ذوالفقار علی زلفی.
“فلم محمد رسول اللہ میں ہم نے اسلام کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور یقیناً ہم اس میں کامیاب رہے ہیں“
یہ الفاظ ہیں مجید مجیدی کے، جو نہ صرف ایران بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک بہترین ہدایت کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں….ان کی فلموں کو ایرانی سماج کی مختلف پرتوں کا عکس سمجھا جاتا ہے…
اپنے مخصوص مزاج کے برعکس اس دفعہ انہوں نے شامی نژاد امریکی ہدایت کار مصطفی عکاد کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ، تاریخ کو اسکرین پر دکھانے کا فیصلہ….
وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ ایرانی حکومت نے نہ صرف ان کے اس فیصلے کو سراہا بلکہ عملی طور پر پینتیس ملین امریکی ڈالر کے بھاری بھرکم مجوزہ بجٹ کو سرکاری خزانے سے سہارا بھی دیا…..
تاہم خوش قسمتی اور بدقسمتی غالباً ساتھ ساتھ چلتے ہیں….
سنی العقیدہ مسلمانوں کی نمائندگی کے دعویدار بعض قوتوں بالخصوص جامعہ الازہر مصر , قطر اور سعودی حکومتوں نے فلم کی مخالفت شروع کردی….ان کا موقف ہے کہ فلم کی کہانی پیغمبر اسلام کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی….بعدازاں ہندوستانی مسلم علما کے بھی ایک حصے نے فلم کو غیراسلامی قرار دے کر فلمی ٹیم کے مسلمان اراکین کو دوبارہ کلمہ پڑھنے کی تلقین کی….
اے آر رحمان نے کمال جرات کا مظاہرہ کرکے ہندوستانی علما کے اس فتوی نما بیان کو مسترد کردیا…
عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ معترض حلقے بنا دیکھے فلم کی مخالفت کررہے ہیں , شواہد سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ مخالفت برائے مخالفت ہے….
مسلمانوں کے ایک مخصوص مکتبہ فکر کی جانب سے گرد اڑانے کے باعث گوکہ فلم کسی حد تک متنازعہ تو ہوئی مگر کسی بڑے ردعمل سے دامن بچاگئی….
مخالفت اور حمایت کی فضا میں ماہ اگست کے اواخر میں بالآخر اسے ایران کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے سینما گھروں میں پیش کردیا گیا…..
عوام کی جانب سے اسے زبردست پذیرائی ملی……
فلم شروع ہوتے ہی فلم بین جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اچانک خود کو 1400 سال قبل کے حجاز میں پاتا ہے..پتھروں سے تعمیر کردہ خانہ کعبہ , مکہ کا بازار ، نخلستان ، ریگستانوں میں اونٹوں کے کاروان…غلاموں کی تجارت…
سیٹ کی تعمیر پر مجید مجیدی یقیناً داد و تحسین کے مستحق ہیں البتہ اگر منظر نگاری کا موازنہ مصطفی عکاد سے کیا جائے تو یہ طے ہے کہ دی میسج زیادہ حقیقت سے قریب لگتی ہے…
فلم کا آغاز تبلیغ اسلام کے اہم ترین باب شعب ابی طالب سے ہوتا ہے لیکن پھر فلیش بیک میں جاکر پیغمبر اسلام کی پیدائش سے پہلے کے واقعات کا سرا پکڑ کر آگے بڑھتا ہے , جس میں ابرہہ اور اس کے ہیبت ناک ہاتھیوں کا ابابیلوں کے ذریعے عبرت ناک انجام , رسول اللہ کی پیدائش , بتوں کی زمین بوسی , دائی حلیمہ کے ہاتھوں پرورش , یہودیوں کی سازشیں , ابوسفیان کی رنجشیں , سفر شام کی صعوبتیں , بکریوں کا چرانا , والدہ آمنہ و دادا عبدالمطلب کی وفات , بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت و دیگر واقعات سلسلہ وار جڑتے جاتے ہیں…تین گھنٹوں کا یہ فلمی سفر بالآخر دوبارہ ابوسفیان کے اعلان نامے کے ساتھ شعب ابی طالب پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے…
فلم دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ مجید مجیدی نے اسکرین پلے پر وہ توجہ نہیں دی جس کی یہ متقاضی ہے کیونکہ تاریخی واقعات کے درمیان تسلسل نہیں پایا جاتا..بعض مقامات پر کہانی الجھ کر رہ جاتی ہے …..ربط کا یہ فقدان فلم بینوں پر گراں گزر سکتا ہے…
بیشتر حصے میں دکھایا گیا ہے کہ رسول اللہ کی پیدائش سے لے کر لڑکپن تک یہودی مسلسل انہیں اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہودی اپنی کتابوں کے ذریعے جان چکے تھے کہ قریش کا یہ فرزند درحقیقت پیغمبر ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ پیغمبر “جاہل“عربوں کی بجائے “برگزیدہ” یہودیوں میں پل کر جوان ہو…
بعض تاریخ دانوں نے فلم کے اس حصے سمیت چند دیگر معجزات جس میں سمندر کا مچھلیوں کو باہر کی جانب پھینکنا شامل ہے پر شدید اعتراضات اٹھائے ہیں….ان حلقوں کے مطابق اسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے ساتھ من گھڑت روایتوں کو منسوب کرنا درست نہیں….
مجید مجیدی ان اعتراضات کے جواب میں کہتے ہیں کہ کہانی اسلام کے تمام مکاتب فکر سے مشورے کے بعد انتہائی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ لکھی گئی ہے…
بہرکیف ان علمی مباحثوں سے قطع نظر اسکرین پلے کی کمزوری عیاں ہے…تین گھنٹے طویل فلم کو کمزور اسکرین پلے کے ساتھ دیکھنا بعض ناظرین کیلئے مشکل ثابت ہوسکتا ہے….
یہی صورت حال اداکاری کی بھی ہے….ایرانی فلم انڈسٹری کے چوٹی کے اداکاروں مثلاً مہدی پاکدل , داریوش فرھنگ , سارہ بایت , علی رضا نوری و دیگر پر مشتمل ٹیم سے اس بڑی بجٹ کے اہم ترین فلم سے جو توقع وابستہ کئے جارہے تھے وہ فلم دیکھ کر ریت کے گھروندوں کی طرح بیٹھ جاتے ہیں..
اداکاری بلاشبہ اوسط درجے کی ہے….
اگر کہا جائے کہ پوری فلم چار چیزوں پر کھڑی ہے اور شاید انہی چار چیزوں کی وجہ سے فلم تاحال عوامی توجہ کا مرکز ہے تو شاید غلط نہ ہو….
رسول اللہ کا نام , موسیقی , سینماٹوگرافی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال…
موسیقی کیلئے عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی موسیقار اے آر رحمان کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں…جنہوں نے واقعی اپنے کام سے مکمل انصاف کیا ہے….مسحور کن موسیقی کی لہریں سماعت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہیں…..
معروف اطالوی سینماٹوگرافر ویٹوریو سٹورارو (Vittorio Storaro) کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے….سینماٹوگرافی سوفیصد شاندار ہے…..ویٹوریو نے اس فلم کے ذریعے ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے…
اسی طرح ایڈیٹنگ کے شعبے میں بھی فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں…ایڈیٹنگ کیلئے بھی مجید مجیدی نے اٹلی کو چنا جہاں سے روبرٹو پرپیگنانی (Roberto Perpignani) کو ذمہ داری سونپی گئی….روبرٹو نے ایرانی عوام کو بالکل بھی مایوس نہیں کیا….
کاسٹیوم ڈیزائننگ کا شعبہ ملا جلا سا ہے….مردوں کے لباس پر خاصی توجہ مرکوز کی گئی ہے خاص طور پر ابرہہ , ابوسفیان اور عبدالمطلب کے کرداروں کے کاسٹیوم قدیم عرب تہذیب سے قریب تر محسوس ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب خواتین کو اس توجہ سے محروم رکھا گیا ہے…لیڈیز کاسٹیوم قدیم اور حالیہ ایرانی تہذیب کا امتزاج ہیں جن کا بدو عرب تہذیب سے کوئی تعلق نہیں بنتا….مجید مجیدی جیسے بالغ نظر ہدایت کار سے اس چوک کی امید ہرگز نہ تھی…
فلم کے بعض سکانس بڑی خوبصورتی کے ساتھ فلمائے گئے ہیں , بالخصوص سمندر کی منہ زور موجوں کا ساحل سے ٹکرانا اور ڈھیر ساری مچھلیوں کا اگلنا کافی دلفریب اور خوش کن ہے….
یوں تو بیشتر شوٹنگ ایران کے اہم ترین شہر اور شیعہ العقیدہ مسلمانوں کے علمی مرکز “قم” کے آس پاس کی گئی ہے مگر بعض واقعات صوبہ یزد اور صوبہ ھرمزگان میں بھی فلمائے گئے ہیں…
اگر “محمد رسول اللہ” کا 1977 کی فلم “دی میسج” سے موازنہ کیا جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مجید مجیدی اپنی تمام تر خلاقانہ صلاحیتوں , جدید ٹیکنالوجی , زبردست سینما ٹو گرافی اور بہترین موسیقی کے باوجود مصطفی عکاد کی گرد کو بھی پانے میں ناکام رہے ہیں…
تاہم , مجید مجیدی کی یہ کاوش انتہا پسندی اور مذہبی تنگ نظری کیخلاف ایک بھرپور آواز ہے….انہوں نے پیغمبر اسلام کی زندگی کو ایک لطیف پیرائے میں بیان کرکے نفرتوں کے اس دور میں محبت , رواداری , پیار , فطرت پسندی اور کشادہ دلی کا درس دینے کی جو کوشش کی ہے وہ ستائش کے قابل ہے….
کیا ہی اچھا ہو اگر ایرانی حکومت اس فلم کو عربی , انگلش اور اردو میں ڈھب کرکے دنیا بھر میں دکھانے کا اہتمام کرے….کچھ تو گھٹن کم ہو…..