے۔

مثال کے طورپر حال ہی میں وفاقی وزیراطلاعات محترم فوادچوہدری صاحب نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کے بارہ میں حکومت کے ایک مجوزہ منصوبہ کے دفاع میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
۔’’یہ تو نہیں ہے کہ ہم مندربنادیں اور یہ جاکراسے پوجناشروع کردیں‘‘۔
(https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45625175)

میں نے جب یہ بیان پڑھاتو فوری طورپرذہن میں یہ سوال اٹھا کہ اگرہالینڈ یا فرانس یا کسی اور مغربی ملک کا وزیراطلاعات اپنے ملک میں یہ بیان دیتا کہ:
۔ ’’ یہ تو نہیں کہ ہم مسجد بنادیں اور یہ جاکر اس میں اذانیں دینا شروع کردیں‘‘۔

تو پھر ہماراکیا ردعمل ہوتا؟۔پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلایا جاتا،مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے پر اس ملعون اور گستاخ وزیراطلاعات کی بھرپورمذمت کی جاتی،ہمارے وزیرخارجہ صاحب اس گستاخانہ معاملہ کو مؤتمر رابطہ اسلامی بلکہ یو این اومیں لے جانے کااعلان فرماتے۔دھرنے ہوتے،جلوس نکلتے اورمندروں ،گرجاگھروں کومسمارکرکے ان کے ملبہ کو نذرآتش کردیا جاتا،ملک بھر میں پین کی ایک نہیں دو دوسریاں کردی جاتیں۔

خود محترم فواد چوہدری صاحب بھی تویہ کہہ سکتے تھے کہ ’’کیا ہم مسجدبنادیں اور یہ وہاں نمازیں پڑھناشروع کردیں‘‘ ،لیکن نہیں کہا۔کیوں نہیں کہا؟۔اس لئے کہ شعوری یا لاشعوری طورپر جانتے تھے کہ مسجد اور اذان یانمازکا استعارہ استعمال کیا توپاکستانی مسلمانوں کے جذبات فٹ سے مجروح ہوجائیں گے اور پھرنہ صرف ان کی بلکہ پوری حکومت کی خیرنہیں ہوگی۔اسی لئے مندر اور اس کی پوجا کہا ۔ہندونے کیا کرلینا ہے وہ الٹا خوش ہوجائے گا کہ ایک وفاقی وزیر نے مندراورپوجا کاذکرکیاہے۔ 

قارئین کرام یہ واقعتاً ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ شعوری اور لاشعوری طورپر ہرپاکستانی یہ سمجھ چکا ہے(یا سے یہ ذہن نشین کروادیا گیا ہے ) کہ پاکستانی اقلیتوں کے اول تو کوئی جذبات نہیں جو مجروح ہوں،نہ ہی ان کے مذاہب کا کوئی تقدس ہے نہ توقیر۔اور دوسرے یہ کہ اگر انہوں نے اپنے مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کا ہلکا سابھی اظہارکردیاتو پھر انکی وہ شامت کردی جائے گی کہ آئندہ بھول کربھی وہ اس قسم کی جرأت نہ کرسکیں گے۔اسے کہتے ہیں زبردست مارے اور رونے بھی نہ دے۔

نوے کی دہائی کی بات ہے، پاکستانی مسلمانوں نے اپنی اس ذہنیت اور نفسیات کا بھرپورمظاہرہ چنددنوں کے اندراندرتیس سے زائدمندروں اور گرجاگھروں کو نذرآتش کرکے کیا تھا۔وجہ صرف یہ تھی کہ بھارت میں چند انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو مسمارکرنے کی مضموم کوشش کی تھی جس سے ان کے جذبات بری طرح مجروح ہو گئے تھے۔مسلمانوں کی ایک عبادت گاہ کے بدلے غیرمسلموں کی تیس سے زائد عبادت گاہیں مسمار یا نذرآتش کرنے والوں کوہندوانتہا پسندوں کی طرح صرف اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے کاصدمہ تھا۔

پتہ نہیں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی اکثریت جو سلوک اپنے لئے ناپسندکرتی ہے،اقلیتوں سے وہی سلوک روارکھنا کیوں پسند کرلیتی ہے۔

آج اگرہمارے نئے پاکستان کے نئے وزیراطلاعات صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ ’’یہ تو نہیں ہے کہ ہم مندربنادیں اور یہ جاکراسے پوجناشروع کردیں‘‘۔تو جان کی امان پاکر ان سے یہ مؤدبانہ استفسارکیا جاسکتا ہے کہ کیامندر بناناایسی ہی فضول خرچی ہے جیسے بقول آپ کے پچاس ارب کی بلڈنگ میں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنا اورخاکم بدہن پوجا کرنا ایسا ہی ایک بے معنی فعل ہے جیسا کہ جناب کے اس جملہ سے مترشح ہوتاہے؟۔

لیکن انہوں نے کیا بتانا۔ان کو تو یہ علم بھی نہیں کہ مندر وں کی پوجا نہیں کی جاتی۔ایسی باتیں عموماًوہی کرتے ہیں جن کا مذاہب عالم سے متعلق مبلغ علم بالی وڈکے فلمی گانوں تک محدود ہوتا ہے۔
مذکورہ ترمیمی بل کے بارہ میں کینیڈا کے راول ٹی وی کے میزبان جناب معین صدیقی نے ۲۵ستمبر۲۰۱۸ کے پروگرام ’’جائزہ‘‘ میں بتایا کہ انہوں نے جب محترم فوادچوہدری صاحب سے رابطہ کرکے پوچھا کہ نئی ترمیم کے ذریعہ پہلے سے موجودالیکٹرانک کرائمز بل میں احمدیوں سے متعلق شقوں کا اضافہ جوآپ نے کیاہے اس کی کیا ضرورت تھی۔تو انہوں نے کہا کہ ہاں ضرورت تو نہیں تھی۔پوچھا گیا تو پھرکیوں شامل کیں؟۔توکہاکہ شامل کرناپڑیں ‘‘۔

وہی بات کہ
کہا : سیر کو جائیں؟۔کہا : جائیں۔
کہا :کتا ہوگا۔کہا :کتا تو ہوگا!۔
کہا : نیا قانون بنایا ہے۔
کہا : اینٹی قادیانی ہوگا۔
کہا : اینٹی قادیانی تو ہوگا!۔

♣ 

Comments are closed.