کرونا وبا کا مقابلہ کرنے کی بجائے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے

عائشہ صدیقہ

حکومتی اخراجات کی ترجیح کیا ہے ؟ بڑھتے ہوئے کرونا وائرس کی وبا کے باوجود حکومت پاکستان کوئی واضح پالیسی بنانے کے لیے تیار نہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں کرونا وائرس انتہائی سرعت سے پھیل رہا ہے۔پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس 26فروری کو منظر عام پر آیا اور اب پاکستان دنیا کے پندرہ ٹاپ ممالک کی فہرست میں آچکا ہے۔ یہ بیماری اب تک چار ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے۔جبکہ ملک میں ماسک ، حفاظتی لباس اور وینٹی لیٹرز کی شدید کمی ہے ۔

ان حالات میں حکومت پاکستان نے حالیہ بجٹ2021-2020میں دفاع کے لیے  7.85بلین ڈالر اور صحت عامہ کے لیے صرف  151ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال دفاعی بجٹ میں 12فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک سطری لائن میں دفاعی بجٹ کو ظاہر کیا گیا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ دفاع پر اصل اخراجات کتنے ہونگے۔

آئی ایم ایف کے سخت سوالوں سے بچنے کے لیے پاکستان نے دفاعی بجٹ کو شفاف رکھنے سے گریز کیا ہے۔مسلح افواج کے ہتھیاروں کے حصول پر اخراجات ، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پر خرچ، نیوکلئیر پروگرام کے اخراجات ، پیرا ملٹری فورسز کے اخراجات ، فوجیوں کی پنشن جیسے اخراجات یا حال ہی قائم کیے گئے نیشنل سیکورٹی ڈویثرن کے اخراجات کی بجٹ میں کوئی تفصیل یا وضاحت نہیں کی گئی۔اگر یہ اخراجات بھی شامل کیے جائیں تو پاکستان کا دفاعی بجٹ گیارہ بلین ڈالر تک پہنچتا ہے۔

دفاعی اخراجات میں اضافہ اس موقع پر کیا گیا ہے جب حکومت نے ،پاکستان کو بجٹ میں دیئے گئے وسائل میں سے  41فیصد قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیے ہیں۔ کووڈ 19 کی آمد سے پہلے ہی پاکستانی معیشت روبہ زوال تھی جس کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ 2018-2017میں جی ڈی پی کی شرح 5.5فیصد تھی جو کہ 2021-2020 میں 2.4 فیصد تک آگئی ہے ۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اب یہ شرح منفی 1.5فیصد ہوچکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جہاں شرح نمو منفی ریکارڈ کی گئی ہے۔

عالمی وبا سے پہلے پاکستان پر 112 بلین ڈالر کے قرضے کا بوجھ تھا۔آج حکومت پر 25 ملین غریب خاندانوں کو وسائل فراہم کرنے چیلنج ہے جو کووڈ19 کی وجہ سے بے روزگار ہیں۔ حکومت کی نالائقی اور کووڈ 19 کی وجہ سے کاروبار کی بندش سے ٹیکس اکٹھا کرنے میں بھی 30فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے صحت کا بجٹ بھی کم ہوگیا ہے جبکہ اس مد میں صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومت سے فنڈز بھی کم ملے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے 20 مئی کو ورلڈ اکنامک فورم میں جی20 کے ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان اور دوسری ترقی پذیر اقوام کے لیے صحت عامہ اور ماحول کے لیے فنڈز فراہم کریں۔ جبکہ اس سے پہلے اپریل میں پاکستان کے وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی نے اپنے برطانوی ہم منصب ،ڈومینک راب، سے درخواست کی تھی کہ عالمی وبا کا مقابلہ کرنے لیے وہ جی 20 ملکوں کو امداد کے لیے کہیں۔

ابھی تک حکومت نے 424 ڈالر کرونا وائرس ریلیف کے لیے خرچ کیے ہیں۔ تاہم حکومت قرضوں کی ادائیگی میں سہولت اور وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی دنیا سے مسلسل اپیلیں کر رہی ہے تاکہ اس وبا سے پیدا ہونے والے بحران سے موثر انداز سے مقابلہ کیا جائے۔جبکہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں کی مدد کرنے کی بجائے طاقتور اتحادیوں کو خوش کرنے میں مصروف ہےشاید یہی وجہ ہے کہ ماسک اور پی پی ای ،جن کی اپنے ملک میں شدید کمی ہے ،سے بھرا طیارہ امریکہ کو بطور تحفہ دیا گیا ہے۔

صوبائی حکومتیں اپنے وسائل کے ذریعے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد کررہی ہیں، جبکہ عمران خان کی حکومت آرمی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے صوبائی حکومتوں کے فنڈز کو بھی ہتھیانے کی کوشش کر رہی ہے۔اٹھارویں ترمیم جس میں صوبوں کو مرکز پر انحصار ختم کرکے مالی خودمختاری دی گئی ہے کو ختم کرنے کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔

پاکستان آرمی کو یقین ہے کہ اگر ان کے فنڈز کم کیے گئےتو ملکی سیکیورٹی کو دوچار خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوسکتی ہے۔اسی لیے حکومت کرونا کی وبا سے متاثرہ ملک کو معاشی مسائل سے نبٹنے کو نظر انداز کرکے دفاعی اخراجات کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے وہ بجٹ میں موجود اخراجات پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

سال ہا سال سے ، پاکستان آرمی ملکی سیاست میں مداخلت سے سیاسی عدم استحکام پیدا کیے ہوئے ہے اور ہر مرکزی حکومت کو دفاعی بجٹ میں نہ صرف اضافے پر مجبور کرتی ہے بلکہ اس پر بحث بھی نہیں کرنے دیتی۔ پاکستان آرمی ہی ملک کو درپیش خطرات کے اندازے لگاتی ہے، اس کے لیے کن ہتھیاروں کی ضرورت ہے اوران کے حصول کے لیے اپنے بجٹ کا خود فیصلہ کرتی ہےجبکہ سویلین حکومت کو اس میں کسی مداخلت کی اجازت نہیں دیتی۔

ارکان پارلیمنٹ کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ آرمی سے یہ پوچھ سکیں کہ مقامی طور پر تیار کردہ ٹینک” الخالد” کے ہوتے ہوئے چین سے ٹینک کیوں خرید رہے ہیں؟اسی طرح ہر سال دو بلین ڈالر سے زائد پنشن کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں جن کو دفاعی بجٹ میں شامل نہیں کیا جاتا۔ اور نہ ہی حکومت کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ پوچھ سکے کہ آرمی کے تحت چلنے والے نجی کاروبار سے 20 بلین ڈالر کی آمدن کہاں خرچ ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ آرمی کے تحت چلنے والے یہ نجی کاروبار ہر سال ریاست سے  90.9ملین ڈالر کی ٹیکس چھوٹ بھی حاصل کرتے ہیں۔ مزید براںمسلح افواج، سویلین محکموں کے برعکس، اپنے فنڈز ایک اکاونٹ سے دوسرے اکاونٹ میں منتقل کر دیتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ مالی سال کے اختتام پر اپنے وسائل ریاست کو واپس دینے کے لیے تیار نہیں۔

بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر مسلسل تنازعے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے کوئی آثار نہیں۔ پاکستان کے نیو کلئیر پروگرام کی بدولت اب کسی بھی زمینی جنگ کا امکان نہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں دفاعی اخراجات کے اضافے میں کوئی ضرورت نہیں خاص کر اس وقت جب ملک کرونا وائرس کی وجہ سے ایک بحران سے دوچار ہے اور دوسرے بھارت کی توجہ بھی چین کی طرف مبذول ہے۔

کئی دہائیوں سے ریاستی اداروں پر قابض ہونے کی وجہ سے آرمی مسلسل ملکی وسائل کا ایک بڑاحصہ اپنے لیے حاصل کر رہی ہے ۔ قومی سلامتی کے نام پرہر سال مزید فنڈز کے حصول کا مطلب اپنے لیے سیاسی و معاشی غلبہ حاصل کرنا ہے جو کہ سراسر کروڑوں پاکستانی شہریوں کا معاشی استحصال ہے۔ آرمی چیف حکومت کی معاشی پالیسیوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور کئی آرمی افسر مختلف محکموں کے سربراہ بنے ہوئے ہیں۔

حکومتی اور ریاستی ادارے پاکستان آرمی کے بڑھتے ہوئے مطالبوں کے آگے بے بس ہوچکے ہیں ۔پاکستان کے بین الاقوامی اتحادیوں ، ڈونر اداروں اور شراکت داروں کا فرض ہے کہ وہ پاکستان پر اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنے پر دباو ڈالے ۔

Comments are closed.