پاک بھارت مذاکرات

بھارتی پریس سے: رشیدالدین

f11

ایڈیٹر نوٹ: پاکستانی میڈیا میں پاک بھارت تعلقات پربھرپور بحث ہورہی ہے، جبکہ بھارتی میڈیا میں بھی اس مسئلے پر بحث ہورہی ہے ۔بھارتی لکھاری اس مسئلےکو کیسے دیکھتےہیں اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔قارئین کو تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھنے چاہییں۔

پاکستان کی سرحد پر خلاف ورزیاں اور ہندوستان میں دہشت گرد سرگرمیوں کا منہ توڑ جواب دینے بارہا عہد کرنے والے آج خاموش کیوں ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وطن کیلئے اپنی جانوں کی قربانی کا عہد کرنے والے میدان عمل میں آئیں اور حب الوطنی کا ثبوت دیں۔ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو انتخابی موضوع بنانا تو آسان ہے لیکن اقتدار میں آتے ہی پاکستان کے ساتھ نرم رویہ ناقابل فہم ہے۔

گزشتہ 10 دن میں پاکستان کی جانب سے دہشت گرد حملہ کے تین واقعات پیش آئے اور دو واقعات صرف 48 گھنٹے کے وقفہ سے رونما ہوئے اور تینوں واقعات میں پاکستان کا ملوث ہونا تقریباً ثابت ہوچکا ہے ۔ پھر بھی نریندر مودی سرکار قومی سلامتی اور فوج و نیم فوجی دستوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کارروائی تو درکنار سفارتی سطح پر احتجاج درج کرانے بھی تیار نہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو آخر کیا ہوگیا جو عام حالات میں پاکستان کے نام سے ہی بھڑک اٹھتے ہیں اور پاکستان کا نام لیکر ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔

کہاں ہیں وہ نفرت کے سوداگر سادھو اور مہاراج جو ہر بات پر مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے میں پیش پیش رہے لیکن آج جب پاکستان کی جارحیت کھل کر سامنے آگئی تو ان کی زبان جیسے گنگ ہوگئی۔ این ڈی اے دور حکومت میں منموہن سنگھ پر  پاکستان سے نرم رویہ کا الزام عائد کرنے والے آج اپنی حکومت میں کیوں خاموش ہیں۔ حب الوطنی پر کسی کی اجارہ داری نہیں لیکن دوسروں پر انگلی اٹھانے والوں کو آج حب الوطنی کا ثبوت دینے سے کس نے روکا ہے۔

مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد بھی سرحد کی صورتحال، دونوں ممالک کی افواج میں فائرنگ کا تبادلہ اور دراندازی کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی لیکن نریندر مودی کا پاکستان کے ساتھ نرمی کا رویہ برقرار ہے۔ آخر ہندوستان کی کیا مجبوری ہے ؟ آخر کس کے اشارہ پر مودی سرکار معاملہ کی سنگینی کو گھٹانے کی کوشش کر رہی ہے ؟ کیا ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسی آزاد نہیں ہیں؟

یہ وہ سوال ہیں جو ہر ہندوستانی کے دماغ میں گونج رہے ہیں اور قوم ان کا جواب نریندر مودی حکومت سے چاہتی ہے۔ پنجاب کے بعد دو دہشت گرد حملے ہوئے جن میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہوں نے ملک پر اپنی جان نچھاور کردی لیکن افسوس کہ وزیراعظم اور وزیر دفاع نے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تینوں حملوں میں پاکستان کی سرپرستی تقریباً ثابت ہوچکی ہے۔ کشمیر میں ایک حملہ آور کا زندہ پکڑا جانا اور اس کا اقبال جرم پاکستان کی سرپرستی کا کھلا ثبوت ہے۔

یو پی اے دور میں اس طرح کے واقعات پر بی جے پی نے حکومت کو جوابی کارروائی کی صلاح دیتے ہوئے کانگریس پر پاکستان کے ساتھ نرم رویہ کا  الزام عائد کیا تھا۔ یو پی اے حکومت نے پاکستان کے خلاف کیا کارروائی کی اس کے قطع نظر سوال یہ ہے کہ اقتدار ہاتھ میں ہونے کے باوجود بی جے پی آج بے بس کیوں ہے؟ گزشتہ سال پاکستانی ہائی کمشنر کی حریت قائدین سے ملاقات پر برہم ہوکر ہندوستان نے معتمدین خارجہ کی بات چیت سے دستبرداری اختیار کرلی تھی لیکن بعد میں نریندر مودی نے بیرون ملک نہ صرف نواز شریف سے ملاقات کی بلکہ خارجہ سکریٹری  جئے شنکر کو سارک یاترا کے نام پر پاکستان روانہ کیا۔

افسوس اس بات پر ہے کہ مسلسل تین حملوں اور پاکستان کے خلاف ٹھوس ثبوت کے باوجود جاریہ ماہ  پاکستان کے مشیر قومی سلامتی سرتاج عزیز کے مجوزہ دورے اور ہندوستانی  مشیر قومی سلامتی سے مذاکرات کے پروگرام کو برقرار رکھا گیا۔ کیا دہشت گردی کے بارے میں نریندر مودی کا ’’زیرو ٹالرینس‘‘ یہی ہے ؟ این ڈی اے نے جب پاکستان سے مذاکرات کئے تو بی جے پی اور اس کے حلیفوں نے  مخالفت کی تھی  لیکن آج قول و فعل میں تضاد کیوں؟  سرتاج عزیز کے دورہ کی برقراری خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان دہشت گردی سے نمٹنے کے مسئلہ پر آزادانہ فیصلوں کے موقف میں نہیں۔  اگر ایسا نہیں ہے تو پھر قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات سے ہندوستان میں دستبرداری اختیار کیوں نہیں کی گئی ۔

دہشت گرد حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا ثبوت ملتے ہی ہندوستان کو چاہئے تھا کہ وہ بطور احتجاج پاکستان سے اپنے سفیر کو واپس طلب کرتا اور ہندوستان میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر کو ملک واپس بھیج دیا جاتا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ واضح ثبوت کے باوجود حکومت ہند نے پاکستانی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرتے ہوئے اپنا رسمی احتجاج درج کرانے کی ذحمت نہیں کی۔

آخر ہندوستان کو مزید کن ثبوتوں کا انتظار ہے یا پھر وہ کسی تیسرے فریق کے اشارہ کے منتظر ہیں؟ برخلاف اس کے ہندوستان نے بین الاقوامی اداروں کے روبرو پاکستان کے خلاف ثبوت پیش کرنے کی بات کہی ہے۔ پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمس میں ہندوستان نے کئی بار ثبوت پیش کئے لیکن ان کا کیا نتیجہ نکلا ۔ کیا ہندوستان آزاد اور خودمختار ملک نہیں ہے کہ وہ وہ اپنی قومی سلامتی پر فیصلہ کرسکے۔ سرحد پر عام شہریوں کی ہلاکت ناقابل قبول ہے لیکن تازہ ترین حملوں میں نیم فوجی دستوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے باوجود انتخابی جلسوں میں پاکستان کے خلاف گرجنے والے نریندر مودی نے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئیٹ تک نہیں کیا۔ جس طرح محاورہ ہے کہ گرجنے والے  بادل برستے نہیں، ٹھیک اسی طرح نریندر مودی چپی سادھے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ وزیراعظم اور وزیر دفاع اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بیان دیتے۔ برخلاف اس کے وزیر داخلہ نے بیان دیا جبکہ یہ داخلی سلامتی سے زیادہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ وزیر دفاع منوہر پریکر ان دنوں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

دفاعی سطح پر ہندوستان کے کمزور موقف کی ایک وجہ ناتجربہ کار وزیر دفاع ہیں ۔ ایک چھوٹی ریاست کے چیف منسٹر کو وزیر دفاع کے عہدہ پر فائز کردیا گیا جو شائد ملک کی سرحدی حدود سے بھی پوری طرح واقف نہیں ۔ ان کی ناتجربہ کاری کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب انہوں نے فوجی کمانڈر سے خطاب کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ طویل عرصہ سے جنگ نہ ہونے کے سبب عوام میں فوج کی اہمیت گھٹ چکی ہے ۔

ہندوستان میں دہشت گرد حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور کسی بھی پارٹی کا دور اس سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ واجپائی دور حکومت میں پارلیمنٹ میں حملہ ہوا جبکہ یو پی اے دور میں  ممبئی بم دھماکے۔ دونوں حکومتوں نے حملوں کے باوجود پاکستان سے مذاکرات کا عمل جاری رکھا لیکن بی جے پی و سنگھ پریوار نے کبھی بھی واجپائی حکومت کی پالیسی پر تنقید نہیں کی جبکہ یو پی اے دور حکومت میں پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا پارلیمنٹ میں مطالبہ کیا گیا۔

آج کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے قائد اپوزیشن کی حیثیت سے  مطالبہ کیا تھا کہ ایک ہندوستانی سپاہی کے سر کے بدلے دشمن کے 10 سر قلم کئے جائیں لیکن آج بی جے پی کی وہ پالیسی کہاں گئی؟ اپوزیشن اور حکومت میں جداگانہ موقف آخر کیوں ؟ منموہن سنگھ کو کمزور اور بے بس وزیراعظم کہنے والے نریندر مودی آج کمزور اور بے بس کیوں ہیں؟ جب پاکستان کے خلاف ثبوت موجود ہیں تو دہشت گردوں اور ان کے آقاوؤں کے خلاف کارروائی تو کجا سفارتی سطح پر احتجاج درج کرانے میں بھی دلچسپی نہیں یا پھر امریکہ کی جانب سے اس کی اجازت نہیں۔

دنیا کا سب سے چھوٹا اور کمزور ترین  ملک بھی کسی دوسرے ملک کے حملہ کی صورت میں سفارتی سطح پر احتجاج درج کرانے کی ہمت رکھتا ہے ۔ حلف برداری کے دن سے ہی نریندر مودی کا پاکستان کے ساتھ خوشامد پسندانہ رویہ دیکھا جارہا ہے۔ حلف برداری تقریب میں نواز شریف کو مدعو کیا گیا اور بیرون ملک ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر اس خوشامد پسندانہ پالیسی کی وجہ کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی ڈور امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ دونوں ممالک پر کنٹرول کرتے ہوئے علاقہ میں اپنے مفادات کی تکمیل کر رہا ہے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق دہشت گرد حملوں اور ثبوت کے باوجود نریندر موودی کا نرم رویہ  دراصل آئندہ ماہ دورہ امریکہ کی تیاری ہے۔ کشیدگی پیدا کرنا اور پھر مصالحت کنندہ کے طور پر رول ادا کرنا امریکہ کی پالیسی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پڑوسی تبدیل نہیں کئے جاسکتے لیکن تعلقات میں استواری اور بحالی دونوں کے مفادات کے تابع ہونی چاہئے ۔ جب تک دو ملک ایک دوسرے کی قومی سلامتی کا احترام نہیں کرتے اس وقت تک دوستی کے استحکام کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تعلقات کیلئے سرحدوں کی حفاظت کو نظر انداز کیا جاسکتاہے۔ سرحد پار سے در اندازی اور فوجی دستوں پر حملوں کے واقعات حقیقی خطہ قبضہ (لائین آف کنٹرول ) پر ہندوستان کی چوکسی پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ سرحدوں پر سخت چوکسی کے باوجود دہشت گرد کس طرح دراندازی میں کامیاب ہورہے ہیں۔ اس کا ہندوستان کو جائزہ لینا ہوگا۔

کشمیر جہاں بی جے پی کی تائیدی حکومت ہے، وہ کس طرح دہشت گردوں کیلئے راستہ فراہم کر رہی ہے۔ حالیہ دراندازی کیلئے بی جے پی بھی برابر کی ذمہ دار ہے کیونکہ وہ کشمیر میں اقتدار میں شریک ہے ۔  اور خاص طور پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں سے نمٹنے کیلئے اسرائیلی ٹکنک کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی ٹیکنک کا سرحد پر استعمال کیوں نہیں۔ ملک میں فسادات اور دیگر مواقع پر نیم فوجی فورسس کی زیادتیوں کی طویل تاریخ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف کارروائی میں سرگرم رہنے والی یہ فورسزسرحد پر دشمن کے خلاف بہادری کا مظاہرہ کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔

خارجہ پالیسی پر بھلے ہی کسی کا کنٹرول ہو لیکن وزیراعظم نریندر مودی کو امن کے نوبل انعام پر نظر رکھنے کے بجائے سرحدوں پر نظر رکھنی چاہئے ۔ دہشت گردی اور قومی سلامتی پر بی جے پی کے دوہرے معیارات اور قول و فعل میں تضاد پر منور رانا کا یہ شعر بے ساختہ ہمیں یاد آگیا۔
،چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پر جان دیتے ہیں ، بہت آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا

بشکریہ:روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا

Comments are closed.