بلوچستان لبریشن چارٹر

maxresdefault

بلوچستان لبریشن چارٹرکو بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے دیگر بلوچ قوم دوست دانشوروں کی مدد و مشاورت سے تربیت دیا اور اسے بلوچ سیاسی جماعتوں اور بلوچ عوام کے سامنے مزید ترمیم کیلئے پیش کیا۔

دیباچہ

بلوچوں کے آبائی وطن کو بلوچستان کہا جاتا ہے لیکن آج تک بلوچ اپنے وطن کے مالک نہیں ہیں۔ اذیت رساں واقعات کا ایک سلسلہ جو انیسویں اور بیسویں صدی کی فاتحانہ سامراجی جنگوں سے کسی طرح بھی کم نہیں نے بلوچستان کے قدرتی فروغ کو مسخ کیا اور بلوچوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے سے روکے رکھا۔
تاہم بلوچستان کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن لمحہ 1666ء تھا، جب مختلف بلوچ اتحادیوں کو اکٹھا کیا گیا اور ایک بلوچ قومی ریاست تشکیل دی گئی۔ قومی اتحاد کے اس لمحے سے، بلوچ قوم نے اپنے ہمسایوں اور دیگر سے باہمی سفارتی تعلقات استوار کیے۔
بلوچستان کی تاریخی اور سماجی سیاسی سرحدیں اٹھارویں صدی میں بلوچ سیاسی قائد اور حاکم میر نصیر خان بلوچ جنہیں نوری نصیر خان1749) تا (1794 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی جانب سے خاکہ کشی کی گئیں۔
برطانوی سلطنت 13 نومبر 1839ء کوخود مختار ریاست بلوچستان پر حملہ آور ہوئی۔تقسیم کرو اور حکومت کروکی برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کے نتیجہ میں بلوچستان آئندہ کے لیے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ 1871ء میں ایک ثالثی لکیر گولڈ سمڈ لائن کھینچی گئی جس کے تحت بلوچستان کا مغربی حصہ خاندانِ قاجار کو دے دیا گیا۔ 1893ء میں ایک دوسری لکیر ، ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی۔ اس لائن کے تحت بلوچستان کا شمالی حصہ افغانستان کو دے دیا گیا۔ یہ بناوٹی سرحدیں بلوچ قوم کی رضامندی، مفاد اور بہبود کے خلاف کھینچی گئیں۔
مغربی بلوچستان میں قاجار سلطنت کی مدت نسبتاً کم عرصہ رہی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اِس خاندان نے بلوچستان میں اپنا تسلط کھودیا۔ برطانیہ نے 1916میں بلوچ سیاسی رہنماؤں کو کھلے بندوں مغربی بلوچستان کے حکمرانوں کے طور پر قبول اور تسلیم کر لیا۔ 1928 میں ایرانی فوج نے رضا خان کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر حملہ کر کے مغربی بلوچستان پر تسلط جما لیا۔
اس کے باوجود بلوچ قوم نے کبھی بھی اپنی آزادی کی جدوجہد میں کمی نہیں آنے دی۔ برطانیہ سے دوبارہ مکمل آزادی حاصل کرنے کے لیے قومی سطح پر منظم سیاسی جدوجہد کا آغاز 1920 کی دہائی کے اوائل ہی سے ہو گیا تھا۔ بلوچ قوم کی لازوال کوششوں کے نتیجے میں انگریزوں کے مشرقی بلوچستان سے خروج کے بعد بلوچستان 11 اگست 1947 کو آزاد ہو گیا تھا۔ بلوچستان کی آزادی کا اعلان نئی دہلی میں کیا گیا تھا اور اس کی خبر 12 اگست 1947 کو دی نیویارک ٹائمز میں چھپی تھی۔ بلوچستان کے ایوان زیریں نے اپنے 12 سے 15 دسمبر 1947 کے ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر بلوچستان کی آزادی کے اعلان کو منظور کیا تھا؛ بلوچستان کے ایوان بالا نے بھی 2 جنوری سے لے کر 4 جنوری 1948 تک ہونے والے اپنے اجلاس میں ایوان زیریں کے اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔
پاکستان کی مصنوعی طور پر بنائی گئی اسلامی ریاست 14 اگست 1947 کو وجود میں آئی تھی۔ یہ نئی مملکت پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی بلوچستان کی خود مختاری کے لیے خطرہ بنی رہی اور اپنے قیام کے آٹھ ماہ کے اندر اندر پاکستان نے 27 مارچ 1948 کو بلوچستان کی خود مختار ریاست پر زبردستی قبضہ کر لیا۔
یہ قبضہ لوگوں کے آزادی اور حق حکمرانی کے بین الاقوامی طور پر تسلیم کردہ نظریات کے منافی تھا۔ اور ان حقوق کا ادراک اس قبضے کے پیچھے ہونے والی ناانصافی کی وجہ سے بلوچ عوام اب استعماری طاقتوں کے خلاف ایک مشترکہ مہم کی صورت میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کی جمہوری جدوجہد زور پکڑ رہی ہے اور ایک تاریخی موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ بلوچ عوام کے اندر اپنے اس پیدائشی حق کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
اجتماعی طور پر اب وہ اس حقیقت کو سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ یہ تسلط اور ظلم اب ان کی بقاء ہی کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے اور اس سے ان کے محبوب قوم کا منظم طور پر خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اگراس تسلط کے خلاف مزاحمت نہ کی گئی تو ان کی اہمیت کم ہوتی چلی جائے گی اور وہ اپنے آبائی وطن ہی میں ایک اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔
غیر ملکی ریاستوں کے زیر تسلط بلوچستان کی معیشت، اس کا معاشرہ اور اس کے سیاسی، تعلیمی اور قانونی ادارے تباہ کن حد تک پسماندگی کا شکار رہے ہیں۔ یہ نئے نوآبادیاتی حکمران بلوچوں کی گذشتہ نسلوں کی علم اور بصیرت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نظریات کو بلوچستان پر ٹھونس رہے ہیں۔ ان اقدامات نے بلوچستان کی ثقافت، زبان، ادب، میڈیا، موسیقی، فنون لطیفہ اور اخلاقی و سماجی اقدار کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس تسلط اور جبر کی وجہ سے حکمرانوں کو لوگوں کے استحصال کا موقع ملا ہے اور اس نے بلوچستان کی سول سوسائٹی کے اپنے آزادانہ ارتقاء کو روک رکھا ہے۔ مزید براں قابض طاقتوں نے تمام بلوچستان کو ایک وسیع و عریض فوجی چھاؤنی اور لاتعداد ریاستی جیل خانہ جات کی سرزمین بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور اس عمل کے دوران بلوچستان درآمد کردہ جہادیوں، مذہبی جنونیوں، اور ریاست کی حمایت یافتہ بے اصول لٹیروں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ حملہ آور ریاستوں کے یہ پروردگان پوری دیدہ دلیری سے کام کر رہے ہیں اور جس کسی کو چاہیں ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کی غیر قانونی طاقت مطلق العنان ہے۔ وہ لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، گولیاں مار رہے ہیں، جیل میں ڈال رہے ہیں، تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور قتل کر رہے ہیں۔
ان کا نشانہ بننے والوں میں بلوچ معاشرے کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، باشعور اور فعال ارکان شامل ہیں۔ ان نشانہ بننے والوں میں بلوچ طلباء ، مزدور، کسان، تاجر، ادیب، موسیقار، ڈاکٹر، مذہبی علما، اساتذہ، یونیورسٹی کے پروفیسران اور سیاسی رہنما شامل ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی ظالمانہ انتقامی کاروائیوں سے بلوچستان کے ضعیف العمر لوگ اور بچے بھی محفوظ نہیں۔ بلوچستان کے سیاسی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پر قرون وسطٰی کا سا تشدد کیا جا رہا ہے۔ بہت سے بلوچ اس ظلم کا شکار ہو کر صفحہء ہستی سے غائب ہو گئے ہیں۔ ان کے خاندانوں اور دوستوں کے پاس ایک دائمی رنج، خوف اور روحانی اذیت کی فضا میں رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
لیکن اس پرخوف مسلط ہونے کے باوجود بلوچ قوم کی روایات اسی طرح تابندہ ہیں اور آج کے بلوچ معاشرے میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ سیکولرزم، اعتدال پسندی، روشن خیالی، آزاد خیالی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور پر امن رہنے کا مزاج جیسے بنیادی عناصر بلوچ قوم کی سماجی اور اخلاقی اقدار کا خاصہ ہیں۔ بلوچ قوم بنیادی طور پر ایک سیکولر قوم ہے، جو مختلف النوع خیالات اور عقائد رکھنے کی اجازت دیتی ہے اور ان کا احترام کرتی ہے۔ زندگی اور آزادی کے حق کا تقدس بلوچ روایات کا ایک اہم ترین جزو ہیں۔ اور حکومت کی طرف سے دی گئی سزائے موت بلوچوں کے اخلاقی اور سیاسی نظام کا حصہ کبھی بھی نہیں رہی۔ با الفاظ دیگر بلوچ عوام میں وہ تمام خصوصیات اور اقدار موجود ہیں جو ایک متحرک، مہذب جمہوری اور روشن خیال معاشرے کے فروغ کے لیے ضروری ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بلوچوں کی سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ وہ گزرگاہ ہے جو مشرق بعید اور جنوبی ایشیا کو مشرق وسطٰی اور وسطی ایشیا سے ملاتی ہے۔ بلوچستان مذکورہ بالا دولت مند اور وسیع علاقوں کے درمیان اشیاء کے تبادلے کے ڈپو کے طور پر کام کرسکتا ہے۔ ان اور دیگر علاقوں کے درمیان بین الاقوامی تجارت کے لیے بلوچستان کے ساحل پر واقع لا تعداد بندرگاہوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں اس ساحل کو ماہی گیری اور سمندری غذا کی فارمنگ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی وسیع سرزمین کو جانوروں کی پرورش، زراعت اور صنعت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی آب و ہوا شمسی، ہوائی اور سمندری توانائی پیدا کرنے کے لیے موزوں ہے۔ معاشی وسائل کے بہت سارے مظاہر بلوچستان کی تیزی سے ترقی کرنے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اس کے معاشی امکانات کے مقابلہ میں اس کی کم آبادی کی وجہ سے بلوچستان بہت جلد انتہائی خوشحال علاقوں میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک آزاد اور جمہوری حکومت کے تحت بلوچستان نسبتاً کم وقت میں اس علاقے کے انتہائی جدید، خوشحال اور جمہوری اقوام میں شامل ہو سکتا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان کے منفرد محل وقوع، اس کے بھرپور قدرتی وسائل اور سیکولر کلچر کی موجودگی میں اس کی معیشت جمود کا شکار رہی۔ غیر قانونی تسلط بلوچستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اگر اس کے باشندے اس تسلط سے آزاد ہوتے تو سماجی، سیاسی اور قانونی شعبوں میں اس کی ترقی با آسانی اس کے ہمسایہ ملکوں سے کہیں زیادہ ہوتی۔
کسی بھی غیر قانونی تسلط اور محکومی سے آزاد ہو کر اپنی قسمت، اپنے آج اور مستقبل کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے بارے میں خود فیصلہ کرنا بلوچستان کے لوگوں کا حق ہے۔ کوئی بھی باخبر، انصاف پسند اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والا بلوچ کبھی بھی اپنی مرضی سے کسی نوآبادیاتی طاقت کے تحت محکوم رہنا پسند نہیں کرے گا۔ ہر بلوچ کو اپنے ہی وطن میں دوسرے درجے کا شہری ہونے کی ذلت سے سابقہ پڑا ہے۔
اب ہم اپنے لوگوں کو محکومی سے نجات دلانے اور ان کے لیے مکمل آزادی حاصل کرنے کیاور دنیا کی تمام آزاد قوموں کی صفوں میں مساوی بنیاد پر شامل ہونے کی اپنے اس عزم میں متفق ہیں۔
مکمل آزادی حاصل کر کے اور بلوچستان کو دوبارہ سے ایک جمہوری ریاست بنا کر ہی بلوچستان کے ہر شہری کے مکمل حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ یہ منشور وہ لائحہ عمل ہے جس پرعمل کر کے ہم اپنی قوم اور اپنے وطن کے لیے اس عظیم مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔

*۔آزادی، جمہوریت اور انصاف

اس منشور میں ان شقوں کے علاوہ جن کا تعلق بلوچستان کی آزادی اور آزادی کے بعد ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر مبنی ایک جمہوری نظام کی بحالی سے ہے، باقی تمام شقوں میں ترمیم، تجاویز اور مزید بہتری لانے کی گنجائش ہے۔


۔حصہ اولI۔

بنیادی حقوق
شق: 1 150 چونکہ بلوچستان پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا تھا لہذا ایک آزاد اور جمہوری بلوچستان کے لیے آزادی کی جدوجہد قانونی اور جائز ہے۔
شق: 2 150 بلوچوں کی قومی جدوجہد، زندہ رہنے کے حق، تحفظ ، بقاء اور معاشرے کے تمام اراکین کے لیے مساوی حقوق کے اصول پر عمل پیرا ہونے جیسے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد کے لیے ہے۔
شق: 3 150 بلوچ قومی جدوجہد میں ہر شخص کی اخلاقی برتری ازخود ایک مقصد ہے نہ کہ یہ کسی اور مقصد کیحصول کا ایک ذریعہ ہے۔ اس بناء پر تمام افراد برابر ہیں۔
شق: 4 150 بلوچ قومی جدوجہد ایک سیکولر تحریک ہے۔ یہ مذہب کو ریاست اور سیاست سے الگ رکھنے کے حق میں ہے۔ یہ معقولیت کے حق میں ہے اور کسی کٹر مذہب یا نظریاتی عقیدے کے خلاف ہے۔
شق: 5 150 مذہب، عقیدے اور اظہار کی آزادی بلوچستان کے شہریوں کے سب سے بنیادی حقوق کا حصہ ہیں۔ ہر شخص آزاد ہے چاہے وہ کوئی مذہب اختیار کرے یا کسی غیرروایتی عقیدے پر عمل پیرا ہو بشرطیکہ اس طرح کرنے میں وہ نہ تو اپنے مذہب اور عقیدے کو دوسروں پر تھوپیں اور اس طرح سے دوسرے لوگوں کی مختلف عقیدہ رکھنے کی آزادی میں خلل انداز ہوں۔
شق: 6 150 بلوچ جمہوری جدوجہد حقیقی معنوں میں خود مختاری و آزادی کے لیے ہے۔ یہ اس حقیقت کومانتی اور سمجھتی ہے کہ انسانی تخیل کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ اس قابل قدر انسانی خصوصیت کو انسانیت کی انتہائی اہم خصوصیات میں سے گردانتی ہے۔ انسانی فطرت کی یہ خاصیت آزاد سوچ اور اظہار کی روح اور وجہ ہے۔ ہم اس انسانی صلاحیت کی قدر کرتے ہیں اور اس کو ایک آزاد اور کھلے معاشرے میں پروان چڑھانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ تخیل کی صلاحیت کسی کے وجود سے الگ نہیں کی جا سکتی۔ ہر قسم کی اندھی بنیاد پرستی، جو انسانی تخیل اور غوروفکر پر قدغن لگائے چاہے وہ کسی بھی ظالمانہ ذریعے سے ہو، انسانی فطرت اور ان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس لیے، بلوچ جمہوری جدو جہد آزاد تخیل، سوچ اور اظہار کے حق کو اپنی سب سے اہم ترجیحات میں رکھتی ہے۔
شق: 7 150 انسانی تخیل کے اس لازوال افق کی فطرت کے باعث ہی سمجھ بوجھ، آراء اور عقائد میں تنوع ہوگا۔ صرف اس بنا پر ہی، بلوچستان کے شہریوں کی سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی، ان کے بنیادی حقوق اور انصاف کے خلاف ہوگی۔
شق: 8 150 مردوں اور عورتوں کے مابین مساوات بلوچ جمہوری جدوجہد کے بنیادی اصول میں سے ایک ہے۔ ایک آزاد اور جمہوری بلوچستان میں مردوں اور عورتوں کو برابری کا درجہ دیا جائے گا اور وہ قانون کے تحت تمام حقوق، تحفظات اور آزادیوں کے حقدار ہوں گے۔ یہ مساوات معاشرے کے تمام حلقوں میں سماجی، معاشی، تعلیمی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی حقوق میں ہو گی۔ (جاری ہے)۔

Comments are closed.