پاکستان کی تاریخ ،چند سوالات

1962_war_pic_4
پاکستان’یوم دفاع‘ اور 1965میں ہوئی پاک بھارت جنگ کی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات منارہا ہے ۔گذشتہ کئی روز سے پاکستانی میڈیا لوگوں کو بتارہا ہے کہ پاکستان نے یہ جنگ جیتی تھی لیکن معروف مورخ اور پولیٹکل اکانومی کے استاد ڈاکٹر اکبر۔ ایس زیدی جیت کے ان دعاوی کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ ستمبر میں پاکستان کی جیت کا دعوی محض ایک متھ ہے او ر عوام کو اس حوالے سے جو کچھ بتایا جارہا ہے زمینی حقائق اُس سے یکسر مختلف ہیں۔

وہ پاکستان کی جیت کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسی جیت تھی جس کی بدولت پاکستان کے 650 مربع میل رقبے پر بھارتی افواج کا قبضہ ہو گیا تھا ۔درحقیقت اس سترہ روزہ جنگ میں پاکستان کو بری طرح شکست ہوئی تھی ۔پاکستانی عوام اس حقیقت سے آگا ہ نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تاریخ معروضی انداز میں نہیں بلکہ نظریاتی نکتہ نظر سے پڑھائی جاتی ہے ۔ڈاکٹر اکبر ۔ایس زیدی کراچی یونیورسٹی میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طلبا اور طالبات سے خطاب کررہے تھے ۔ان کے لیکچر کا عنوان تھا :پاکستان کی تاریخ ،کچھ سوالات ۔

ڈاکٹر زیدی کا کہنا تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا کو پاکستان کے مختلف خطوں اور علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی تاریخ پڑھانے کی بجائے ہمارافوکس محض قیام پاکستان کی تاریخ پر ہے ۔

انھوں نے اپنے لیکچر کاآغاز پاکستان کی تاریخ کے بارے میں کچھ سوالات اٹھا کر کیا ۔پاکستان کی تاریخ سے کیا مراد ہے؟ کیا پاکستان کی تاریخ کے بارے میں سوالات اٹھانے کی ضرورت ہے ؟

اور ایک اہم اور بنیادی سوال یہ کہ پاکستان کا قیام کب عمل میں آیا تھا ؟14۔اگست 1947کو یا 15۔اگست 1947کو؟ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ تو ایسے سوالات ہیں جو 68سال قبل ہی طے ہو چکے ہیں ۔

یہ حقیقت بہت دلچسپ ہے کہ ہم ایسے تاریخی واقعات کے بارے میں سوالا ت اٹھارہے ہیں جن کے بارے میں ہمیں باور کرایا گیا ہے کہ یہ بہت پہلے یعنی قیام پاکستان کے ساتھ ہی طے ہو چکے ہیں اور از سر نو ان کے بارے میں تحقیق اور چھان پھٹک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔یہ سوالا ت ہنوز موجود اور آج بھی جواب طلب ہیں۔اور یہ کہنا کہ یہ سوالات طے ہوچکے ہیں غلط اور گمراہ کن ہے ۔

جوں جوں نئے حقائق سامنے آتے اور نئی معلومات آشکار ہوئی ہیں ان سوالات کے نئے جوابات سامنے آتے ہیں ۔ان سوالات کی نئی توجیح اور تعبیر سامنے آتی ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ کبھی نہیں مرتی ۔یہ بظاہر تسلیم شدہ حقائق اور سچائیوں پر سوال اٹھاتی ہے اور بدلے ہوئے حالات میں ان کے نئی معانی تلاش کرنے کی سعی کرتی ہے اور اسی میں تاریخ کی زندگی کا جوہر پوشیدہ ہے ۔

یہ سوال کہ پاکستان کب بنا تھا کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ اس سوال کا سیدھا اور سادہ جواب تو یہ ہے کہ 14۔اگست 1947کو ۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے مطالعہ پاکستان کی ایک درسی کتاب سے ایک اقتباس پڑھ کر حاضرین کو سنایا جس کے مطابق پاکستان کا قیام 712 عیسوی کو ہوا جب عربوں نے محمد بن قاسم کی قیاد ت میں سندھ اور ملتان کو فتح کیا تھا ۔’یہ دعوی بالکل فضول اور تاریخی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے ‘۔ڈاکٹر زیدی نے کہا ۔

درسی کتابوں کے دعاوی کو مسترد کرے ہوئے ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پہلے پہل عربوں اور بعد ازاں مسلمان عربوں کے ساتھ جنوبی ہند کے علاقے جسے ہم آج کل بھارت کی ریاست کیرالہ کہتے ہیں ،کے لوگوں سے تعلقات ہزاروں سال سے تھے اور ان تعلقات کی نوعیت مذہبی سے زیادہ تجارتی تھی۔

ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ ہمارے کچھ دانشور قیام پاکستان کی جڑی دہلی سلطنت اور مغل سلطنت میں تلاش کرتے ہیں ۔انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ ہندوستا ن کی وہ جغرافیائی شکل وصورت جو برطانوی عہد حکومت میں تھی وہ مغل عہد سے قطعی مختلف تھی ۔قومی ریاست کا تصور انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ابھرا ۔ مغل عہد میں قومی ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا اور ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا ۔ کچھ دانشور قیام پاکستان کا سہرا سر سید احمد خاں کے سر باندھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلم علیحدگی پسندی کی بنیادیں سرسید نے رکھی تھیں ۔

ڈاکٹر زیدی اس بات کو جزوی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں کیونکہ بقول ان کے سرسید اس بات پر زور دیتے تھے کہ مسلمان بطور کمیونٹی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے متحد اور متحرک ہوں لیکن سر سید یہ بھی کہتے تھے کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن کی مانند ہے اور مسلمان اور ہندو اس دلہن کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں ۔کسی ایک آنکھ کے کمزور ہونے سے دلہن کی خوبصورتی گہنا جائے گی ۔

مارچ 1940 کی قرار داد لاہور ہندوستان کے آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے مسلمان اپنے حقوق اور اپنی علیحدہ حیثیت منوانے چاہتے تھے یہ کوئی علیحدہ ملک کے قیام کی قراردا د نہیں تھی ۔ڈاکٹر زیدی نے کہا ۔

پھر ڈاکٹر اکبر ایس زیدی نے بحث کا رخ اس سوال کی طرف موڑا کہ ؛کیا پاکستان کی تاریخ پاکستان کے لوگوں کی تاریخ ہے یا یہ قیام پاکستان کی تاریخ ہے ؟انھوں نے کہا کہ جہاں تک وہ جانتے ہیں پاکستان میں تاریخ کے نام پر جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں مغل سلطنت، جد و جہد آزادی بالخصوص مسلم لیگ اور مسلم علیحدگی پسندی ، قائد اعظم کی زیر قیادت آل انڈیا یونین مسلم لیگ اور اس کی جد وجہد وغیرہ کے بارے میں مواد شامل ہے ۔

لیکن جہا ں تک تعلق ہے اس خطے کے رہنے والے لوگوں کی تاریخ کا اس بارے میں ہمارے ہاں تاریخی مواد پڑھانے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے ۔ بلوچوں اور پختونوں کی تاریخ کے بارے میں ہمارے تعلیمی اداروں میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا ۔پاکستان کی تاریخ کو ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ ہم پنجابیوں ، بلوچوں ، سندھیوں وپختونوں اور دیگر لسانی اور نسلی گروہوں کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کرتے ۔ہم شاہ عبد للطیف بھٹائی اور دھرتی سے ان کے تعلق کے بارے میں جانے بغیر پاکستان کی تاریخ کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس بنا پر شرمندگی محسوس کرتے تھے کہ وہ سندھ کی تاریخ کے بارے میں بے خبر تھے ۔صدیوں سے اس سرزمین پر بسنے والوں کی تاریخ کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس وقت ہمیں جن سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے ان کو سمجھنے اور حل کرنے کے یہ مطالعہ بہت ضروری ہے ۔ مقامی لوگوں کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں ان مسائل کو بہتر اور موثر انداز میں حل کرنے کے قابل بناتا ہے ۔

اپنے اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر زیدی نے مشرقی پاکستان کی مثال دی ۔انھوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کو ہماری اجتماعی یاداشت سے مٹا دیا گیا ہے ۔ بنگالی غدار تھے ، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کی فوجی مداخلت نے کردار اد کیا یہ ہے وہ بیانیہ جو ہمیں یاد کرایا جاتا ہے لیکن ہماری فوج کا کردار کیا تھا اس بارے میں مکمل خاموشی اختیا ر کرلی جاتی ہے ۔

ڈاکٹر اکبر ۔ایس زیدی کے مطابق بہت سی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں تاریخ سے بہت برا سلو ک کیا گیا ہے ۔طلبا کو تاریخ اور مطالعہ پاکستان بطور لازمی مضمون پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے چنانچہ ان مضامین سے طلبا کی دلچسپی محض امتحان پاس کرنے تک ہوتی ہے اور ان سے وہ جلد از جلد جان چھڑانا چاہتے ہیں اور تاریخ کے نام پر ہمارے ہاں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ سماجی تاریخ کی بجائے حکمرانوں اور جنرلوں کی فتوحات کے قصے ہوتے ہیں ۔

تاریخ سے ہونے والے ناروا سلوک کی ایک اور اہم وجہ ڈاکٹر زیدی کے نزدیک یہ ہے کہ عام طور پر وہ طلبا تاریخ کا بطور سبجیکٹ انتخاب کرتے ہیں جو یونیورسٹیوں کے دوسرے شعبوں میں داخلہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔

ڈاکٹر اکبر ایس زید ی کے لیکچر کے بعد سوال و جواب کا بھرپور سیشن ہوا جس میں طلبا اور فیکلٹی کے ارکان نے حصہ لیا ۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہمیں مسخ شدہ تاریخ کیوں پڑھائی جارہی ہے ؟پاکستان کے بڑے شہروں،کراچی ،لاہور اور پشاور وغیرہ کی تعمیر و ترقی میں اقلیتوں نے جو کردار ادا کیا اس کا ذکر ہماری درسی کتب میں کیوں موجود نہیںِ ؟

یہ کیوں ہے کہ ہمیں ایک سے زائد شناختی ٹوپیاں پہننا پڑھتی ہیں ؟کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے شناختی بحران سے نکل آئیں اور ہم ایک پاکستانی قوم تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں۔

ڈاکٹر زیدی نے ان سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پارسیوں اور ہندووں نے کراچی کی تعمیر اور ترقی میں بہت اہم کردار اد کیا ۔ کراچی میں بہت سے تعلیمی اور صحت عامہ کے اداروں ان دو کمیونٹیوں کی مساعی کے مرہوں منت ہیں ۔ اسی طرح لاہور اور پنجاب کو ہندووں اور سکھوں نے بہت کچھ دیا ۔پاکستان میں تاریخ نظریاتی زاویے سے پڑھائی جاتی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کو ایک جغرافیائی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔مسخ شدہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ ہم جنگ ستمبر میں فتح منانے کے لئے تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں لیکن اس سے بڑا کوئی جھوٹ کوئی ہو نہیں سکتا کہ ہم نے یہ جنگ جیتی تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم 1965کی جنگ بری طرح ہار گئے تھے ۔انھوں نے شر کاء سے اپیل کی کہ وہ اس ضمن میں شجاع نواز کی کتاب کراسڈ سورڈ کا مطالعہ کریں ۔اس کتاب میں بہت حد تک جنگ ستمبر اور فتح شکست کا حقیقت پسندانہ اور معروضی تجزیہ کیا گیا ہے ۔

جہاں تک مختلف شناختوں کو ختم کرکے ایک شناخت بنانے کا سوال ہے تو ڈاکٹر زیدی نے اس سے اتفاق نہیں کیا ۔ ان کا موقف تھا کہ میں بیک وقت ہندو،سندھی اور پاکستانی ہو سکتا ہوں ۔انھوں نے اپیل کی کہ پاکستان میں قومیتی تنوع کو تسلیم کیا جائے اور عوام پر قوم اور قومیتی شناخت زبر دستی مسلط نہ کی جائے ۔**

بشکریہ روزنامہ ڈان ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

2 Comments