حال ہی میں ریلیز ہونے والی ایرانی فلم ’’محمدؐ‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے اس فلم کوتیاری اور اس کی معاونت کرنے والے تمام افراد جن میں اس کے ہدایت کار مجید مجیدی اور میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمن شامل ہیں کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے۔
’’ہم اس فلم کے خلاف ہیں،اگر کسی کو یہ فلم پسند نہیں آتی تولوگ اس کو غلط طریقے سے بھی استعمال کر سکتے ہیں جس کامطلب حضرت محمدؐ کی توہین ہے۔ اور ہم مسلمان حضرت محمدؐ کی توہین کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔رضا اکیڈمی کے سربراہ سعید نوری نے کہا
یہ فتویٰ ممبئی کے چیف مفتی محمد اختر نے جاری کیا ہے۔
یہ فتویٰ جناب مجیدی، اے آر رحمن اور ان کی معاونت اور کام کرنے والوں کے خلاف ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ تمام افراد دوبارہ کلمہ پڑھیں اور اپنے نکاح دوبارہ پڑھائیں۔ ’’ وہ ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگیں‘‘ سعید نوری نے کہا۔
جب ان کی توجہ اس جانب دلائی گئی کہ فلم کو بنانے والے تو زیادہ تر افراد مسلمان ہیں تو سعید نوری نے کہا کہ یہی سب سے اہم بات ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہونا چاہیے۔ اگر ہم امریکی یا ڈچ فلم میکرز کی مذمت کرتے ہیں تو ہم پر تنقید کی جاتی ہے۔ بے عزتی یا توہین جو مرضی کرے چاہے مسلم یا غیر مسلم یہ توہین ہی ہوتی ہے۔اس میں کسی کے مذہب یا عقیدے کا کوئی تعلق نہیں۔
سعید نوری نے کہا کہ رضا اکیڈمی جلد ہی ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے مل رہی ہے اور اس فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرے گی ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اے آر رحمن پر توہین کا مقدمہ درجہ کرے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں۔
فتویٰ میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اس فلم کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاج کریں۔
اس فلم کے ہدایتکار ، 56 سالہ مجید مجیدی ہیں جو کہ ایران کے بہترین فلم ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے محسن مکمال کے ساتھ مل کر بہترین فلمیں تیار کی ہیں۔ ان کی فلم ’’چلڈرن آف ہیون‘‘ کو 1992 میں بہترین غیرملکی فلم کا اکیڈمی ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی فلمیں کلر آف پیراڈائز اور باران شامل ہیں۔ آج کل وہ کشمیر پر ایک فلم تیار کر رہے ہیں۔
ایران میں بننے والی اب تک کی سب سے مہنگی فلم جس پر25 ملین پاؤنڈکی لاگت آئی ہے، 26 اگست کو ایران سمیت چند ممالک میں ریلیز کی گئی ہے۔ مگراسے ابھی تک کسی بڑے مخالفانہ ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانہ نے جناب ماجد ماجدی کی زیرہدایت فلم ’ محمد رسول اللہ صلعم ‘ کے بارے میں ہندوستانی میڈیا میں شائع خبروں اور تبصروں پر یہ وضاحت کی ہے کہ یہ فلم جناب ماجدی کے تخلیقی فن پر مبنی ہے جسے دیکھنے کے بعد ہی رائے ظاہر کی جانی چاہیئے اور فلم کا مشاہدہ کئے بغیر کوئی موقف اختیار کرنا اور گرما گرم بحث کا موضوع بنادینا غیر مناسب اور غیر منقطی ہوگا۔
فلم کے بارے میں جاریہ تنقیدوں پر جناب ماجدی نے میڈیا سے جو ردعمل ظاہر کیا ہے ایرانی سفارتخانہ نے اس حوالہ سے یہ وضاحت کی ہے کہ اس فلم میں اسلامی اقدار کی تحقیر نہیں کی گئی ہے اور ایران روز اول سے ہی اسلام کی سربلندی اور مدافعت میں پیش پیش رہا ہے بلکہ توہین رسالتؐ کے مرتکب سلمان رشدی کی مذمت بھی کی گئی ہے ۔
سفارتخانہ نے بتایا کہ مسلمانوں کے عقائد اور اعمال میں یکسانیت پائی جاتی ہے تاہم بعض تشریحات میں اختلافات ہیں جس کے باعث فلم کے بارے میں مختلف رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ لہذا فلم کا موضوع ماہرین کی بحث کا متقاضی ہے جس پر باہمی اختلافات اور متضاد رائے کو نہیں بھڑکانا چاہیئے کیونکہ عالم اسلام پہلے ہی سے آپسی خلفشار کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔
بشکریہ: دی ہندو،انڈیا