عرفان احمد خان۔ جرمنی
یورپ میں خشکی اور سمندری راستوں سے مہاجرین کی آمد آج کی دنیا کا اہم موضوع ہے۔ یورپ کی حکومتیں جن میں جرمنی سب سے نمایاں ہے، ایک طرف سمندری راستوں سے آنے والوں کو خطرات سے بچانے کے لیے بحری افواج کو مصروف کر رکھا ہے تو دوسری طرف زمینی راستوں سے ہزارہا افراد روزانہ یورپ کی سرحدوں پر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والوں میں جرمنی ایک منفرد کردار ادا کر رہا ہے۔
جرمنی کی حکومت امسال 8لاکھ مہاجرین کو چھت مہیا کرنے کی تیاری میں ہے۔ جس پر حکومت کو عوامی ردعمل کا سامنا بھی ہے لیکن وقت جرمنی کی سیاسی پارٹیاں اس انسانی مسئلہ کو سیاست سے ہٹ کر محض انسانی بنیادوں پر حل کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن آنے والوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ تیل کی دولت سے مالا مال اپنوں سے زیادہ جرمنی اور اہل یورپ نے ان کو گلے لگایا ہے۔ابھی پاؤں جمانے کو جگہ اور سرچھپانے کو مستقل چھت میسر نہیں لیکن ایسی تکلیف دہ کہانیاں باہر آنے لگی ہیں جن سے جرمن عوام میں شدید ردعمل پیدا ہونا ایک قدرتی بات ہو گی۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2014 میں کشتیوں کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد چار لاکھ گیارہ ہزار پانچ سو ہے ۔ ان میں 72 فیصد مرد اور 13 فیصد خواتین اور 15 فیصد چھوٹے بچے شامل ہیں۔ 2015یعنی جاری سال میں اگست تک مسلم سنٹرل کونسل آف جرمنی نے تسلیم کیا کہ جرمنی آنے والوں میں 80 فیصد مسلمان ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ صرف اگست میں ایک لاکھ چار ہزار چھ سو مہاجرین ملک میں داخل ہوئے ہیں۔
اس طرح جرمنی ،جنوری سے اگست تک چار لاکھ تیرہ ہزار پانچ سو مہاجرین کی کفالت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ان میں 80 فیصد مسلمان اور جن میں سے 71 فیصد کی عمریں 16 سال سے 35سال کے درمیان ہیں۔
جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والوں کو پہلے قدم کے طور پر صوبہ وائز تقسیم کیا جاتا ہے ۔ اس کے لیے ہر صوبہ میں ایک مخصوص ہوسٹل طر ز کی جگہ مہاجر کیمپ کے طور پر بنائی گئی ہے جہاں ضرورت پڑنے پر بڑے بڑے جہازی سائز کے خیمے کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ انتظامی امور صوبائی حکومت کے ہاتھ میں ہیں جبکہ فلاحی تنظیمیں کھانا و دیگر ضروری اشیا مہیا کرتی ہیں۔ کیمپ سے لوگوں کو گروپوں میں تقسیم کرکے مختلف شہروں کو بسوں میں روانہ کیا جاتا ہے ۔ ہر شہر میں اس طریق کار کے مطابق چھوٹے پیمانے پر مہاجرین کی آباد کاری کی جارہی ہے۔
فلاحی تنظیمیں، شہریوں سے اپیل کر رہی ہیں کہ لوگ بلامعاوضہ اپنی خدمات پیش کریں۔ فرینکفرٹ میں ویک اینڈ پر چار بڑے مہاجر کیمپوں میں جانے کے بعد معلوم ہوا کہ فلاحی تنظیمیں فرینکفرٹ میں چار ہزار تازہ مہاجرین (جن کو سپورٹس ہالز، سکولوں اور خیمہ جات میں ٹھہرایا گیا ہے) کی خدمت پر مامور ہیں اور ان کو ضرورت سے زیادہ رضا کاروں نے اپنی بلا معاوضہ خدمات پیش کی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ جرمن سوسائٹی میں شدید ردعمل بھی پید ا ہورہا ہے اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ کہ مہاجرین کو قبول کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
علاوہ دوسرے مسائل کے ایک اہم مسئلہ مہاجرین کی طرف سے جنسی وارداتوں میں اضافہ کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان واقعات کو حکومت، پولیس اورپریس نے عوامی ردعمل سے ڈر کر چھپایا لیکن بعض کم عمر بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات نے حکومت اور پریس کو سامنے لانے پر مجبور کر دیا۔
اگر صرف اگست کے واقعات کو لیا جائے تو یکم اگست کو ’’ سٹوٹگارٹ‘‘میں 27 سالہ عورت کو کیمپ میں زیادتی کا نشانہ بنایاگیا۔چھ اگست کو ’’ڈرٹمنڈ‘‘ کے مہاجر کیمپ میں مسلم نوجوان نے اپنے ہی ملک کی تیرہ سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔خاوند کی شہادت کے بعد ماں اپنی تیرہ سالہ بیٹی کو درخواست کرکے اپنے آبائی وطن لوٹ گئی کہ اب وہ اپنے خاوند کی قبر کے پاس مرنا چاہتی ہے۔ دس اگست کو پانچ ٹرکش نوجوانوں نے جو سیاسی پناہ لیے ہوئے تھے میونچن گلڈ باغ میں ایک نوجوان لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ دس اگست کو ہی ’’رنٹلن‘‘ میں پندرہ سالہ بچی ایک پناہ گزین کی ہوس کا نشانہ بنی۔
گیارہ اور بارہ اگست کو کیسل کے علاقے میں دو خواتین زیادتی کا شکار ہوئیں۔ بارہ اگست کو سترہ سالہ بچی کے ساتھ ہینوور میں زیادتی کی گئی۔تیرہ اگست کو 19 اور 23 سال کے عراقی نوجوانوں نے ’’ہم‘‘ قصبہ میں سکول کے یارڈ میں اٹھارہ سالہ لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ سولہ اگست کو ’’ہمو‘‘ میں اور سترہ اگست کو ’’ہمز بچ‘‘ میں تین افراد نے 42 سالہ عورت کو ریپ کیا۔26 اگست کو آسائلم ہوسٹل کی لانڈری میں 34 سالہ عورت ہوس کا نشانہ بنی۔ 28 اگست کو ’’ہوشسڈڈ‘‘ میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا۔
ان واقعات سے ممکن ہے پردہ نہ اٹھتا لیکن دو واقعات نے علاقائی پولیس کو مجبور کر دیا کہ وہ علاقے کے شہریوں کے لیے وارننگ جاری کرے۔گیارہ ستمبر کو بائرن کے قصبہ میرنگ میں سولہ سالہ بچی کو اس بری طرح ریپ کیا گیا جس کے بعد پولیس نے وارننگ جاری کی کہ بچوں کو گھروں سے باہر نہ بھیجاجائے، خواتین شام کو اکیلے باہر نہ نکلیں۔ اگر کوئی عورت ٹرین سے سفر کرکے گاؤں واپس آرہی ہے تو کوئی نہ کوئی مرد اس کولینے آئے۔گاؤں سے شہر کو جانے والے لوگ خصوصاً خواتین ٹرین کی روانگی کے وقت اسٹیشن پر آئیں۔اسٹیشن پر اکیلی کھڑی نہ ہوں ۔ پولیس نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ منظم ہو کر ایک دوسرے کی حفاظت کریں۔
بائرن صوبہ کے گاؤں پوکنگ کے سینئر ہائی سکول میں والدین اور سکول انتظامیہ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں والدین کو بتایا گیا کہ سکول کی سڑک پر شام کے دو سو مہاجروں کو عارضی پناہ دی گئی ہے ۔ بعض شکایات اور پھر جائزہ رپورٹ کے بعد والدین سے درخواست ہے کہ بچیوں کو سوئمنگ پول نہ بھیجیں۔ وہاں نوجوان مہاجروں کے جتھے نازیبا حرکات کرتے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ منی سکرٹ پہننے والی بچیوں کی طر ف یہ مہاجر زیادہ متوجہ ہور ہے ہیں۔ اس لیے والدین بچیوں کوفل سکرٹ اور پتلون کے ساتھ گھر سے باہر بھیجیں۔اس سے پہلے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ سرزد ہوجائے ہمیں محتاط ہوجانا چاہیے۔
ان واقعات پر والدین کا احتجاج سامنے آیاتو بات کھلتی چلی گئی ۔ مشہور ٹی وی(زیڈ ڈی ایف ) نے کہا کہ ایسے واقعات تو ہمارے علم میں آئے تھے لیکن قومی مفاد کی خاطر ان کو نشر نہیں کیا گیا ، ہم ملک کی فضا مکدر نہیں کرنا چاہتے ۔ اگر ہم ایسے واقعات کو نشرکرنا شروع کردیں تو مہاجرین کے لیے جرمنی کی زمین تنگ ہو جائے گی۔
اب پریس بتا رہا ہے کہ 16 جنوری کو ڈریسڈن، یکم فروری کو رائزبچ،11 فروری کو سٹراسبنڈ، 17 مارچ کو کرچھن،7اپریل کو الزینو،22 مئی کو ڈریسڈن ،23 مئی اور 25جون کو میونخ، 9 جون کو الترمیوزم، 26 جولائی کو ہیلبرن اور کرشو میں اس نوعیت کے واقعات ہو چکے ہیں۔جن کی رپورٹنگ کے لیے پولیس نے پریس کو روک دیا۔ایک چودہ سالہ بچہ ، 55سالہ عرب کی زیادتی کا نشانہ بن کر کئی روز بے ہوش رہا۔عوامی ردعمل کے ڈر سے اس خبر کو دبادیا گیاتاکہ مہاجرین کی آبادکاری کے عمل میں رکاوٹ نہ کھڑی ہوجائے۔پولیس کے مطابق 2014 کے واقعات میں ایری ٹیریا،افغانستان، عراق، شام مراکش، اور صومالیہ کے مہاجرین کو چار سے سات سال کی سزائیں ہوچکی ہیں۔
ان واقعات کے ساتھ ساتھ ایک اور تکلیف دہ پہلو بھی ہے کہ بعض مرد اپنے ساتھ آنے والی خواتین کو سیکس ورکر بننے پر مجبور کرتے ہیں۔مہاجر کیمپوں میں یہ کام دس یورو کے عوض ہو رہا ہے۔اس حوالے سے جرمنی کی خواتین کی حقوق کی تنظیموں نے جرمنی کی سیاسی جماعتوں کے سربراہاں کو خط لکھے ہیں کہ مہاجر کیمپوں میں خواتین اور مردوں کی اکٹھی رہائش گاہوں کی وجہ سے عورتیں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ عورتوں کو مردوں کی طرف سے چور راستوں پر کھڑے ہو کر آوازیں کسنے اور ہراساں کرنے جیسی کوششوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مہاجر کیمپوں میں رش کی وجہ سے حالات کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں ان کی بڑی وجہ مردوں اور عورتوں کے خیموں کا قریب ہونااور باتھ رومز اور واش رومز کا علیحدہ علیحدہ نہ ہونا ہے۔خواتین کے واش روم مقفل ہونے چاہیں، بعض ہالوں میں عورتوں اور مردوں کی ایک ساتھ رہائش کے سبب خواتین شب بسری کا لباس پہن نہیں سکتیں اور دن کا لباس پہن کر سونے پر مجبور ہیں۔ خواتین رات کو واش روم جانے سے خوف زدہ ہیں کیونکہ راستہ میں مرد آوازیں کستے ہیں۔ دن کے اوقات میں خیمہ سے باہر نکلیں تو مردوں کی ہوسناک نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لہذا خواتین کو حفاظت کی اشد ضرورت ہے۔
جرمنی آنے والے مہاجرین کو اپنے لیے گڑھے نہیں کھودنا چاہییں۔عوامی ردعمل مہاجروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تو کوئی حکومت مہاجرین کے ساتھ دینے اور ان کا بوجھ برداشت کرنے پر تیار نہ ہو گی۔