صدر مرسی کی موت: اسلام پسند اور لبرل


لیاقت علی/خالد تھتھال

مصر کے سابق منتخب صدر مرسی کی کمرہ عدالت میں موت ہم عصر سیاسی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے۔ بظاہر تو اس موت کی ذمہ دارمصر کی برسر اقتدار فوجی جنتا ہے جس نے جنرل عبدالفتح السیسی کی سربراہی میں چند سال قبل صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس موت کے ذمہ داروں میں مشرق وسطی کے وہ تمام ممالک شامل ہیں جنھوں نے فوجی کودتا کی حمایت کی تھی۔

سعودی عرب نے تو مرسی کی حکومت ختم کرنے اور فوجی اقتدار قائم ہونے کے بعد مصر کی مالی امداد میں کئی گنا اضافہ کردیا تھا۔بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں نے بھی اس قتل کی اس شدومد سے مذمت نہیں کی جتنی ان سے توقع تھی شائد اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ صدر مرسی مذہبی سیاست کے داعی تھے اور اب یورپ اور امریکہ کو مذہبی سیاست کا سودا قبول نہیں ہے حالانکہ ماضی میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی جیسی سیاسی جماعتوں کو بنانے اور ان کو بڑھاوا دینے میں برطانیہ اور امریکہ نے خصوصی دلچسپی لی تھی۔ ان دنوں کمیونزم اور سوویت یونین کے خلاف لڑنے میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں ان کا دست بازو بنی ہوئی تھیں۔

خود پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے جو فکری اور نظریاتی طور پر مرسی کی حلیف تھیں ان کی موت پر خاموشی ہی میں عافیت جانی ہے۔ مولانا فضل الرحمان سے امید تھی کہ وہ اس ناگہانی موت کے خلاف آواز اٹھائیں گے لیکن وہ خاموش رہے۔عوامی تحریک کے طاہر القادری ہوں یا مفتی منیب الرحمان، یا پھر حافظ سعید جو کشمیر میں پتہ بھی ٹوٹ کر گرجائے تو مال روڈ پر احتجاجی کیمپ لگا دیتے ہیں مرسی کی موت پر خاموش رہے۔ مولانا طارق جمیل جیسے اداکار نما مبلغ، مولانا حنیف جالندھری اور طاہر اشرفی جیسے نابغوں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ دراصل ان سب ملاوں کی خاموشی کے پس پشت سعودی عرب کا مالی تعاون ہے جو ان سب کو کسی نہ کسی صورت حاصل ہے۔

یہ کریڈیٹ پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کو جاتا ہے جنھوں نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور مسلم لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے بھی مرسی کی موت پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پرغم وغصے کا اظہار کیا ہے۔

اگر آپ لبرل ہیں اور پرامن بقائے باہم پر یقین رکھتے ہیں اورجمہوریت پر آپ کا یقین پختہ ہے تو پھرآپ کو ہر اس شخص کے حق میں آواز اٹھانا چاہیے جو فوجی آمریت کے خلاف سول سپرمیسی بالادستی کی جنگ میں لڑنے میں مصروف اور فوجی جنرلز کے ظلم وستم کا شکار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے اپنے مرسی اور اپنے اردوان ہیں تو پھر آپ کی جمہوری سوچ وفکر میں کھوٹ اور ملاوٹ ہے۔

ہمارے اسلام پسندوں اور صالحین کا کا تضاد ملاحظہ فرمائیں۔مصر میں فوج اقتدار پر قبضہ کرے تو وہ سڑکوں پر نکلتے اور اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ترکی میں اردوان اپنے مخالف فوجیوں کو دیوار سے لگائے تو یہ خوشیاں مناتے ہیں لیکن جب پاکستان میں فوجی جرنیلوں کی سیاست اور حکومتی امور میں مداخلت کے خلاف جدوجہد کی بات کی جائے تو ہمارے یہ اسلام پسند کٹھ پتلیاں بن کر فوجی جنتا کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں۔

ان کو مرسی اور اردوان تو اچھے لگتے ہیں لیکن جب پاکستان میں ان سیاسی رہنماوں کی بات کی جائے فوجی مداخلت اور سول سپر میسی کی بات کی جائے تو ان کی منہ سے جھاگ جاری ہوجاتی ہے اور کہ واویلا شروع کردیتے ہیں کہ آپ تو کرپٹ لوگوں کی حمایت کررہے ہیں۔جب تک ہم سیاست دانوں کو چور ڈاکو کہتے اور سمجھتے رہیں گے پاکستان کی سیاست سے فوجی بالا دستی کبھی ختم نہیں ہوگی اور جنرل السیسی اور اس کی قبیل کے ہمارے اپنے جنرلوں کی موج لگی رہے گی۔

صدر مرسی کو ہمارے اسلام پسند بھلے ہی شہید اسلام کہتے رہیں وہ شہید جمہوریت تھے۔ وہ ووٹ کی حرمت کا نشان تھے۔ جس شخص یا سیاسی جماعت کو عوام ووٹ دیتی ہے وہی حکومت اور ریاست چلانے کا حقدار ہے کسی غیر منتخب شخص کو خواہ وہ کتنا ہی قابل،ذہین اور صاحب فہم وفراست کیوں نہ ہو اس کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ریاست اورحکومت چلائے۔

ماہرین کے خیال میں عرب سپرنگ کو ناکام بنانے والوں میں مُرسی کا نام بھی آتا ہے۔ عوام عشروں پرانی حسنی مبارک حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ تب اخوان والوں نے اپنا پروفائل نیچے رکھا۔ لیکن اخوان ایک منظم جماعت تھی جیسی شاہ ایران کے وقت ایرانی ملا تھا۔ چنانچہ جیسے عوامی جدوجہد کو ایران میں ملاؤں نے ہائی جیک کیا، ویسے ہے اخوان اپنی بہترین تنظیم کی وجہ سے اقتدار پر قابض ہو گئی۔

چلو اقتدار مل گیا، لیکن پھر انہوں نے پورے مصر کی حکومت بننے کی بجائے مسلمانوں کی حکومت بننے پر زور دیا۔ اقلیتی قبطی آبادی پر بہت بھاری وقت آیا۔ ان کے چرچ جائے گئے۔ دھماکوں میں کافی قبطی مارے گئے۔ چونکہ اخوان ایک عالمی اسلامی خلافت کی داعی ہے لہذا اپنی سسٹر جماعت حماس کی سپورٹ میں اضافہ کر دیا۔ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے اندر بھی اخوانوں کے اثر سے ہر کوئی آگاہ ہے۔

جیسے ترکی کے اخوانی صدر ایردوان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے ترکی سے زیادہ اسلام سے محبت ہے یہی حال اخوان المسلمین کا تھا۔ معاشی بدحالی کو مزید اسلام سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا جلد ہی سڑکوں پر ارحل مُرسیکا نعرہ گونج گیا۔ حالات قابو سے باہر ہوئے تو فوج نے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور کسی ایک مصری نے اس پر اعتراض نہیں کیا جیسے سوڈان میں ہوا۔

مُرسی کی موت ایک انسان، ایک خاندان کا المیہ ہونے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کی موت سے جمہوریت کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کیونکہ ایسی جماعتوں کا جمہوریت پر یقین نہیں ہوتا۔ یہ صرف جمہوریت کو اقتدار پر قبضہ کرنے اور اپنے نظریہ نافذ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایردوان کا بھی یہی حال ہے کہ اس کے بقول جمہوریت ایک ایسی ٹرین کی مانند ہے جسے آپ منزل پر پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب منزل پر پہنچ جائیں تو ٹرین کو چھوڑ دیتے ہیں۔اگر اخوان کو مزید موقع ملتا تو انہوں نے بھی وہی کرنا تھا جو ایردوان کر رہا ہے۔

ایردوان پہلی بار استنبول کا میئر بنا۔ استنبول کو اک پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ پچھلے انتخاب میں پہلی بار وہاں میئر کے الیکنش میں اک پارٹی ہاری ہے۔ لیکن ایردوان کا منظور نہیں۔ اس کے بقول انتخاب میں کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ حالانکہ انتخاب اس کی اپنی حکومت کے تحت ہوئے۔ ایردوان کے زور پر استنبول کے الیکنش کالعدم قرار دیا گیا۔ نئے الیکشن کی جو تاریخ دی گئی، اس کے مطابق آج الیکشن ہو رہے ہیں۔ جس میں ایردوان نے کوشش کرنی ہے کہ کسی بھی طریقہ سے استنبول کی میئر شپ اس کی جماعت کو ملے۔

Comments are closed.