سیدہ عابدہ حسین کی خود نوشت

ڈاکٹر پرویز پروازی

1280x720-bEH
ہماری ہم وطن، جھنگ کی بیٹی ، سیدہ عابدہ حسین کی انگریزی میں لکھی گئی سیاسی خود نوشت یعنی ’’اقتدار کی ناکامی‘‘ کے عنوان سے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے 2015 میں شائع ہوئی ہے ۔ سات سو صفحات کی یہ ضخیم خودنوشت ایک قدیم سیاسی خاندان کی تاریخ کا حکم رکھتی ہے ۔ سیدہ عابدہ حسین کے والد محترم کرنل سید عابد حسین قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کی جانب سے ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ پاکستان کی ابتدائی حکومتوں میں وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے مگر ایوب کے مارشل لاء کے بعد سیاسی میدان میں ان کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں۔ ان کی والدہ محترمہ سر سید مراتب علی کی صاحبزادی تھیں۔

عابدہ حسین کی تعلیم سوئٹز ر لینڈ کے سکولوں میں ہوئی جس کی وجہ آپ نے یہ بیان کی ہے کہ صدر ایوب کے صاحبزادے اختر ایوب ان سے شادی کی خواہش رکھتے تھے۔ صدر ایوب نے نواب کالا باغ کے ذریعہ پیغام بھجوایا مگر سید عابد حسین اپنی بیٹی کسی غیر سید کے نکاح میں دینا نہیں چاہتے تھے۔(اقتدار کی ناکامی صفحہ ۳) اس لیے انکار کر دیا۔ بیگم وقار النسا ء نون نے انہیں مشورہ دیا کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو انکار کے بعد ان کی صاحبزادی کے لیے یہی راستہ محفوظ تھا کہ اسے پاکستان سے دور بھیج دیا جائے۔

سیدہ عابدہ حسین اپنے ابا کی واحد اولاد تھیں اس لیے آپ نے اپنے ابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ابا کی طرح سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ گھوڑے پالتی رہیں اور انعام جیتتی رہیں۔ آزادسیاسی امیدوار کی حیثیت سے جھنگ ڈسٹرکٹ کونسل میں سرگرم رہیں اور اپنے ابا کی طرح جھنگ ڈسٹرکٹ کونسل کی صدر منتخب ہوئیں۔ ادب میں جھنگ رنگ کے بانی مبانی شیر افضل جعفری کے لفظوں میں ’’یہ اپنے ابا کی سات بیٹوں جیسی اکلوتی بیٹی ثابت ہوئیں ( صفحہ ۹۹)۔ پھر ملکی سطح پر ان کا سیاسی سفر شروع ہوا ۔ بھٹو صاحب کو پسند کرتی تھیں مگر بھٹو صاحب ان سے ملنے شاہ جیونہ گئے تو ان کی شخصیت کا عجیب پہلو سامنے آیا۔

بھٹو صاحب پوچھنے لگے ’’ یہ مکان کس نے بنایا تھا اور کتنے ایکڑ پر محیط ہے‘‘؟ انہوں نے بتایا میرے دادا نے بنایا تھا پھر میرے ابا کو ملا اور اب میرے پاس ہے اور یہ مکان تین ایکڑ پر محیط ہے۔ بھٹو صاحب فرمانے لگے میرا لاڑکانہ کا مکان اس سے کہیں بڑا ہے ۔ پھر پوچھا تمہارے دادا کے پاس کتنی زمین تھی ؟ بتایا ۔ فرمانے لگے میرے دادا کے پاس اس سے کہیں زیادہ تھی۔ صفحہ ایضاً

بہرحال بھٹو صاحب انہیں روس کے دورہ پر اپنے ساتھ لے گئے کیونکہ ان کی صاحبزادی پنکی ان کے ساتھ جارہی تھی ۔ اس کے باوجود جب انہوں نے الیکشن کے لیے اسمبلی کے ٹکٹ کی ضرورت پڑی تو ان کو اس لیے ٹکٹ نہ دیا گیاکہ یہ خاتون ہیں(صفحہ ۱۲۹) اس نے انہیں بہت مایوس کیا ۔ عجیب بات ہے کہ انہوں نے ۱۹۷۶ میں خواب دیکھا کہ ’’بھٹو کی گردن میں پھندا ہے اور ان کے صحن کے آم کے درخت سے لٹکے ہوئے ہیں اور کچھ فوجی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں ( صفحہ ۱۲۷) مگر ان کی امی نے انہیں منع کر دیا کہ وہ اس خواب کا کسی سے ذکر نہ کریں کیونکہ بھٹو بڑا خطرناک آدمی ہے وہ اس کا کچھ بھی مطلب نکال سکتا ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے۔

بہرحال بعد کو یہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کے شوہر جب فخر امام بھی اپنے علاقہ سے اسمبلی کے لیے چنے گئے اس طرح یہ واحد جوڑا تھا جو اسمبلی میں پہنچا ۔ فخر امام اسمبلی کے سپیکر بنے تو انہیں ضیاء الحق کی جانب سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

نواز شریف سے اس کا تعارف عجیب طریق سے ہوا۔ یہ جھنگ ضلع کونسل کے صدر کی حیثیت سے جنرل سوار سے ملنے کے بعد باہر نکلیں تو نواز شریف مٹھائی کا بڑا ٹوکرا اٹھائے جنرل سوار سے ملنے کا انتظار کر رہے تھے( صفحہ ۱۸۳) اور یہ بھی انہی کی کتاب میں درج ہے کہ ’’ نواز شریف جنرل جیلانی کے چھاؤنی میں زیر تعمیر مکان کے لیے سارا سامان مہیا کرتے رہے ‘‘ (صفحہ ۲۲۱) اس لیے پڑھنے والوں کو یہ بات عجیب نہیں لگنی چاہیے کہ جب جنرل جیلانی نے نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے سے قبل گورنر ہاؤس میں لوگوں سے ملایا تو ’’ ان کے مزاج شریف کہنے کو بھی لوگ نواز شریف ہی سمجھے‘‘۔ صفحہ ایضاً

نواز شریف نے انہیں خوب عزت دی انہیں وزیر بنایا پھر ان کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا مگر ا نہیں نواز شریف کی بعض باتوں سے اختلاف رہا۔سپریم کورٹ کے تنازعے کے دوران ’’ رفیق تارڑ نے ایک میٹنگ میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بارہ میں نہایت نا مناسب تقریر کی‘‘ (صفحہ ۵۵۵) اور پھر’’ اگلے روز جب سپریم کورٹ توہین عدالت کا فیصلہ سنانے والی تھی مسلم لیگ کے لوگوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا ‘‘ (صفحہ ۵۵۵)۔

یہ باتیں ریکارڈ پر آنا بہت ضروری تھیں ۔ الحمدللہ سید عابدہ حسین نے جرات کرکے انہیں ریکارڈ کر دیا ہے ۔ لکھنے کو تو پرویز مشرف نے بھی اپنی خودنوشت میں یہ لکھا ہے کہ نواز شریف کے غنڈوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا( ان دی لائن آف فائر ، صفحہ ۸۲) مگر اسے ایک دشمن کی بات کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے مگر عابدہ حسین تو اس عہدکی ایک وزیر تھیں ان کے قلم سے یہ اعتراف حیرت انگیز ہے۔ پھر انہیں کا کہنا ہے کہ ’’ ہم نے اس روز حکومت کرنے کا حق کھو دیا‘‘۔ صفحہ ایضاً


جب یہ سفیر بن کر امریکہ جارہی تھیں تو انہوں نے صدر اسحاق خان سے پوچھا کہ کیا ان کو ڈاکٹر اے کیو خان سے ملنا چاہیے؟ صدر کہنے لگے ’’ ان سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ بس اپنے بارے میں ہی باتیں کرتے رہیں گے‘‘۔(صفحہ ۴۱۱) ڈاکٹر اے کیو خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سارے بیانات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات کے سوا کسی دوسرے کی خوبی نظر ہی نہیں آتی وہ انتہا کے خود پسند آدمی ہیں۔

سیدہ عابدہ حسین کو اپنے علاقہ میں شیعہ ہونے کی وجہ سے بہت شدت سے ’’شیعہ کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعرے سنناپڑے۔سپاہ صحابہ کی طرف سے دھمکیاں بھی ملتی رہیں اس لیے ان کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ’’ مذہب کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ‘‘ ( صفحہ ۳۶۶)مگر بھٹو صاحب نے ان سے اپنی حکومت کی خرابیوں کی نشاندہی کا کہا تو ان کی جرات رندانہ جواب دے گئی صرف اتنا کہہ سکیں کیا وزرات مذہبی امور کا قیام بہت ضروری تھا؟ ( صفحہ ۱۰۲) یہ نہ کہہ سکیں کہ مذہب سے ریاست کا کوئی تعلق نہیں ہوتا آپ کیوں سرکاری طور پر اسمبلی کے ذریعے دوسروں کو اسلام سے خارج قرار دے رہے ہیں؟ یہ بھٹو صاحب کا لگایا ہوا پودا ہی تھا جس کا خمیازہ ہماری قوم اب تک بھگت رہی ہے۔

جونیجو صاحب کے بارے میں ان کی رائے ڈھکی چھپی نہیں۔ جب انہیں وزیر اعظم نامزدکیا گیا تو آپ نے علی الاعلان کہا کہ جونیجو صاحب میں وہ کرشماتی بات نہیں جو بھٹو صاحب میں تھی۔ نہ ان کی تقریر میں کوئی بات ہے نہ شخصیت میں۔ اس بات پر کسی رکن اسمبلی نے کہا انہیں وزیر اعظم کے بارہ میں ایسی بات نہیں کہنا چاہیے؟ یہ ناراض ہوگئیں کہنے لگیں ’’ اب ہمیں وزیر اعظم کا چمچہ بننے کی عادت چھوڑ دینی چاہیے ‘‘ ۔صفحہ ۲۳۸

یہ بات کلثوم سیف اللہ نے بھی اپنی خود نوشت ’’میری تنہا پرواز‘‘ میں لکھی ہے کہ ’’ چندی یعنی بیگم عابدہ حسین نے جونیجو صاحب کے بارہ میں اسمبلی میں کہا ’’ ہمارا وزیر اعظم بڑا نالائق شخص ہے‘‘۔ جونیجو صاحب نے انہیں کہا کہ انہیں سمجھائیں ’’ عابدہ حسین اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لہذا ان کو اسمبلی کے فلور پر ایسے غیر پارلیمانی الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہئیں۔ میںیہ نہیں کہتا میں لائق ہوں یا نالائق ہوں جو کچھ ہوں وہ ہوں۔ لیکن میں ضرور کہوں گا کہ اسمبلی کے فلور پر مہذب زبان استعمال کرنی چاہیے ‘‘۔ ( میر ی تنہا پرواز صفحہ ۱۶۰

سپیکر فخر امام کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہوا تو بیگم عابدہ حسین نے یہ شعر لکھا ہے ’’ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ؟ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے‘‘ اور منیر نیازی کا شعر کہا ہے ۔ میرے خیال میں یہ شعر منیر نیازی کا نہیں مصطفی زیدی کا ہے۔

بہر طور بیگم عابدہ حسین کی یہ خود نوشت پاکستان کے سیاسی کلچر کی حقیقی اور منہ بولتی تصویر ہے۔ خود عابدہ حسین نے جھنگ کے کلچر کا بڑا چرچا کیا ہے مگر جھنگ کے نامور سپوتوں میں اور سب نام گنوا گئی ہیں پروفیسر سلام کا نام انہیں بھی بھول گیا ہے۔

Comments are closed.