احمد بشیر
گذشتہ ماہ لاہور میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اچانک رت بدل گئی اور صحرامیں پھول کھلنے لگے۔ لاہور صحرا نہیں تھا مگر سیاسی نظریہ سازوں نے اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر اس کو بانجھ کر دیا اور ہمیں یقین دلادیا کہ پاکستان میں صرف رسومات اور تعزیرات ہیں۔ علم و ثقافت تاریخ اور ترقی یہاں کوئی وجود نہیں رکھتی۔ پاکستان موسیقی کانفرنس کے میر کارواں نے بتایا کہ فلاں روز الحمرا ہال میں بھارت ناٹیم کا رقص دکھایا جائے گااور اس میں گورنربھی مدعو ہیں۔ اس دعوت نامے سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کام میں حکومت کی رضا بھی شامل ہے اور اس کے بغیر بھارت ناٹیم جیسے کافرانہ رقص کی اجازت نہ ملتی۔
ہمارے ہاں قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد یہی سکھایا گیا ہے کہ کتھک ناچ یا بھارت ناٹیم ناچ یا منی پور ی یا کتھا کلی ناچ یا اسی قسم کے دوسرے ناچ جو ہندوستان میں مروج ہیں حرام ہیں۔ ہندوستان کی ثقافت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ ہم کبھی اس کا حصہ بھی نہ تھے۔ یہ سب کچھ حرام ہے کیونکہ اس سے ہمارا اسلامی تشخص مجروح ہوتا ہے اور ہمارے اخلاق بگڑتے ہیں۔ مگر مجرا جائز ہے چاہے وہ ہیرا منڈی میں ہو چاہے فلم سٹوڈیو میں۔ پکاگانا بھی حرام ہے مگر کوٹھے کی گائیکی میں اسلام کاکچھ نہیں بگڑتا۔
دعوت نامہ پا کر یہ فقیر ہال میں پہنچا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہال میں ایک کرسی بھی خالی نہیں تھی۔ اگرچہ میرے خیال میں ہال میں شاید ہی کوئی شخص ہے جس نے بھارت ناٹیم دیکھا ہو۔ وہ اس طرح جھوم کر اس لیے آئے کہ یہاں ایک پھول کھلنا ہے جس کے بارے میں انھوں نے بہت کچھ سنا ہے۔مگر یہ بھارت ناٹیم پیش کرنے والی کون تھی؟ کیا کوئی جنوبی ہندوستانی ہندو لڑکی ؟ پاکستان میں تو اس کا وجود نہیں ہو سکتا۔ پیدا ہوتی تو زندہ دفن کر دی جاتی۔
پردہ اٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک سترہ اٹھارہ سال کی خوبصورت بچی ہے جیسے موتیے کا پاکیزہ پھول ہوا میں لہرائے۔ صوفیہ نام کی یہ بچی ہمارے انتہائی قابل احترام استادوں کے استاد، گارڈن کالج راولپنڈی کے ریٹائرڈ پرنسپل خواجہ مسعود کی پوتی ہے جو ان ونوں لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس کی طالبعلم ہے۔ ہمارے یہاں خیال پایا جاتا ہے کہ بھارت ناٹیم یا کتھک ناچ صرف ہندو رومانٹک تصورات اور ان کے بیان تک محدود ہے۔ نہیں جناب ان کے ذریعے حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی کیا جا سکتا ہے، سیاسی پیغامات بھی دیئے جا سکتے ہیں اور آپ کی میری ذاتی مصیبتوں کا احوال بھی سنایا جا سکتا ہے۔ ہندو رومان ان کی بنیادی اور لازمی تھیم نہیں ہوتی اور اتنی بھی نہ ہوتی جتنی کہ ہے اگر ہندوستان کا مسلم معاشرہ ان پڑھ مولویوں کے زیر اثر نہ ہوتا اور اجازت دیتا کہ رقص کے لیے اسلامی تصورات کی تصویر کشی بھی جائز ہے۔
اس پر لمبی بات ہو سکتی ہے مگر مجھے تو اس سفید تتلی کے رقص کا ذکر کرنا ہے جس نے پاکستانی ثقافت کو ووبارہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔ اس تجدید عہد کی سلامی مسز اندو مٹھا کے نام ہے جو ہمارے ریٹائرڈ جرنیل مٹھا کی بیگم ہیں انھوں نے رقص کے جگنو کو پچاس سال اپنی مٹھی میں بند رکھا اور زندہ رکھا۔ وہ غالبا خود زہرہ سہگل کی شاگرد ہیں ( اف ! کیسے زمانے یاد آگئے)۔ پاکستان کی تخلیق سے پہلے جب اس غریب شہر کا لڑکپن تھا تو اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کھاتا تو ایمپریس روڈ پر زہرہ سہگل کا ڈانس سکول تھا۔ان کی بہن عذرا ابھی تک بقید حیات اور لاہور میں مقیم ہیں۔میں نے انھیں شباب میں پرتھوی راج کے ساتھ ہیروئن کے روپ میں دیکھا تھا۔ وہ بوڑھی ہو چکی ہیں مگر اجوکا تھیٹر کے ڈراموں میں کام کرتی ہیں۔ ہندوستان کی مشہور ڈانسر کرن سہگل غالباً زہرہ کی بیٹی ہیں اور کوئی بیس برس پہلے لاہور میں رقص کر گئی ہیں۔
تو اس پیاری بچی کو اندو مٹھا نے ناچ سکھایا۔ اسی نے چھ آئٹم پیش کیے اور مختلف تالوں میں پیش کیے۔ اس پروگرام میں مختلف کیفیات پیش کی گئیں۔ جن میں سے مجھے صرف ایک آئٹم یاد رہ گئی ہے جس کا عنوان تھا ’’میں دکھی ہوں‘‘ اور دکھ کی جو شکلیں صوفیہ نے پیش کیں اس سے اندو مٹھا کے طرز احساس کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کے کمال فن کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ وہ خود ایک باکمال ڈانسر ہیں۔ مگر اب زیادہ تر بچیوں کو سکھاتی ہیں۔ ویسے بھی پچھلے پچاسی برس کے اندھیرے میں کسی چاند کے چمکنے کی کوئی صورت بھی نہ تھی۔ اے اندو مٹھا تیرا شکریہ۔ مگر اصل داد کے مستحق ہمارے دیرپا دوست خواجہ مسعود ہیں۔ جنہوں نے راولپنڈی میں عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں کے تعصبات کی پرواہ نہ کی اور پاکستان میں ثقافت کو تازہ خون دیا۔ صوفیہ کو بھی شاباش جس نے اتنی محنت کی اور ابھی اور کرے گی اور کھلے گی۔
یہ عاجز یہ گیان نہیں رکھتااور رقص کی باریکیاں بھی نہیں سمجھتا ۔ میں بھی اک چھوٹے قصبے کے مڈل کلاس روایتی گھرانے کا فرد ہوں۔ مگر جب میں نے صوفیہ کا رقص دیکھا اور اس سے پہلے اودھے شنکر ، گورورام چند اور لاہور میں پنڈت امرناتھ کے رقص دیکھے تو معلوم ہوا کہ کلاسیکی رقص اور راگداری عبادت کی طرح پاکیزہ ہوتے ہیں ان میں جسم کا ہر حصہ پوری طرح ڈھکا ہوتا ہے خدوخال چھپائے جاتے ہیں ۔ کوئی ٹھمکا نہیں لگایا جاتا۔ کوئی ایسا بھاؤ نہیں دکھایا جاتا جس سے دھیان رذالت کی طرف جائے ۔ ان کے بھید بھاؤبڑے بامعنی ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے محبت کے پیغام بھی دیئے جا سکتے ہیں مگر وہ دیکھنے والے کی سمجھ میں نہیں آتے۔ القصہ میں اسے ایک تاریخی موڑ سمجھتا ہوں۔
گورنر خالد مقبول نے آنے کا وعدہ کیاتھا۔مگر غالباً وہ جرات نہیں کر سکے کہ مولویوں کے اخبار پیچھے پڑ جائیں گے اور ان کو کام میں دقت ہوگی مگر خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی اخبار نے گلا نہیں کھنکارا۔ گویا دل میں سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان میں ثقافت جاندار ہونی چاہیے اور ہم لاکھ بچوں سے چھپائیں کہ کبھی اشوک ہمارا بادشاہ تھا۔ ہم نے مہاین بدھ مت کے ضابطے ٹیکسلا میں مرتب کیے ۔ چانکیہ کوٹلیہ پنجابی تھا۔ پولیٹکل سائنس کی پہلی کتاب ارتھ شاستر پاکستان کا افتخار ہے اور ہم کبھی ہندوستان کا تاریخی اور ثقافتی حصہ تھے مگر حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ آج دنیا ہندوستان کی ثقافتی عظمت کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہے۔ کیا اس عظمت کا غالب حصہ مسلمان تہذیب اور ہندو عوامی کلچر کا امتزاج نہیں۔
ہمارے آنے سے پہلے ہندو کو تو لباس پہننا بھی نہ آتا تھا۔ باغات فوارے اور گھروں کی تعمیرات مسلمانوں نے ایجاد ہیں۔ راگ رنگ کو منظم کیا اور اس میدان میں ہم نے ایسے کارنامے کیے کہ دنیا انگشت بدنداں ہے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ ٹیکسلا ہمارا، موہنجوڈارو، ہڑپہ راگ رنگ سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ صوفیاکی حیثیت تو ا س کے بغیر عرفان الہی حاصل نہ کر سکتے تھے۔ تاریخ نویسی ہم نے ہندوؤں کو سکھائی۔ اب ہم تاریخ سے منکر ہیں اور بچوں کو مطالعہ پاکستان کے نام سے جو کچھ پڑھاتے ہیں۔اس کا مقصد بھی اس کے کچھ اور نہیں کہ ہندوستان کو ہندوؤں کا ملک اور ہندوستانی ثقافت کوہندوؤں کی ثقافت قرار دے کر اس سے فاصلہ بڑھایا جائے۔
مگر ۱۹۴۷ تک تو ایسا نہ تھا۔ بھارت ناٹیم بنیادی طور پر جنوبی ہند کا ناچ ہے مگر لاہور میں اس کا سکول چلتا تھا اور سیکھنے والے سارے کے سارے پنجابی تھے۔ بھارت ناٹیم میں گریس بہت ہے۔ گریس کا اردو ترجمہ میرے لیے مشکل ہے۔ نفاست کہوں؟ توازن کہوں؟ حسن کہوں تسلی نہیں ہوتی ۔یہ صحیح معنوں میں اعصابی شاعری ہے۔ یہ جنوبی ہندسے مخصوص ہے۔ مگر یہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہندوؤں کے لیے مخصوص ہے۔ مسلمانوں کے آنے سے پہلے توہندوستان کو لے سر راگ ، راگنی کاپتہ نہ تھا۔ لے کاری تو ناچ کی بنیاد ہے وہ تو راگوں کے بغیر دریافت نہیں ہو سکتی تھی۔
اس لیے یہ کہنا کہ یہ ناچ بھارت کے قدیم مندروں میں رواج پایا تاریخی طور پر غلط ہے۔ بھارت ناٹیم اور کتھک ناچ دونوں ہی سٹائل اٹھارویں صدی میں منظم ہوئے جب مغلیہ سلطنت کی مرکزیت زوال پذیر ہوئی اور علاقوں کو آزادی اظہار کا موقعہ ملا۔ یہ جو غاروں میں بت موجود ہیں ان کے آسن ڈانس کے آسن نہیں بلکہ یوگا کے آسن ہیں اور یوگا اورآیورویدک طریق علاج اور بام واری عقیدہ تصوف جس میں وارث شاہ یقین رکھتا تھا سب پنجاب یعنی پاکستان کی دین ہیں۔
پاکستان سے پہلے لاہور میں کتھک کے استاد پنڈت امرناتھ تھے۔ کتھک بنیادی طور پر ازبکستان کا فوک ڈانس تھا جسے مرد سپاہی اور کسان خوشی کے موقعے پر ناچتے تھے۔ بابر کے ساتھ یہ ڈانس ہندوستان میں آیا اور ہندوستان کی فضا میں اس کی شکل بدلنی شروع ہوئی۔ پھر جب مغل اپنی حسن پرستی میں محو ہو گئے ، تعمیرات بنا چکے۔ مصوروں کو کمال فن کی داد دے چکے، گویوں کے منہ موتیوں سے بھر چکے تو کتھک ناچ عورتوں نے سیکھ لیا اور اس میں نئے نئے انگ بھاؤ نکالے۔ جن میں شوخی اور مستی ابھر آئی مگر تہذیبی رکھ رکھاؤ برقرار رہا اور اس میں جب مرد عورت مل کر بھی ناچتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے۔ لباس جسموں کے بھید چھپا کر رکھتا ہے۔ کہانی کہی جاتی ہے مگر نہایت راز داری کے ساتھ۔ اس کی حرکات میں کچھ بھی اخلاق سے گرا ہوا نہیں ہوتا۔
جن زمانوں میں اس فن نے ترقی کی ان میں جے پور، لکھنو اور لاڑکانہ اس کے مراکز تھے۔ لاڑکانہ کی ڈانسر مہتاب کاذکر رچرڈ برٹن نے بڑے چاؤ سے کیا ہے ۔ اس فن کے آخری بڑے ماہر نواب واجد علی شاہ تھا۔ پھر یہ فن کیسے ہندواور اجتناب کے لائق ہو گیا۔ جب مجرے پر کوئی مولوی ناک بھوں نہیں چڑھاتا جو ہے ہی پست اور رذیل،جذبات کو ابھارنے والا۔
ایک اور ناچ منی پوری ہے جس میں لباس نہایت کھلا اور خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کا تعلق مشرقی ہندوستان کے علاقے منی پور سے ہے۔ جب تک مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہیں ہوا تھا اس کا رواج رہا اور اس عاجز نے جو ناکام فلم بنائی اس میں اس کے مناظر بھی ہیں۔ یہ عورتوں کا ناچ ہے اور وہ زیادہ تر چکر کاٹتی گھاگھروں کے گھیروں کو لہراتی اور ہاتھوں اور انگلیوں سے دلوں کے بھید بتاتی ہیں۔ مگر کوئی سفلی حرکت اس ناچ کو گوارا نہیں۔ مجیرا اس میں خاص طور پر بجتا ہے۔
ہم نے جو کچھ دیکھ لیا آپ نہ دیکھیں گے۔ مگر لوٹ کر اپنی صورت تو دیکھیے۔آپ ایک عظیم ورثے کے مالک ہیں۔آپ تاریخ اور ثقافت سے منہ نہ موڑیئے۔ پچھلے پچاس برس میں جب تاریخ اور ثقافت سے انکار شروع ہوا۔آپ نے کیاپیدا کیاہے۔ پینٹنگ میں اللہ رسول کے ناموں کی کتابت اور مصوری ۔ مگر گویے سازندے بھوکے مر گئے۔ کچھ ملک چھوڑ گئے ایک بڑے خاندان کا بڑا قابل گویا امریکہ کے ایک ہوٹل میں بیرا ہے۔ سارنگی نواز موت کی نیند سو گئے۔ اور بڑے گویوں کے بیٹے پاپ میوزک میں پڑ گئے کیونکہ بے توفیق امیر زادیاں فورا تالی بجانے لگتی ہیں اور پیسہ مل جاتا ہے۔ پہلوان ختم ہوگئے۔ کتھک ناچنے والی ناہید صدیقی ملک بدر ہے۔ اندو مٹھا چھپ چھپ کر چراغ جلاتی ہے۔ شیماکرمانی کراچی میں سوگوار کھڑی ہے۔
بھارت ناٹیم کا شو بہار کی آمد ہے شاید ہماری نیم مردہ زمین شاداں ہو جائے۔ اے صوفیہ تم ایک نیا پھول ہو ۔ تم کھلو تو یہ ملک بھی کھلے۔ اے خواجہ مسعود اپنی روح کو تابندہ رکھنا۔
**
( نیا زمانہ ،مارچ ۲۰۰۲)
3 Comments