کیا سعودی عرب میں برطانیہ کی مداخلت ناگزیر ہے ؟

آصف جیلانی

استبول میں سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد سعودی شاہی خاندان جس بری طرح سے برغے میں گرفتار ہے ، اس پر لندن اور واشنگٹن میں سخت تشویش ظاہر کی جارہی ہے اور پالیسی سازوں کی اس وقت اولین فوقیت ، سعودی شاہی خاندان کو شدید بین الاقوامی دباو سے نجات دلانے کی تدابیر پر ہے جو برطانیہ اور امریکا کا قریبی فوجی اور اقتصادی اتحادی ہے اور جس پر مشرق وسطی میں مغرب کی حکمت عملی کا تمام تر دارومدار ہے ۔

ان مغربی پالیسی سازوں کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ، سعودی فرماں روا کے فرزند شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد کے عہدہ پر برقرار رہتے ہوئے سعودی شاہی خاندان کو بین الاقوامی دباو سے بچایا جا سکتا ہے؟ 

سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں پچھلے تین ہفتوں تک مسلسل متضاد اور تردیدی بیانات کے بعد آخر کار ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی خاموشی توڑی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ خاشقجی کو بہیمانہ طور پر قتل کیاگیا ہے جو بے حد افسوس ناک ہے۔ اس اعتراف کے بعد ولی عہد کی امیج بہتر بنانے کے لئے غیر مہذب انداز سے مرحوم خاشقجی کے فرزند صلاح بن خاشقجی سے تعزیت کے لئے انہیں شاہی دربار میں طلب کیا گیا۔

تعزیت کی روایت تویہ ہے کہ پسماندگان کے گھر جا کر ان سے تعزیت کی جاتی ہے ۔لیکن یہ عجیب تعزیت تھی کہ خاشقجی کے فرزند کو بادشاہ اور ولی عہد کے سامنے یوں طلب کیا گیا کہ جیسے وہ مجرم ہیں ۔ اس موقع پر جو تصویر کھینچی گئی وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔جس میں صلاح خاشقجی ولی عہد سے فاصلہ سے مصافحہ کر رہے ہیں اور ساکت ولی عہد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں ۔ کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کچھ کہہ نہیں سکتے۔ 

لندن میں انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس امر کے پیش نظر ولی عہد محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام سے بچانا مشکل ہے کہ سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے لئے پندرہ سعودی افسروں کا جو دستہ ایک روز کے لئے استنبول گیا تھا اس میں سات اہم افسروں کا براہ راست تعلق ولی عہد کے ساتھ رہا ہے ، جو ان کے قریبی اور وفا دار معتمد کہلائے جاتے ہیں۔ ان افسروں میں سیف سعد القحتانی بھی شامل تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کھلم کھلا کہتا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتا ۔وہ صرف ولی عہد کے حکم کی تعمیل کرتا ہے ۔

القحتانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خاشقجی کےپندرہ قاتلوں کے دستہ کا سربراہ تھا اور اسکایپ پر اسی کے حکم سے خاشقجی کو قتل کیا گیا ۔ اسکایپ پر اس نے حکم دیا تھا کہ خاشقجی کی لاش کے ٹکرے ٹکرے کر کے اس’’کتے‘‘ کا سر میرے سامنے پیش کیا جائے۔ 

ترکی کے صدر اردعان نے سعودی عرب سے سوال کیا ہے کہ خاشقجی کی لاش کہاں ہے؟ انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب یہ بھی بتائے کہ کس کے حکم پر پندرہ سعودی اہل کار استنبول آئے تھے ۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان اٹھارہ سعودی افسروں کو ترکی کے حوالہ کیا جائے جنہیں خاشقجی کے قتل کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے، 

اقوام متحدہ کی خاص نمایندہ اگنس کالامرد نے نہایت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سعودی صحافی خاشقجی ، سعودی مملکت کے ماروائے عدالت قتل کا نشانہ بنے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو افراد اس قتل کے ذمہ دار ہیں وہ سعودی مملکت کے اعلی عہدےدار ہیں۔ انہوں نے کسی کا نام نہیں یا اور نہ ولی عہد محمد بن سلمان کا نام لیاہے۔

برطانوی انٹیلی جنس ذرایع کا کهنا ہے کہ پچھلے تین ہفتوں سے سعودی شاہی خاندان کے افراد ، ولی عہد محمد بن سلمان کو ان کے عہدہ سے برخاست کرنے کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔ اس دوران لندن کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ سعودی فرماں روا شاہ سلمان کو چاہیے کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جگہ ان کے بھائیوں میں سے کسی ایک کو نیا ولی عہد مقرر کر دیں۔ اس سلسلہ میں شہزادہ خالد بن سلمان کا نام تجویز کیا جارہا ہے جو امریکا میں سعودی سفیر تھے اور گذشتہ منگل کو ریاض واپس چلے گئے اور ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے عہدہ پر واپس نہیں جائیں گے۔ 
واشنگٹن میں تعیناتی سے پہلے خالد بن سلمان سعودی وزارت دفاع میں مشیر تھے۔ خالد بن سلمان اس سے پہلے سعودی فضایہ میں ایف ۱۵ کے ہواباز تھے اور شام میں داعش کے خلاف اور یمن میں ہوثی باغیوںپر بمباری میں حصہ لے چکے ہیں،لیکن کمر میں چوٹ کی وجہ سے فضایہ سے سبک دوش ہو گئے تھے ۔ 

لندن کے سیاسی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا برطانیہ امریکا کی آشیر باد کے ساتھ سعودی شاہی محل میں ولی عہد محمد بن سلمان کا تختہ الٹ سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں1964 میں شاہ سعود کا تختہ الٹنے میں برطانیہ کے اہم رول کا ذکر کیا جارہا ہے ۔ شاہ سعود1953 سے سعودی فرماں روا تھےاور شہزادہ فیصل ان کے ولی عہد تھے اور عملی طور پر حکومت چلا رہے تھے۔ برطانوی وزارت خارجہ کی دستاویزات کے مطابق دسمبر1963 میں شاہ سعود نے اپنا اختیار جتانے کے لئے ریاض میں شہزادہ فیصل کے محل کے سامنے اپنی فوج تعینات کر دیں اور توپیں نصب کرادی تھیں۔اسی کے ساتھ شاہ سعود نے شہزادہ فیصل سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دو وزیر وں کو برطرف کر کے ان کی جگہ شاہ سعود کے دو بیٹوں کو وزیر مقرر کریں۔

اس موقع پر شاہ سعود کی فوجوں کے مقابلہ میں شہزادہ فیصل کی حمایت ، ۲۰ہزار نفوس پر مشتمل نیشنل گارڈس کی فوج کر رہی تھی ۔ اس وقت سعودی عرب میں برطانیہ کا فوجی مشن نیشنل گارڈس کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ برطانیہ کے فوجی مشن کے دو فوجی مشیروں ، بریگیڈیر کینتھ ٹمیرل اور کرنل نائیجل برمیج نے شہزادی فیصل کے تحفظ کے لئے نیشنل گارڈس کے سربراہ شہزادہ عبداللہ کو جو بعد میں فرما روا بنے ، مشورہ دیا تھا کہ کن اہم مقامات پر نیشنل گارڈز تعینات کئے جائیں اور ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کر لیا جائے۔ در حقیقت شاہ سعود کے خلاف شہزادہ فیصل کے نیشنل گارڈز کی کمان ان دوبرطانوی فوجی افسروں کے ہاتھ میں تھی۔ 

آخر کار شاہ سعود کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا اور ولی عہد شہزادہ فیصل ، سعودی عرب کے فرمانروا بنے۔ اُس زمانہ میں جدہ میں برطانوی سفارت خانہ کے ناظم الامور ، فرینک برینچلے نے لکھا تھا کہ شاہ سعود کی نااہلیت اور پڑوس میں یمن میں قوم پرست انقلاب اور وہاں مصری فوج کی آمد کی وجہ سے سعودی شاہی خاندان کاتختہ الٹے جانے کا شدید خطرہ تھا اور برطانیہ کو اپنے مفاد میں شاہی خاندان کو بچانا اشد ضروری تھا۔ 

برطانیہ کے پالیسی سازوں کے نزدیک اس وقت بھی شاہی خاندان کےلئے صورت حال بے حد تشویش ناک ہے اور شاہی خاندان کی بقا کے لئے اور مشرق وسطی میں مغربی مفادات کےتحفط کے لئے برطانیہ کو امریکا کے اشتراک سے مداخلت لازمی ہوگی ۔

Comments are closed.