اپنا کاروبار، معاشی خود کفالت اور ترقّی کا زینہ

آصف جاوید

اکثر نوجوان ہم سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر اپنا کاروبار شروع کرنا ہو تو کون سا کاروبار کیاجائے؟زیادہ تر  نوجوانوں  کو ایسے کاروبار کی تلاش ہوتی ہے، جس میں محنت کم کرنی پڑے،  سرمایہ کم لگانا پڑے ،نقصان کا کوئی اندیشہ نہ ہو اور منافع بہت زیادہ ہو۔  ۔

ایسے نوجوانوں کو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی کاروبار نہیں ہے، جِس میں محنت نہ کرنی پڑے، سرمایہ نہ لگا پڑے، اور صرف منافع ہی منافع ہو، نقصان کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔  کانٹے سے مچھلی پکڑنے کے لئے بھی  کانٹے پر کینچوا  ، اپنے پاس سے لگا ناپڑتا ہے۔ آپ دنیا میں ہر اُس چیز کا کاروبار کرسکتے ہیں،  جِس چیز کی دوسروں کو ضرورت ہو۔ ڈیمانڈ اور سپلائی ، کاروبارکا بنیادی اور آفاقی  اصول  ہے ۔ جس چیز کی ڈیمانڈ ہو، آسے آپ سپلائی کریں اور منافع کمائیں۔

آگ ، ہوا ، مٹّی ، پانی تو قدرتی چیزیں ہیں، لوگ انہیں بیچ کر بھی منافع کماتے ہیں۔ جِن کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا، وہ اپنا ہنر بیچ کر منافع کماتے ہیں، اور ہنر کو ہی کاروبار بنا لیتے ہیں۔۔ کوئی ٹیوشنز پڑھا کر پیسے کماتا ہے، کوئی میک اپ کرکے پیسے کماتا ہے، تو کوئی کسی کے کپڑے سی کر پیسے کماتا ہے۔ کوئی کسی کی کار مرمّت کرکے پیسے کماتا ہے تو کوئی کسی کا ریفریجریٹر ٹھیک کرکے پیسے کماتا ہے۔

سب سے آسان کاروبار ٹریڈنگ ہے، یعنی بنی بنائی اشیاء کو صارف کو فروخت کرنا اور منافع کمانا۔ آپ ضروریات زندگی کی اشیاء کا انتخاب کیجئے، ہول سیل مارکیٹ سے مال  خریدئیے، اور ریٹیل میں فرخت کیجئے۔ آپ اگر پڑھے لکھے ہیں، کمپیوٹر سے معمولی سی بھی واقفیت ہے تو کسی سےویب سائٹ بنوا کر اپنی اشیاء آن لائن بھی فروخت کرسکتے ہیں، ویک اینڈ پر لگنے والے بازاروں میں فروخت کرسکتے ہیں، پتھارے، ٹھیلے اور سوزوکی میں دکان سجا کر مصروف محلّوں، فلیٹوں ، گلیوں اور بازاروں میں فروخت کرسکتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر کھانے پینے کی اشیاء گھر کے کچن میں بنا کر  مصروف چوراہوں پر ٹھیلے پر رکھ کر فروخت کرسکتے ہیں۔

میرا بچپن تھا، ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے، میری ایک بیوہ پھوپی تھیں،  جن کی تین بیٹیاں تھیں، ابّا نے پہلی منزل پر ان کے لئے دو کمروں کا مکان بنا یا ہوا تھا۔ وہ بہت زبردست اچار، مربّے ، چٹنیاں اور جام بناتی تھیں۔ آم کا اچار، شلجم کا چار، مرچوں کا اچار، لیموں کا اچار، املی کی چٹنی، سیب کا مربّہ،  ہر طرح کے جام اور جیلیاں۔  میری پھوبھی بہت خود دار خاتون تھیں، کبھی کسی بھائی سے مدد نہیں لی، خود سبزی منڈی اور جوڑیا بازار سے سامان کی خریداری  کرکے  لاتی تھیں، بڑی مقدار میں اچار، مربّے چٹنیاں بناتی تھیں، شیشیوں میں پیک کرتیں، لیبل لگاتیں ، اور  رکشامیں رکھ کر کراچی کی مختلف مارکیٹوں میں دکانداروں کو سپلائی کرتی تھیں۔

پھوپی نے اپنے اچار ، مربّے اور چٹنیوں کے کام سے اتنا پیسہ  بنایاکہ این بلاک نارتھ ناظم آباد میں  زمین خرید کراُس پر 600 گزکا بنگلہ بنایا ، بیٹیوں کو یونیورسٹی تک پڑھا لکھا کر ان کی شادیاں کیں، ابھی کچھ عرصہ قبل میری پھوپھی کے نواسے نواسیوں نے وہ بنگلہ بیچ کر کروڑوں روپے آپس میں تقسیم کئے ہیں۔  یہ تو صرف ایک مثال ہے، میرے مشاہدے میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں، جِن میں لوگوں نے بہت تھوری رقم سے اپنا کاروبار شروع کیا، محنت کی، کاروبار کو ترقّی دی، پیسہ کمایا، اور اپنی زندگی میں خود کفالت اور  خوشحالی لائے۔

حکیم محمّدسعید، پاکستان کی بہت معتبر اور مشہور شخصیت گذرے ہیں، دہلی انڈیا سے ہجرت کرکے کراچی آئے، برنس روڑ پر مطب کی بنیاد ڈالی، یہیں پر شربتِ روح افزا، بچّوں کا نونہال گرائپ واٹر، مشہور زمانہ صافی،    بناکر مارکیٹ میں فروخت  کے لئے پیش کئے،    شروع شروع میں خود ہی عطار کا کام کرتے، خود  ہی پیکنگ  کرتے، اور  خود ہی سپلائی کرتے تھے،  جب کام چل پڑا تو پورےپاکستان میں ہمدرد  دواخانوں اور ہمدرد لیباریٹریز کا جال بچھادیا، کروڑوں ، اربوں روپے کمائے، ہمدرد  اسکول اور یونیورسٹی بنائی، ٹرسٹ بنا کر ساری دولت ، پاکستان کے لئے وقف کردی، ۔  

یاد رکھئے ، جو لوگ  بے روزگاری، غریبی، تنگدستی اور مفلسی کا شکوہ کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو  پیسہ کمانا نہیں جانتے، یہ نہ تو کوئی ہنر جانتے ہیں، نہ ان کے پاس کوئی تعلیم ہوتی ہے، نہ  ہی یہ کوئی جسمانی مشقّت کرنا چاہتے ہیں۔   غریبی نہ تو خدا کا دیا ہوا عذاب ہے، نہ ہی مشیّتِ الہی ہے۔ غریبی کا توڑ صرف اور صرف معاشی جدوجہد  ہے، کم سرمائے سے اپنا کاروبار شروع کرئیے ،  معاشی خود کفالت کا لطف اٹھائیے اور  اور ترقّی کا  پہلا زینہ چڑھ جائیے۔

اگلے مضمون میں ہم انٹرپرینیورشپ کے بارے معلومات فراہم کریں گے

Comments are closed.