ہندوستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص مالدیپ اور بنگلہ دیش میں آئی ایس آئی ایس کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ کے باعث یہ اندیشے ابھر رہے ہیں کہ ہمارے ملک پر بھی اس کا اثر مرتب ہوگا۔
سیکیورٹی عہدیداروں نے بتایا کہ تقریباً 250 مالدیپ کے شہریوں نے آرچیپ لاگو چھوڑ کر آئی ایس آئی ایس میں شمولیت اختیار کی اور ان میں سے چار مبینہ طورپر عراق و شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔
مالدیپ کے تقریباً 30 شہری آئی ایس آئی ایس زیر کنٹرول علاقوں سے اپنے ملک واپس ہوگئے اور مبینہ طور پر جزیرہ نما اس ملک میں سرگرم ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ایک ماہ قبل مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں موافق آئی ایس آئی ایس ریالی منظم کی گئی جس میں لوگ بینرز تھامے ہوئے تھے اور شرعی قانون کو متعارف کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔
سوشل میڈیا پر 31 اگست کو آئی ایس آئی ایس (داعش) نے ایک ویڈیو جاری کیا جس میں 3 نقاب پوش افراد نے صدر مالدیپ عبداللہ یامین عبدالقیوم کو ہلاک کرنے اور اس جزیرہ میں دہشت گرد سرگرمیاں شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔
کل صدر عبدالقیوم اس وقت بال بال بچ گئے جب اسپیڈ بوٹ میں دھماکہ ہوا۔ وہ اس وقت سعودی عرب میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد واپس ہورہے تھے۔ اس دھماکہ میں ان کی اہلیہ اور دیگر دو زخمی ہوگئے۔
مالدیپ کی آبادی تقریباً 3,45,000 ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی حالیہ چند ماہ کے دوران آئی ایس آئی ایس کی سرگرمیوں میں بھی کافی اضافہ ہوا۔ سیکیورٹی عہدیداروں نے بتایا کہ جاریہ سال کے دوران ہلاکتوں بشمول 4 بلاگرس کے قتل کیلئے بھی آئی ایس آئی ایس کو مورد الزام قرار دیا گیا ہے ۔ عہدیداروں نے بتایا کہ تقریباً پانچ بنگلہ دیشی نوجوان آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوگئے اور عراق و شام کی لڑائی میں شریک ہیں۔ ان میں ایک مبینہ طور پر ہلاک ہوگیاہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں انتہائی سخت سیکوریٹی کے حامل سفارتی علاقہ میں کل رات اٹلی کے امدادی کارکن کو گولی مار دی گئی ۔ بنگلہ دیش میں یہ پہلا حملہ ہے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً 16 کروڑ ہے۔ مالدیپ اور بنگلہ دیش دونوں بھی ہندوستان کے پڑوسی ممالک ہیں اور آئی ایس آئی ایس کی سر گرمیوں میں اضافہ تشویش کا باعث ہوتا جارہا ہے کیونکہ اس کے اثرات ہندوستان پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ یو اے ای نے 15 ستمبر کو 4 ہندوستانی شہریوں کو آئی ایس آئی ایس کے ساتھ روابط کے شبہ میں واپس بھیج دیا تھا اور توقع ہے کہ مزید چار افراد کو عنقریب ہندوستان واپس کردیا جائے گا ۔
تقریباً 15 دن قبل یو اے ای نے 37 سالہ خاتون افشاں جبین عرف نکی جوزف کو مبینہ طور پر نوجوانوں کی آئی ایس آئی ایس میں بھرتی کی بناء ہندوستان واپس بھیج دیا۔ جنوری میں سلمان محی الدین (حیدرآباد) کو ایرپورٹ پر اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ دبئی کی پرواز کے ذریعہ براہ ترکی شام جانے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اس 24 سالہ انجنیئر مہدی مسرور بسواس کو ڈسمبر میں بنگلور میں مبینہ طور پر انٹرنیٹ کے ذریعہ آئی ایس آئی ایس سرگرمیوں کی تشہیر کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔
ممبئی کے چار نوجوانوں نے گزشتہ سال آئی ایس آئی ایس میں شمولیت کیلئے عراق و شام کا سفر کیا اور ان میں سے ایک مبینہ طور پر ہلاک ہوگیا جبکہ ایک اور شخص چند ماہ بعد ملک واپس ہوگیا تھا۔
شام، عراق جانے والے غیر ملکی جہادیوں کی تعداد تیس ہزار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اخبار نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ اسلام پسند جہادیوں کی صفوں میں شمولیت کے لیے جو غیر ملکی 2011ء سے آج تک شام اور عراق گئے، ان میں قریب ڈھائی سو امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق مشرق وسطیٰ میں کئی سالوں سے خونریز داخلی تنازعات کے شکار دونوں ہمسایہ ملکوں شام اور عراق پہنچنے والے جہادیوں کی تعداد کا یہ تخمینہ امریکا ہی کے ان اندازوں سے دگنا ہے، جو گزشتہ برس لگائے گئے تھے۔
اس کے علاوہ امریکی خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام اور قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں کے قابل اعتماد ذرائع سے حاصل ہونے والے یہ اعداد و شمار امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی ان شخصیات کے لیے پریشانی کا باعث بھی بنیں گے، جو جنگوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی فوجی قیادت پر یہ الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی خفیہ رپورٹوں میں شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کی طرف سے لاحق خطرات کو جان بوجھ کر اس لیے کم بتا رہی ہے کہ خود اپنی کوششوں اور ان کے نتائج کو زیادہ خوش کن اور حوصلہ افزا بنا کر پیش کر سکے۔
امریکی صدر باراک اوباما آئندہ منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب کے موقع پر نیو یارک ہی میں ایک ایسی بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت بھی کریں گے، جس میں ان ملکوں کے رہنما شریک ہوں گے جو شام، عراق اور دیگر ملکوں میں اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردی یا دوسرے عسکریت پسند گروہوں کی خونریز انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
امریکی کانگریس بھی اپنی ایک ایسی رپورٹ جاری کرنے والی ہے، جس میں شام اور عراق میں غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ متوقع طور پر اس امریکی رپورٹ میں زیادہ تاریک صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ شام اور عراق میں امریکا کی قیادت میں اتحادی ملکوں کے داعش کے خلاف فضائی حملوں کے آغاز کے ایک سال بعد بھی جہادیوں کی بھرتی یا ان ملکوں میں آمد کا بہاؤ کم نہیں ہوئے۔
اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی قیادت میں قائم مغربی ملکوں اور عرب ریاستوں کے اتحاد کی طرف سے فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ امریکا کی ایک پالیسی یہ بھی رہی ہے کہ وہ شام میں ’اعتدال پسند‘ باغیوں کو عسکری تربیت دے کر ہتھیار بھی مہیا کرے تاکہ وہ جہادیوں کے خلاف لڑیں۔ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی محکمہ دفاع کے اس پروگرام کی مالیت 500 ملین ڈالر ہے۔
لیکن یہ پروگرام بھی فائدے کے بجائے پینٹاگون کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ اس لیے کہ امریکا کے تربیت یافتہ جن شامی باغیوں کو پہلی بار ہتھیار دے کر شام بھیجا گیا، ان کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان میں سے بہت سوں کو القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ نامی جہادی تنظیم نے اپنی حراست میں بھی لے لیا۔
ان باغیوں نے بعد ازاں اپنے ہتھیار اس لیے النصرہ فرنٹ کے جہادیوں کے حوالے کر دیے کہ ان کو ان عسکریت پسندوں کے زیر قبضہ علاقے سے بحفاظت گزرنے دیا جائے۔ یوں شامی باغیوں کو تربیت کے بعد دیے جانے والے امریکی اسلحے کا قریب ایک چوتھائی حصہ شام میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی مقامی شاخ کے ہاتھوں میں آ گیا۔
اے ایف پی، ڈوئچے ویلے ، نیویارک ٹائمز