کے بی فراق
بلوچستان کے حوالے سے عصری تناظر کی بنیاد کو لئے لکھاجانے والا ادب ،آرٹ, فلم اور صحافتی تحریر اپنا ایک پس منظر و پیش منظر رکھتی ہے۔ یہ بات کہنا تو آسان ہے کہ پورا سچ بلوچ لیکھک ہی کیونکر نہیں لکھ سکا یا لکھ رہاہے۔ جنھوں نے پورا کیا آدھا سچ بھی کمٹمنٹ کے ساتھ لکھا اُن میں سے خاصی اہم لیکھک اُس لفظ کی حُرمت اور مٹی کی محبت میں نذر ہوچکے جبکہ بہتوں کے لئے زندگی کسی بھی طرح اذیت کوش آزار سے کم نہیں۔ جن میں سے بہتوں کی زندگیاں کسی بھی طرح خطرے سے خالی نہیں ۔
جن لوگوں نے لکھ کر اپنی وجود کا نذرانہ دیا اس سلسلے میں بلوچستان کے اہم اسکالر, ادیب, لغت نویس, دانشور, بلوچی اکیڈمی کے سابقہ چیئرمین اور روزنامہ آساپ کے ایڈیٹر انچیف جان محمد دشتی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور اس حملے میں اُن کی جان تو بچ گئی لیکن اُس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی اور روزنامہ آساپ پر شب خون مارکر ہمیشہ کے لئے بند کیاگیا۔.
بلوچی زبان و ادب کے معتبر اسکالر, ادیب,افسانہ نگار, انسائیکلوپیڈیا بلوچستانیکا کے محرک و موئلف, شاعر,سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کے بانی اور جامعہ بلوچستان کے پروفیسر صبادشتیاری پر قاتلانہ حملہ کرکے اس کو اس سچ کی پاداش میں شہید کیا گیا۔
بلوچستان کے معروف وکیل و دانشور ایڈوکیٹ حبیب جالب کو بھی اسی راہ کا رائد جان کر شہید کیا گیا کیونکہ وہ حقوق پر بے رہا بولتاتھا.روزنامہ توار کے نوجوان مُدیرو صحافی جاوید نصیر کو پہلے اغواء کرنے کے بعد پھر اُس کی لاش کو مسخ کرکے کسی ویران مقام پر پھینک کر شہید کیا گیا اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ روزنامہ توار کے. کالم نویس, صحافی اور سماجی کارکن حاجی رزاق سربازی کو بھی اپنے لفظوں کی پاداش میں اغواء ہونا پڑا اور بعدازاں اس کی مسخ شدہ لاش بلوچ قوم اور لواحقین کو دی گئی۔
بلوچی ادب کے معروف شاعر و ادیب رحمان عارف کو اغواء کرکے پھر اس کی لاش کسی ویران جگہ پر سڑک کنارے ایک اور ساتھی کے ساتھ پھینک کر شہید کی گئی۔نصیرکمالان ایسے بزرگ شاعر کو بھی اُن کے ایک انسانی حقوق کے کارکن و صحافی دوست صدیق عیدو کے ساتھ عدالتی پیشی کے بعد اُٹھایا گیا اور دونوں کی لاشیں پھینک دی گئیں جبکہ نصیر کمالان سفید ریش ہونے کی صورت میں اس کی داڈھی پر کالا رنگ پھیر کر جوان ظاہر کیا گیا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ساٹھ سالہ بزرگ کو بھی نہیں بخشا گیا. اور اُن کو بھی شہید کیا گیا۔.
نوجوان صحافی و رپورٹر لالہ حمید کو اغواء کرنے کے بعد پھر اس کی لاش پھینک دی گئی…الیاس نذر جوکہ ایک بچوں کا ادبی رسالہ “درونت“نکالتے تھے اور بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے کو بھی غائب کرکے پھر شہید کیا گیا۔ارشاد مستوی ایسے فعال صحافی و شاعر پر قاتلانہ حملہ کرکے شہید کیا گیا۔
اِس جاری آپریشن میں ریاستی جبروتشدد کے شکار شہدائے بلوچستان کے چند ایک شہداء کے نام لکھ دیئے ہیں ویسے ان کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے. کیونکہ یہاں
تو آئے دن اُٹھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے.اور پاکستان کا قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اُن کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
آپ کا یہ پوچھنا کہ وہاں کے ادیب و شاعر اور فنکار صحافی کیا کچھ لکھ رہے ہیں تو عصرِحاضر میں بلوچی کے نمائندہ و جدید شاعر مبارک قاضی نے لکھا اور اُس کو جیل ہوئی, رہائی کے بعد اب بھی لکھ رہے ہیں ,ڈاکٹر حنیف شریف نے کہانیاں لکھیں تو اس کو ریاستی تشدد کا شکار ہونا پڑا اور اب کے بلوچی میں فلمیں بنارہے ہیں جس میں “بالاچ“اور “بلوچستان ہوٹل“خاصی اہم ہیں۔
عندلیب گچکی نے کہانیاں لکھیں اور اسکی کہانیوں کی کتابوں کو ریاستی اداروں نے بک. اسٹال پر چھاپے مارکے اُن کی کتابوں کو اپنی تحویل میں لے لیاجس میں بلوچستان و دیگر موضوعات پر لکھی گئی اور کتابیں بھی ضبط کی گئیں.جبکہ کتابوں کی دکان کے مالکان کو ریاستی عتاب کا سامنا ہے۔
اس سلسلے میں میوزک سنٹر کی دکانوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور ان پر چھاپے اور تشدد کی گئی. میجر مجید کی نظموں پر مشتمل کتاب کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔ اب کے ان کی کتابیں اس ڈر سے بک اسٹال میں دکھائی نہیں دیتیں،کہیں سامراج کے کاسہ لیسوں کی نظر نہ پڑے اور اس بیچ کوئی زد میں نہ آئے.
اِن دنوں بلوچی اردو انگریزی میں بہت کچھ لکھا جارہاہے۔ آپ جس تخلیقی معروضیت کا تقاضا کررہے ہیں اُس کے لئے جمالیاتی فاصلہ درکار رہتاہے. البتہ چند ایک کے ہاں یہ امکانی پہلو تخلیقی تجربے کی صورت دکھائی دیں گی. ویسے بھی وہ جس آگ میں جل بُھن رہے ہیں اُس میں سے نکل کے پھر قُقنس کی طرح اُٹھ کے زندگی آموز کردار تخلیق کر جائیں۔
اس سلسلے میں مبارک قاضی,منیر مومن, غنی پہوال, منظوربسمل, قاسم فراز, نوشین قمبرانی, عظمیٰ قادری بلوچ, عندلیب گچکی (افسانے )ڈاکٹرحنیف شریف (افسانے و فلم )انور غلام (فلم )میر محمد علی تالپور (صحافت )ملک سراج اکبر,عابد میر,جاوید سعید, ڈاکٹر شاہ محمد مری,صورت خان مری, ڈاکٹر نصیر دشتی ,ثنابلوچ , آغاگل (افسانے)نودبندگ بلوچ ,حفیظ حسن آبادی,نائیلہ قادری ,اور بلوچ مصوروں میں نوجوان مصور نذیر احمد کے آرٹ دیکھنے لائق ہیں۔
انکا ایک سولو ایگزیبیشن بھی منعقد ہواجس میں آرٹ کے شائقین نے خاصی دلچسپی ظاہر کی اور اُن کے آرٹ اچھی قیمت میں لئے گئے. لیکن جس کو سمجھنے کے لئے عمومی طور پر کچھ اور کا تقاضا کرتاہے۔
مَیں نے جن دو اخبارات کے لئے لکھا اُن میں دونوں کی شہادت واقع ہوچکی ہے۔البتہ ایک صرف ای شکل میں نکل رہاہے لیکن عام لوگوں کی رسائی میں نہیں رہے۔اب کے میرے شبد کبھی کبھار یہاں کی میگزین میں چھپا کرتے ہیں اور کبھی لکچرز دینے کا موقع ملتاہے تو لکچرز کی صورت لوگوں تک اپنی بات پہنچاتاہوں ۔
مسنگ پرسنز پر سمینار کرکے اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر بات کرنے کے لئے اہلِ علم کو دعوت دی تاکہ صورتحال کا بڑی معروضیت کے ساتھ تجزیہ کیا جاسکے. اور مَیں نے عصری صورتحال کی بابت بڑی تواتر سے مضامین بھی لکھے اور احتجاجی جلوس میں پریس کلب کے آگے خطاب بھی کیا تاکہ ایک ادنیٰ قلم کار کی حیثیت سے اِن حالات میں اپنی آواز کسی بھی طرح شریک کرتاچلوں جس میں اس خاکسار نے اپنوں میں بھی پریشانیاں اُٹھائی کیونکہ بعض اوقات اُن کے موافق بول نہیں پایا اور معاملات کا بڑی باریکی و معروضیت کے ساتھ تجزیہ کیا تو میرے لیے پریشانیوں ومسائل کے پہاڑ کھڑے ہوتے گئے ۔
اسی طرح روشِ عام سے ہٹ کر ریاستی معاملات پر رائے زنی کی تو اس پر بھی صورتحال ناگفتہ بہ رہی. جب بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی دیکھتاہوں تو مجھے اُس وقت کے چلی کے ڈکٹیٹر جنرل پنوشے یاد آتے ہیں جنھوں نے چلیئین ایکٹیوسٹ کو اسی طرح اُٹھاکے غائب کیا اور پھر اُن کی لاشیں پھینک دیں.جس کو ہم اس وقت بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں۔
جبکہ مسنگ پرسن کا نقطہءآغاز تو ہم نے بھٹو دور کے وقت اسداللہ مینگل اور احمدشاہ کُرد کی صورت میں دیکھا جن کا آج تک کوئی پتہ نہیں. آخر میں روسی ادب کے جینوئن فکشن رائٹر الیکزنڈر سولزنستن کی اِن شبدوں کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ
I have a clear conscience because I have fulfilled my duties as a writer. Nobody can bar the road to truth. I am prepared to die for it’s advance.