فاروق سلہریا
1978سنہ 1978 میں پہلی دفعہ لالی وڈ میں ’توہین مذہب‘ کے موضوع پرفلم بنائی گئی تھی ۔پنجابی میں بننے والی یہ فلم جس کا نام ’ غازی علم دین ‘تھا، پانچ ستمبر ( یوم دفاع سے ایک روز قبل )کو سنیما گھروں میں نمائش کے لئے پیش کی گئی ۔ اس فلم کے فلم ساز اور ہدایت کار حیدر تھے اور انھوں نے ہی’ غازی علم دین ‘کا ٹایٹل رول بھی ادا کیا تھا۔
حیدر کے علاوہ اس فلم کی کاسٹ میں نجمہ، عالیہ ، اقبال حسن، افضال احمد ، بدر منیر، قوی ،علی اعجازاور نجمہ محبوب شامل تھے ۔ میں نے اس فلم کا DVD پرنٹ لاہور کے ہال روڈ پر بہت تلاش کیا لیکن ناکام رہا ۔تاہم یو ٹیوب پر یہ فلم دیکھی جاسکتی ہے۔ اس فلم کا میوزک معروف موسیقار ماسٹر عبداللہ نے کمپوز کیا تھا۔یسٰین گوریجہ کی مرتب کردہ فلم ڈائر یکٹری کے مطابق یہ فلم باکس آفس پربہت زیادہ کامیاب نہیں ہوئی تھی لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بالکل ناکام ہوگئی تھی ۔
فلم میں ہندو مت اور انگریزوں کی تصویر کشی جس انداز میں کی گئی ہے وہ قابل ذکر ہے ۔ہندو کنجوس، کمینے ، سازشی اور اخلاق باختہ ہیں جب کہ انگریز حکمران ہمہ وقت سازشوں میں مصروف اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ غریب اور محنتی ہیں۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ علم دین کوئی عام اور معمولی بچہ نہیں تھا ۔ وہ غیر معمولی اور معجزاتی صفات کا حامل بچہ تھا ۔ نادیدہ آسمانی قوتوں کی اس پر خصوصی عنایت تھی اور اس امر کے آثا راس کی پیدائش کے وقت سے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے کہ قدرت اس بچے سے کوئی بہت غیر معمولی کام لینا چاہتی ہے۔
پیدائش کے فوری بعد مولوی جب علم دین کے کان میں اذان دیتا ہے تو نومولود علم دین چیخنا چلانا چھوڑ کر انتہائی ادب اور توجہ سے اذان سنتا ہے۔مولوی صاحب علم دین کی اس حرکت سے متاثر اور حیران ہوتے ہیں اور اس کی توجیح اس کے والدین کو یہ بتاتے ہیں کہ اس بچے پر الوہی قوتوں کی خصوصی شفقت اور عنایت ہے۔ اس کے برعکس راج پال لالچی ، عیاش ،سازشی اور اخلا ق باختہ ہے ۔ وہ بازار حسن کی ایک ہندو لڑکی پر فریفتہ ہے ۔
راج پال مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی خاطر ایک کتاب شائع کرنا چاہتا ہے ۔سفید چمڑی والے ( انگریز حکومتی عہدیدار)اسے یقین دلاتے ہیں کہ وہ جوچاہے کرے اس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا اور اس کی حفاظت او ر دفاع وہ ہر حال میں کریں گے لیکن راج پال کی بیوی اور بیٹی اس کو اس اشتعال انگیز ی سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ ماں بیٹی مسلمانوں کے بارے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہیں۔
دراصل اس ہمدردی کا بھی ایک پس منظر ہے۔ کچھ دن پہلے محلے کے ایک ہندو بدمعاش( منور سعید ) نے ماں بیٹی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی تھی لیکن علم دین کے بروقت موقع واردات پر پہنچنے کی بدولت وہ بچ گئی تھیں۔ یہ واقعہ انھیں مسلمانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا دیتا ہے۔
راج پال کی کتاب چھپ کر جب مارکیٹ میں آتی ہے تو مسلمان بہت مشتعل ہوتے ہیں ۔مسلمانوں کی اشک شوئی کی خاطر انگریز حکام راج پال کو گرفتار کر لیتے ہیں اور ماتحت عدالت اسے جیل بھیج دیتی ہے اور ساتھ ہی اس کی کتاب پر بھی پابندی عائد کر دی جاتی ہے ۔
راج پال چونکہ سب کچھ انگریز حکام کی مرضی اور تعاون سے کر رہا ہے اسی لئے ہائی کورٹ کا مسیحی جج نہ صرف راج پال کی کتاب پر عائد پابندی ختم بلکہ اس کی رہائی کا حکم بھی جار ی کر دیتا ہے ۔ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کو بہت زیادہ ناراض کر تا ہے ۔چنانچہ ایک پشتون عبدالکریم کوہاٹی (بدر منیر ) راج پال کو قتل کرنے کی نیت سے اس کے دفتر جا تا ہے لیکن غلطی سے راج پال کی بجائے اس کے ایک رشتہ دار کو قتل کر دیتا ہے ۔ راج پال کو قتل کرنے کی ایک اور کوشش ناکام کوشش ہو جاتی ہے اور اس بار یہ کام ایک مشکوک کردار( اقبال حسن )کر تا ہے۔بالاخر کوہاٹ میں بسلسلہ روزگار مقیم علم دین کو جب راج پال کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو لاہو واپس آکر وہ راج پال کو قتل کر دیتا ہے۔
عبد العزیز کوہاٹی کی ماں کی مانند علم دین کی ماں( نجمہ محبوب) بھی اپنے بیٹے کے اقدام پر فخر کا اظہار کرتی ہے ۔ دونوں کی مائیں خدا کے حضور اپنے بیٹو ں کی شہادت کے لئے دعائیں کرتی ہیں۔عدالت کوہاٹی کو عمر قید جب کہ علم دین کو سزائے موت سناتی ہے ۔
مسلمانوں کو اس عدالتی فیصلے سے بہت صدمہ پہنچتا ہے اور وہ علم دین کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لئے ہندوستان کے سب سے بڑے مسلمان وکیل محمد علی جناح کی قانونی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔جناح کی پیشہ ورانہ فیس کی ادائیگی کی خاطر چندہ مہم شروع کی جاتی ہے لیکن جناح(قوی) اس بات پر کہ وہ انھیں علم دین کے مقدمے کی پیروی کا معاوضہ دینا چاہتے ہیں ،لاہوری مسلمانوں پر اظہار ناراضی کرتے ہیں ۔’کیا تم نہیں جانتے کہ میر ا نام محمد علی ہے۔ میں ہر گز کوئی معاوضہ وصول نہیں کروں گا ‘۔
جناح اپنی تمام تر پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیت کے باوجود موثر انداز میں علم دین کا دفاع کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ لاہور کے مسلمان رہنماؤں کے سمجھانے بجھانے کے باوجود علم دین یہ کہنے سے انکار کر دیتا ہے کہ اس نے راج پال کو قتل نہیں کیا ۔علم دین مُصر ہے کہ اسی نے راج پال کو قتل کیا ہے اور وہ کسی قیمت پر اس قتل کا انکار نہیں کرے گا ۔
جناح اس صورت حال ’توہین مذہب‘ کے حوالے سے عدالت میں راج پال کے قتل کاجواز پیش کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی جناح ملک میں ’توہین مذہب‘ کے قوانین نافذ کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔
انتظامیہ کو تشویش ہے کہ علم دین کی سزائے موت پر عمل در آمد سے کہیں امن و امان کی صورت حال نہ بگڑ جائے چنانچہ وہ علم دین کو لاہور سے میانوالی جیل منتقل کر دیتے ہیں جہاں اسے پھانسی دے دی جاتی ہے ۔ جس وقت علم دین پھانسی کے پھندے کو گلے لگا رہا ہوتا ہے جناح لاہور میں ایک جلسے سے خطا ب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب تک مسلمان علیحدہ ملک حاصل نہیں کر لیتے راج پال بار بار پیدا ہوتے رہیں گے‘۔
علم دین کی میت کی لاہور آمد اور میانی صاحب قبرستا ن میں اس کی تدفین کے ساتھ ہی فلم کا اختتام ہوجاتاہے ۔
سنہ 2002 میں گجر آرٹ پروڈکشن نے حیدر کی’ غازی علم دین ‘کا ری میک’ علم دین شہید ‘کے نام سے بنایا۔ریا ض گجر کی زیر ہدایت بننے والی یہ فلم دو زبانوں ۔ پنجابی اور اردو میں بنائی گئی تھی اور اس فلم میں علم دین کا رول معمر رانا نے ادا کیا تھا جب کہ دیگر کا سٹ میں سلمیٰ ، سعود ،نرما ،تابندہ اور شفقت چیمہ شامل تھے ۔
1991 میں پی ٹی وی نے ’وفا کے پیکر ‘ کے عنوان سے ’اسلامی ‘ تاریخ کی مختلف شخصیات کے بارے متعدد ڈراموں کی ایک سیر یل تیار کی تھی۔ اس سیر یل میں بھی علم دین شہید کے نام سے ایک ڈرامہ پیش کیا گیا تھا جسے اقبال انصاری نے ڈایریکٹ کیا تھا ۔صحافی ظفر اقبال نگینہ کی علم دین کے بارے میں مرتب کر دہ کتاب کی ڈرامائی تشکیل معروف ادیب اصغر ندیم سید نے کی تھی ۔ نگینہ کی یہ کتاب روزنامہ ’پاکستان‘ کے سنڈے میگزین میں قسط وار چھپ چکی تھی ۔
پی ٹی وی کا ڈرامہ 1978 میں حیدر کی غازی علم دین کی نسبت بہت زیادہ سنجیدگی اور اداسی کا پہلو لئے ہوئے تھا۔ حیدر کی فلم میں کم ازکم علی اعجاز اپنے مزاح سے ناظرین کو محظوظ ضرور کرتا تھا جب کہ ٹی وی ڈرامے میں ایسا کوئی خوش گوار پہلو موجود نہیں تھا ۔ٹی وی سکرین پر علم دین کا کردار توقیر ناصر نے ادا کیا تھا ۔
پندرہ جنوری 1991کے روزنامہ ’جنگ‘ میں اس ٹی ۔وی ڈرامے کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ شائع ہوئی تھی ۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا ’ غازی علم دین شہید ‘کی شوٹنگ اصل پھانسی گھاٹ پر ‘۔رپورٹ میں وہ سین جس میں علم دین ( توقیر ناصر ) جیل کے عملے کے ساتھ پھانسی گھاٹ کی طرف جاتا ہے ، کو پوری تفصیل سے بیان کیا گیا تھا ۔
جیل میں مقید قیدی پھانسی گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے علم دین کو دیکھ کر کلمہ شہادت کا ورد شروع کر دیتے ہیں ۔جب علم دین ( توقیر ناصر) تختہ دار کی طرف جاتا ہے تو قیدی اس کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کہتے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق :اس اثنا میں ایک قیدی اپنے ہمراہیوں کو للکارتے ہوئے سے کہتا ہے کہ ’اگر وہ اپنی ماؤں کو اپنا منہ دکھانا چاہتے ہیں تووہ باہر آئیں اور اس منظر میں شامل ہوں‘۔قیدی نعرے لگا رہے تھے ’ توقیر ناصر زندہ باد‘۔رپورٹ کے مطابق شوٹنگ ایک گھنٹے کی لئے ملتوی کرنا پڑی کیونکہ تو قیر ناصر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے ۔
روزنامہ ’نوائے وقت ‘ نے’ غازی علم دین شہید ‘ کے بارے میں ایک رپورٹ جس کا عنوان تھا ’ اسلامی تاریخی ڈراموں کی ابتدا ‘ شائع کی تھی ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اداکار توقیر ناصر نے ’غازی علم دین شہید ‘ ڈرامے کے تمام سین باوضو ہو کر فلم بند کرائے تھے ۔**۔
ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ
One Comment