بھارت: سبریملا مندر کے دروازے تمام عورتوں کے لیے کھولنے کا حکم

بھارت میں سپریم کورٹ نے ایک اورتاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ہندوؤں کے نزدیک مقدس سمجھے جانے والے کیرل کے سبریملا مندر کے دروازے ہر عمر کی خواتین کے لیے کھول دیے۔ اس فیصلے کو انتہائی دور رس اہمیت کا حامل قراردیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارت میں ان ایک درجن سے زائد دیگر اہم مندروں میں بھی خواتین کے داخلہ کے امکانات روشن ہوگئے، جہاں مختلف اسباب کی بنا پر انہیں پوجا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سبریملا مندر معاملے پر عدالت کے فیصلے کا جہاں ہندوؤں کے بڑے حلقے میں خیر مقدم کیا جارہا ہے وہیں ایک حلقے نے اس پر ناراضگی ظاہر کی ہے اور مندر انتظامیہ نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی عرضی داخل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

بارہویں صدی میں تعمیرجنوبی صوبہ کیرالا کے دارالحکومت ترواننت پورم سے 175 کلومیٹر دور واقع سبریملا مندر میں دس سے پچاس برس کی عمر(حیض آنے کی عمر) کی عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ صرف چھوٹی بچیاں یا بزرگ خواتین ہی اس مندر میں جاسکتی ہیں۔ ہندووں کا عقیدہ ہے کہ اس مندر میں جس دیوتا ایپا کی پوجا کی جاتی ہے، وہ برہم چاری (مجرد) تھے اور چونکہ حیض کے دوران عورت ناپاک ہوجاتی ہے اس لیے اگر حائضہ عورت مندر میں چلی گئی تو بھگوان ناراض ہوجائیں گے اوربہت کچھ نقصان ہوسکتا ہے۔ مندر انتظامیہ کی دلیل تھی کہ مندر میں جانے سے قبل اکتالیس دنوں کے برہم چریہ‘ پر عمل کرنا پڑتا ہے اور عورتیں اس پر عمل نہیں کرسکتیں۔

مندر انتظامیہ بہر حال عدالت کے اس سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں دے سکی کہ اگر لڑکی کو نو سال کی عمر میں حیض شروع ہو جائے یا پچاس سال کے بعد بھی آئے تو آپ کیا کریں گے؟

اس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بنچ نے چار ایک کی اکثریت سے اپنے فیصلے میں کہا کہ فزیولوجی کی بنیاد پر دس سے پچاس سال کی عمر کی خواتین کے سبریملا مندر میں داخلے پر پابندی آئین میں دیے گئے ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا ’’ہماری تہذیب میں خواتین کو قابل احترام مقام حاصل ہے۔ سماج میں مردوں کے غلبہ کا جو قانون ہے اس میں ترمیم کی جانا چاہیے کیوں کہ دوہرا نظریہ اپنانے سے خواتین کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔‘‘ تمام عمر کی خواتین کو سبریملا مندر میں داخلہ کی اجازت دیتے ہوئے انہوں نے کہا، مندر میں داخلہ سے متعلق جو قانون بنائے گئے ہیں وہ طبعی اور جسمانی عمل پر مبنی ہیں لیکن یہ آئین کے کسوٹی پر کھرے نہیں اتر سکتے‘‘۔

تاہم بنچ میں شامل واحد خاتون جسٹس اندو ملہوترا نے اپنے اختلافی فیصلہ میں کہا کہ مذہبی رسومات کا آئین میں برابری کے حق کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ملہوترا کے مطابق، پوجا کا طریقہ عقیدت مند پر منحصر ہے کہ وہ کیسے پوجا کرتا ہے۔ عدالت یہ نہیں بتاسکتی کہ کس طرح سے پوجا کی جانی چاہیے۔ عقیدت سے وابستہ معاملے کو سماج کو ہی طے کرنا چاہیے نہ کہ عدالت کو۔‘‘ جسٹس ملہوترا کا مزید کہنا تھا کہ مذہبی روایات بھی بنیادی حقوق کا ہی حصہ ہیں۔

خواتین اور بہبود اطفال کی وفاقی وزیر مینکا گاندھی نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، ’’کوئی بھی مندر صرف ایک ذات یا طبقہ یا جنس کے لیے نہیں ہوسکتا۔ اگر مرد وہاں جاسکتا ہے تو عورتیں بھی جاسکتی ہیں اور ہندو دھرم میں تو عورت یوں بھی شکتی (طاقت) کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔ تو اگر شکتی مندر نہیں جاسکتی تو کون جاسکتا ہے؟ اگر دیوی نہیں جا سکتی تو کون جاسکتا ہے؟‘‘

قومی خواتین کمیشن نے اس فیصلے کو دوراندیشانہ قرار دیا۔ کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے حالیہ دنوں میں عدالت عظمی کی طرف سے خواتین کے حق میں ہوئے مختلف فیصلوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’جو خواتین مندر جانا چاہتی ہیں یہ ان کی جیت ہے۔ خواتین برابری کے لیے لڑ رہی تھیں اور مجھے لگتا ہے کہ سب کو مندر میں جانے کا حق ملنا چاہیے۔ مندر، مسجد، گردوارے سبھی جگہ پر جانے کا حق ملنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’جو خواتین مذہبی وجہ سے وہاں نہیں جانا چاہتی ہیں وہ نہ جائیں۔ یہ ان کی اپنی پسند ہے۔ پہلے ان پر ایک قانون تھوپا گیا تھا لیکن اب مندر میں جانا یا نہیں جانا ان کی اپنی پسند پر منحصر ہو گا۔‘‘

کانگریس کی سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خواتین رینوکا چودھری کا کہنا تھا، یہ ہمارا حق ہے۔ آخر کس نے چند مردوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ عورتوں کے مندر جانے یا نہیں جانے کا فیصلہ کریں۔ سیاسی اور سماجی طورپر توعورتوں کو دبایا ہی جاتا ہے اور عورتوں کو اس کی عادت بھی پڑ گئی ہے لیکن عبادت کے معاملے میں بھی ہم اپنے پسند کے بھگوان کے پاس نہیں جاسکتے؟ دنیا اب بدل چکی ہے۔ یہ ہمارا حق ہے کوئی بھیک نہیں‘‘۔

اس دوران مندر انتظامیہ نے کہا کہ یہ فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے آیا ہے اس لیے اسے تسلیم تو کرنا ہی پڑے گا، لیکن وہ اس فیصلے سے کافی مایوس ہے اور صلاح و مشورے کے بعد اس پر نظر ثانی کی عرضی دائر کرے گی۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ بھارت میں درجنوں ایسے مندر ہیں جہاں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے جب کہ بیشتر مندروں میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی داخلے سے روکا جاتا ہے۔

DW

Comments are closed.