عہدہ گورنرجنرل آف پاکستان اورتنخواہ ایک روپیہ ماہانہ 

طارق احمدمرزا

کہا جاتا ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح پہ کسی نے اعتراض کیا کہ گاندھی جی توٹرین کی تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں جبکہ آپ ہمیشہ فرسٹ کلاس میں ،تو انہوں نے فی الفورجواب دیا کہ گاندھی جی کانگریس کے پیسوں سے سفر کرتے ہیں اور میں اپنی جیب سے ۔

قیام پاکستان کے بعد قائداعظم ،جو اب بانی پاکستان بن گئے تھے اور بابائے قوم کہلاتے تھے ، ملک کے پہلے گورنرجنرل مقررہوئے توبھی آپ نے سرکاری خزانے پہ باربننے کی بجائے اپنے اخراجات اپنی جیب سے ہی اداکرنے کی ٹھانی اور حکومت سے محض ایک روپیہ ماہانہ کی علامتی تنخواہ مقررکروائی۔ اس ایک روپیہ کا تکلف بھی آپ نے اس لئے گوارافرمایاکہ یہ ایک قانونی تقاضاتھاکہبغیرتنخواہ کسی سرکاری ملازم سے کوئی کام نہیں لیاجاسکتا۔

دراصل نوزائیدہ مملکت پاکستان کو روزاول سے ہی مالی مشکلات کا سامناکرناپڑگیا تھا۔منقسم ہندوستان کے منقسم خزانے کاجو حصہ پاکستان کاحق بنتاتھااس کی ادائیگی میں بھارت نے لیت ولعل دکھانی شروع کی ہوئی تھی۔ مقصد یہ تھاکہ اس قسم کے حیلے بہانوں سے پاکستان کو مالی لحاظ سے اتنا کمزوررکھاجائے کہ چند مہینوں کے اندر ہی اس کے لئے اپناوجودبرقراررکھناناممکن ہو جائے۔وہ تو نظام حیدآباددکن نے راتوں رات خفیہ طورپر کچھ سونا اور رقومات پاکستان منتقل کردی تھیں جس سے حکومت کی مالی ساکھ تھوڑی سی بحال ہوئی ورنہ حالات بہت نازک تھے۔امریکہ نے پاکستان کی مالی امدادکرنے کافیصلہ تو کیا ہوا تھا لیکن وہ اس ضمن میں کوئی قدم اٹھانے سے قبل مزیدکچھ انتظارکرنازیادہ مناسب سمجھتاتھا۔پاکستان کو پہلی امریکی امداد سنہ 1948 میں ملی تھی جوایک ملین ڈالرسے بھی کہیں کم تھی۔

بہرحال ان حالات میں ایک طرف قائداعظم نے قوم کوسادگی اور کفایت شعاری کی تلقین کی تو دوسری طرف بے لوث خدمت اور قربانی کی ذاتی مثال قائم کرکے دکھادی۔افسوس کہ قائد کے اس عملی نمونہ کو اپنانے والے اس ملک کو پھرآج تک نصیب نہ ہو سکے۔ آج کے پاکستانی قانون سازوں کوہی دیکھ لیں جنہوں نے قانون سازی کرکے ایک محنت کش کی اجرت کا معیار چودہ ہزارروپے ماہوارمقررکررکھاہے لیکن خود اپنے لئے دوسال قبل متفقہ طورپرتقریباًاڑھائی سوفیصدکے اضافہ سے اپنی تنخواہ اکسٹھ ہزار روپے سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ کردی تھی۔
ملک کے غریب ترین صوبہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہ فی ممبر اس سے بھی زیادہ یعنی تین لاکھ روپے ماہانہ ہے۔
https://www.firstpost.com/world/pakistan-approves-almost-250-salary-boost-for-mps

اس پر مستزاد مزیدکئی اقسام کی مراعات اور استحقاق بھی انہیں حاصل ہیں۔ اس کے باوجود اسمبلیوں میں ان کی حاضری شرمناک حد تک کم، قانون سازی تقریباً صفر اوردیگر کارکردگی منفی ہے۔جبکہ یوم آزادی کی تقاریر میں دعوے کرتے ہیں کہ وہ قائداعظم بانی پاکستان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم رکھتے ہیں !۔

گزشتہ پارلیمنٹ نے جاتے جاتے متفقہ طورپرصدرپاکستان کے اعزازیہ (تنخواہ)میں بھی دوگنا اضافہ کی منظوری دی تھی جس کے بعد ان کی تنخواہ بڑھ کر تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ماہانہ ہوگئی۔
https://tribune.com.pk/story/1721342/1

نومنتخب صدرپاکستان محترم عارف علوی صاحب کو یہ اعزاز اور اعزازیہ مبارک ہو۔

پاکستان سے باہر کی دنیا پہ نظردوڑائیں توامریکی ریاست کیلفورنیا کے سابق گورنرآرنلڈ شوارزینگر،جو ہالی وڈ کے مشہورفلم ایکٹرہیں، کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے بطورگورنرصرف ایک ڈالرسالانہ کی علامتی تنخواہ پہ کام کیا۔اسی طرح سابق امریکی صدارتی امیدوار مِٹ رومنی نے بھی ریاست میساچیوسٹس کے گورنرکے طورپر سالانہ ایک ڈالرتنخواہ پہ کام کیا۔

موجودہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ بھی بطور صدر صرف ایک ڈالر سالانہ کی تنخواہ وصول کیا کریں گے لیکن شنید ہے کہ کسی قانونی رکاوٹ کی وجہ سے وہ اپنی پوری تنخواہ کا چیک وصول کرتے ہیں لیکن ساری رقم خیراتی ادارے کوعطیہ کردیتے ہیں۔
آسٹریلیا میں ایک پندرہ سالہ طالبعلم کو اس وقت سارے ملک میں شہرت ملی جب اس نے ایک پیٹیشن دائرکرکے آسٹریلین وزیراعظم مالکم ٹرن بُل سے مطالبہ کیا کہ چونکہ وہ خاصے صاحبِ حیثیت ہیں اس لئے صرف ایک ڈالر سالانہ کی تنخواہ لیا کریں۔ان کی بھاری بھرکم تنخواہ ملک میں انفراسٹرکچرقائم کرنے کی مدمیں کام آسکتی ہے۔افسوس کہ اس سے قبل کہ مالکم ٹرن بل اس لڑکے کی درخواست کو قبول کرکے سب کی آنکھ کا تارا بنتے،انہیں اپنی ہی پارٹی کے مجبورکرنے پر مستعفی ہونا پڑگیا۔

جنگ عظیم، اول ودوم کے زمانوں میں امریکی حکومتوں نے مختلف محکمہ جات چلانے کے لئے ایسے ماہرین اور افسران کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جنہوں نے ان بحرانی ادوار میں صرف ایک ڈالر سالانہ کی علامتی تنخواہوں پر انتہائی محنت اور دیانت داری سے رضاکارانہ طورپر کام کیا اور سرکاری محکمے چلائے۔ان کی تعداد لگ بھگ دوہزارکے قریب بتائی جاتی ہے۔ ان ایام میں امریکی خزانے میں اتنے فنڈز نہ تھے کہ حکومت سرکاری محکموں کے سربراہان اور دیگر افسران کی تنخواہیں پوری کر نے کی متحمل ہو سکتی ۔

آج پاکستان جس شدید قسم کے مالی بحران کا شکار ہے اس نے ملک کو جنگ عظیم اول ودوم سے بھی بدترصورتحال سے دوچارکررکھاہے۔ان حالات میں جس طرح سے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ان گنت غیرضروری کارپوریشنوں اور کمپنیوں کے قیام اور ان میں تعینات چیف ایگزیکٹوافسران کی آسمان سے چھوتی تنخواہوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے خلاف ایکشن شروع کیا ہے اور اسی طرح نو منتخب وزیراعظم عمران خان صاحب نے حکومتی مشینری کوسادگی،بچت اور کفایت شعاری کی تلقین کرنے کے علاوہ ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کااعلان کیا ہے وہی اس وقت کا اہم ترین تقاضاہے۔

Comments are closed.