آصف محمود
کیا روشن خیالی صرف فکری آوارگی کا، جام و سبو سے جی بہلانے کااور دوسروں کی دل آزاری کا نام ہے؟یہ سوال مجھے ہر اس شخص سے پوچھنا ہے جو خود کو روشن
خیال اور سیکولر کہتا ہے اور وضع اور اقدار سے ابھی مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوا۔
شعیب عادل کا ’ نیا زمانہ‘ پڑھ رہا ہوں اورسوچ رہا ہوں یہ روشن خیالی کی ترجمانی ہے یا خبثِ باطن کی؟
مبینہ طور پر اس روشن خیال شمارے میں کسی برطانوی ادارے کی ایک تحقیق پورے اہتمام سے شائع کی گئی ہے اور ہمیں بتا یا گیا ہے کہ برطانیہ میں ایک قرآن پاک کا ایسا نسخہ ملا ہے جو نبی رحمت ﷺ کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہو سکتا ہے۔( نعوذ باللہ۔ نقلِ کفر کفر نہ باشد)۔
خبر میں، آگے لکھا ہے: ’کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اسلام کا آغاز کب ہوا تھا،تاریخی طور پر اس میں ابہام پایا جاتا ہے۔کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہو سکتا ہے اسلامی تاریخ پر نظرِ ثانی کی جائے‘۔
کہنے کو یہ ایک خبر ہے اور مدیر محترم کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تو ایک برطانوی تحقیق پیش کی ہے اور ساتھ ہی برطانیہ میں شائع ہونے والی خبروں کا لنک بھی دے دیا ہے اس لیے اس میں کیا مضائقہ ہے۔لیکن میرے نزدیک یہ محض ایک خبر کو آگے روایت کرنے کا مسئلہ نہیں ہے، یہ سیکولر حضرات کے خبثِ باطن کا اظہار بھی ہے۔
ہمارے ہاں سیکولر حضرات ایک نفسیاتی عارضے کا شکار ہو چکے ہیں۔یہ مذہب اور مذہبی اقدار کی توہین کو روشن خیالی سمجھتے ہیں۔ یہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کہاں لوگوں کے مذہبی جذبات کی توہین کر سکیں۔یہ فخر سے کہتے ہیں ’مذہب ہمارا مسئلہ نہیں‘ چنانچہ ان کی گفتگو میں ، ان کی تحریروں میں اور ان کی تقاریر میں مذہب کا حوالہ شجرِ ممنوع ہے۔لیکن جہاں انہیں کوئی ایسی بات ملے جس سے مذہبی اقدار کا تمسخراڑایا جا سکے، محکمات کے بارے میں شکوک پیدا کیے جا سکیں مذہب سے وابستہ لوگوں کی دل آزاری کی جا سکے یا مذہب کے بارے میں کوئی بے ہودہ اور لایعنی گفتگو کی جا سکے تو پھر یہ پورے اہتمام سے اس پر بات کرتے ہیں۔گویا مذہب ان کا مسئلہ نہیں لیکن مذہبی اقدار کا تمسخر اڑانا ان کا مشغلہ ضرور ہے۔
شعیب عادل کے اس جریدے میں مذہب کبھی جگہ نہیں پا سکا ہو گا، نہ ہی کبھی مذہب پر اس میں کوئی سنجیدہ تحریر چھپی ہو گی،کیونکہ یہ ’ روشن خیال ‘ ہیں اور مذہب ان کا شاید مسئلہ نہیں ہے لیکن اسی مذہب کے بارے میں جب ایک انتہائی بے ہودہ اور لغو چیزسامنے آئے تو انہوں نے اپنے جریدے میں اسے اہتمام سے شائع کر دیا۔کیونکہ مذہب اور اس سے وابستہ ہر شے کی جب تک یہ حضرات توہین نہ کر لیں ان کی روشن خیالی کو قرار نہیں آتا۔
ایک مبینہ روشن خیال انسان کو چند چکر واشنگٹن ڈی سی کے لگا کر اپنے مذہب کی مبادیات کو تو نہیں بھولنا چاہیے۔شعیب عادل ایک صاحب علم باپ کے بیٹے ہیں ، کیا انہیں معلوم نہیں قرآن کب نازل ہوا؟کس پر نازل ہوا؟ کیا وہ اس سے لا علم ہیں کہ ایک ایک سورہ مبارکہ کی شانِ نزول پر اہل علم کی کتنی تحقیق موجود ہے؟ کیا انہیں زیبا تھا کہ سب کچھ جانتے ہوئے ایک فضول بات کو اپنے جریدے میں چھاپ دیتے۔
وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں برطانوی ادارے کی اس فضول تحقیق کا علم کی دنیا میں کوئی اعتبار ہو سکتا ہے۔ مغرب تحقیق کے نام پر جو توہین کرتا رہے گا، کیاآپ اسے اہتمام سے شائع کرتے رہو گے؟ ان حضرات کے اداروں میں چھان پھٹک کا ویسے تو بہت سخت نظام ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی چیز کو شائع کرنے سے پہلے اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں لیکن جب اسلام کی توہین اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کا انہیں موقع ملتا ہے یہ اپنے سارے اصول بھول جاتے ہیں ۔
کیوں؟ کیا اس لیے کہ مذہب اور مذہب سے وابستہ جذبات کی توہین ان کے ہاں ایک اصول کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر کل کو بھائی پھیرو سے شعیب عادل کو امریکہ میں کوئی ایس ایم ایس جائے کہ صاحب تم پروفیسر رفیع اللہ شہاب کے نہیں، ساؤتھ افریقہ کے بشپ ڈیسمنڈ ٹو ٹوکے بیٹے ہو تو وہ اس کو ایک علمی تحقیق قرار دے کر اس پر غوروفکر کرنا شروع کر دیں گے یا اسے ایک گالی سمجھیں گے؟
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی رحمت ﷺ سے ہم مسلمانوں کی محبت کا عالم کیا ہے۔ نام مبارک لبوں پر بعد میں آتا ہے عقیدت اور احترام سے پلکیں پہلے نم ہو جاتی ہیں۔کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑی گالی اور اس سے بڑی دل آزاری کوئی نہیں ہو سکتی کہ نبی رحمت ﷺ کی شانِ اقدس سے فروتر بات اس تک پہنچے۔یہ کون سی روشن خیالی ہے، کون سا ہیومنزم اور کہاں کاسیکولرزم ہے کہ آپ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی توہین کر رہے ہیں۔
یہ سیکولر، لبرل اور روشن خیال لوگ بظاہر اعتدال پسندی کے علمبردار ہیں لیکن شعوری طور پر یہ ہر مذہبی قدر کو پامال کر دینا چاہتے ہیں۔یہ طے کر چکے ہیں کہ مذہب کی ہر نشانی کو ختم کیے بغیر یہ اپنی خواہشات کے مطابق معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے، انہوں نے مذہب سے وابستگی کو انتہا پسندی سمجھ رکھا ہے۔چنانچہ یہ ایک نئی شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔
یہ خود کو انسانیت اور اعلی انسانی قدروں کا ترجمان کہتے ہیں۔یہ انسان تو رہے، ایک طرف جانوروں تک کے حقوق کے لیے پریشان رہتے ہیں۔یہ امن و آشتی کی بات کرتے ہیں۔ یہ کسی کا دل دکھانے کے قائل نہیں۔یہ سب کے جذبات اور خیالات کے احترام کی بات کرتے ہیں۔یہ متشدد رویوں کے خلاف ہیں۔ یہ بقائے باہمی کے اصولوں پر معاشرت کی تشکیل چاہتے ہیں۔ لیکن جب بات مسلمانوں اور اسلام تک آن پہنچے تو(چند ایک مستثنیات کے ساتھ) ان کی انسان دوستی ختم ہو جاتی ہے، ان کے لہجے کی مٹھاس دم توڑ دیتی ہے،ان کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، ان کے نتھنے پھولنے لگ جاتے ہیں، ان کے گلوں سے غراہٹ نکلنا شروع ہو جاتی ہے، ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں اور بالآ خر یہ پل پڑتے ہیں۔
سوال وہی ہے: کیا روشن خیالی صرف فکری آوارگی کا، جام و سبو سے جی بہلانے کااور دوسروں کی دل آزاری کا نام ہے؟یہ سوال مجھے ہر اس شخص سے پوچھنا ہے جو خود کو روشن خیال اور سیکولر کہتا ہے اور وضع اور اقدار سے ابھی مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوا۔
بشکریہ: روزنامہ نئی بات، لاہور، و دنیا نیوز لاہور
6 Comments