فوجی بجٹ میں کمی کا فیصلہ ۔۔کتنی حقیقت ہے؟

پاکستان کی طاقتور فوج نے ملک کی خراب معاشی صورت حال کے پیش نظر ایک برس کے لیے ملکی فوج کے ’بجٹ میں رضاکارانہ کمی‘ کا اعلان کیا جس کے بعد سے یہ معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے مابین چھ بلین ڈالر قرض پر اصولی اتفاق ہو چکا ہے لیکن قرض ملنے سے قبل اسلام آباد حکومت کو مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنا پڑیں گے۔ ماضی میں مشکل معاشی صورت حال کے باوجود سول حکومتیں فوج سے اختلافات پیدا ہونے کے ڈر سے ملکی دفاعی بجٹ میں کمی سے کتراتی رہی ہیں۔

تاہم اس مرتبہ عمران خان کی حکومت اور ملکی فوج کے مابین بظاہر اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے منگل چار جون کے روز ایک ٹوئیٹ کے ذریعے بتایا کہ فوج نے دفاعی بجٹ میں رضاکارانہ طور پر کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بعد ازاں پاکستانی وزیر اعظم عمران نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ہماری قومی سلامتی کو درپیش گوناں گوں چیلنجز کے باوجود افوجِ پاکستان کا آئندہ مالی سال کے دفاعی اخراجات میں رضاکارانہ کمی کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ اس بچت کے نتیجے میں میسر آنے والا سرمایہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع اور بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا جائے گا‘‘ ۔

پاکستانی حکومت رواں ماہ ہی آئندہ مالی سال کے لیے ملکی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ موجودہ نظام کے تحت بجٹ کا نصف سے زائد حصہ صوبوں کو منتقل کر دیا جاتا ہے جب کہ باقی بچ جانے والی رقم کا بہت نمایاں حصہ ملکی دفاعی بجٹ پر خرچ ہو جاتا ہے۔ فوجی ترجمان اور عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ فوج کے بجٹ میں کتنی کمی لائی جا رہی ہے۔

پاکستانی سوشل میڈیا کے کئی صارفین نے مختلف پہلوؤں سے اس فیصلے کو غلط قرار دیا۔ ان کی رائے میں فوج نے در اصل اپنا بجٹ کم نہیں کیا، بلکہ اس برس کے بجٹ میں ہر سال کی طرح دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ نہیں کیا جا رہا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک فوجی بجٹ کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی جاتیں اس وقت تک کیسے علم ہوگا کہ اس میں کٹوتی کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پارلیمنٹ میں ملکی سلامتی کے نام پر فوجی بجٹ پر بحث ممنوع ہے۔

بین الاقوامی میگزین دی اکنامسٹ نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں لکھا تھا کہ پاکستانی عوام کی غربت کی ذمہ دار پاکستانی فوج کے دفاعی اخراجات ہیں۔

DW/News Desk

Comments are closed.