جاوید اختر کا ایک اہم ادبی کارنامہ

ظفر آغا

javed-akhtar-1

جاوید اختر بھی کچھ عجیب و غریب شخصیت کے حامل ہیں ۔ آپ فرمائیں کہ بھلا جاوید اختر میں ایسی کیا بات ہے کہ جس کی وجہ سے ان کو عجیب و غریب کہا جائے ۔

ارے بھائی وہ تو ایک مشہور و معروف فلمی دنیا کی ہستی ہیں ،جس کو انگریزی میں فلم پرسنلٹی کہا جاتا ہے۔ جناب ! آپ بالکل غلط سمجھے ، بلکہ آپ جاوید اختر کو سمجھے ہی نہیں ۔ اور سچ مانئے تو میں یہ بھی بتادوں کہ میں بھی جاوید اختر کو صحیح معنوں میں آج تک نہیں سمجھ سکا ۔ مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شاید ان کی شریک حیات شبانہ اعظمی بھی انھیں پوری طرح نہیں سمجھ سکیں ۔

اب پھر وہی سوال کہ آخر جاوید اختر میں ایسی کیا بات ہے کہ وہ کسی کو پوری طرح سمجھ میں ہی نہیں آتے ؟

تو بھائی سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ کسی بھی مشہور و معروف شخصیت میں کوئی ایک ایسی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اس خوبی یا فن کے لئے مشہور ہوجاتا ہے اور دنیا اس کو اس فن یا ہنر کی خصوصیت سے یاد رکھتی ہے ، لیکن جاوید اختر کے ساتھ یہ بڑی مشکل ہے کہ آپ ان کو کسی ایک خانے میں فٹ نہیں کرسکتے ہیں ۔

مثلاً آپ یہ کہئے کہ جاوید اختر ایک فلمی شخصیت ہیں تو وہ وہاں کس فن میں یکتا ہیں ؟

سنہ 1970 کی دہائی تک جاوید اختر فلمی دنیا کے ایک ایسے سکرپٹ رائٹر تھے ، جس کے نام پر فلمیں چلتی تھیں ۔ سلیم ۔ جاوید کی جوڑی نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو ’’دیوار‘‘ اور ’’شعلے‘‘ جیسی نہ جانے کتنی فلمیں دیں ، جس نے امیتابھ بچن کو امیتابھ بچن بنادیا ،

لیکن 1980 کی دہائی آتے آتے جاوید اختر نے فلموں میں گانے لکھنا شروع کیا تو اب یہ حال تھا کہ ہندوستان کی کوئی بڑی فلم ایسی نہیں ہوتی تھی جو جاوید اختر کے نغموں کے بغیر کامیاب ہوجائے ۔ بس یوں سمجھئے کہ نغمہ نگاری کے ہر سال کا فلم فیئر ایوارڈ جاوید اختر کے نام رہتا تھا  ۔

یہ تو رہا جاوید صاحب کے فلمی زندگی کا سفر! کسی بھی شخص کو مشہور و معروف بنانے کے لئے یہ کافی تھا اور جاوید اختر کو ان کی فلمی دنیا کی کامیابی نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا بھی دیا تھا ۔ زندگی بھر بیٹھ کر وہ اس کو بھُناتے رہتے اور چین سے جیتے رہتے ۔

لیکن میں نے کہا نا کہ جاوید اختر کو بھلا کوئی سمجھا کہاں ۔ جاوید اختر چین سے بیٹھنے والے کب ہیں  ۔ اب فلموں سے ان کو کچھ عافیت ملی ،تو انہوں نے اپنے خاندانی فن ، شاعری کی جانب رخ کرلیا  اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دو عدد کلّیات آگئے ۔ اور اب وہ ہر بڑے مشاعرے کی زینت بن گئے ہیں۔

پھر بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے انہو ںنے فرقہ پرستی (خواہ وہ ہندو فرقہ پرستی ہو یا مسلم فرقہ پرستی) کے خلاف جد و جہد شروع کی تو دیکھتے دیکھتے وہ رکن پارلیمنٹ بھی بن گئے ۔

غرض جاوید اختر تو جاوید اختر ہیں ان کو چین کہاں ۔ ادھر سنا تھا کہ کچھ خالی ہیں تو یہ بھرم بھی پچھلے ہفتہ ٹوٹ گیا۔ جناب اب انہوں نے ایک پانچ جلدوں کا دیوان شائع کردیا ، جس کی رسم اجراء پچھلے ہفتے دہلی میں نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری کے ہاتھوں انجام پائی ۔

یہ دیوان خود جاوید اختر کا نہیں ہے تو پھر اس میں جاوید اختر صاحب کا کیا کمال ہے ۔ ارے جناب دو اہم باتیں ہیں اس دیوان کی جن کا تعلق جاوید اختر سے ہے ۔ پہلی یہ کہ یہ دیوان اردو ادب کی ایک مشہور و معروف شخصیت مضطر خیرآبادی کا ہے ، جو جاوید اختر کے دادا تھے اور جن کا انتقال 1927 میں غالباً گوالیار میں ہوا تھا ۔

اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ مضطر خیرآبادی کو ایک معروف شاعر کی حیثیت سے جانتے تھے ، جن کا کلام ادھر اُدھر اکثر ملتا تھا اور فن کے اعتبار سے لوگ ان کو استاد مانتے تھے  ، لیکن کہیں کوئی باقاعدہ مجموعہ ایسا نہ تھا کہ جس کو کلیات مضطر کہا جاسکے ۔

اب جاوید اختر ٹھہرے جاوید اختر ! وہ شاید کچھ چین و سکون میں آئے تو اب ان کو یہ خلش ہوئی کہ دادا مرحوم مضطر خیرآبادی کا کلام تلاش کیا جائے تو جناب اس تلاش میں بقول جاوید اختر انہوں نے دس سال صرف کردیئے ۔

کبھی آبائی گھر خیرآباد میں لکڑی کے ٹوٹے، دیمک زدہ بکسوں کو کھنگالا ، تو وہاں سے مضطر خیرآبادی کا کچھ کلام دستیاب ہوا اور پھر مضطر مرحوم بطور مجسٹریٹ جہاں جہاں اپنی نوکری پر رہے ، وہاں کا سفر کیا ، لائبریریوں کو چھانا ۔ اس سفر میں جاوید صاحب خیرآباد کے علاوہ لکھنؤ ، ٹونک ، رامپور ، اندور اور بھوپال گئے ، جہاں ذاتی لائبریروں سے کچھ مواد اکٹھا کیا ۔

الغرض اس طرح جاوید اختر نے ایک ٹیم کے ساتھ مضطر خیرآبادی کا جس قدر کلام اکٹھا کرسکتے تھے ، وہ انہوں نے کیا ۔ اب جو اس کو دیوان کی شکل دی گئی تو وہ پانچ جلدوں کا کلام بن گیا جو اردو ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک استاد شاعر کا غیر مطبوعہ کلام ہے ، جو پچھلے ہفتے دہلی میں شائع کردیا گیا ۔

لیکن یہ سمجھئے کہ یہ قصہ ابھی ادھورا ہے ، کیونکہ مضطر خیرآبادی کے کلام کی تلاش میں ایک ایسی غزل دستیاب ہوئی جو اردو والوں ، فلمی گانوں سے دلچسپی رکھنے والوں اور  ہر کس و ناکس کی زبان پر آج بھی ہے ۔ اور وہ مشہور و معروف غزل ہے ۔

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں
نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے
میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
محمد رفیع صاحب کی آواز میں یہ غزل دنیا بھر میں بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب ہو کر مشہور ہوگئی ۔

گو ادبی حلقوں میں نیاز فتح پوری اور آل احمد سرور جیسے نامور نقادوں نے اس غزل کے بارے میں برابر یہ کہا اور لکھا کہ یہ غزل بہادر شاہ ظفر کی نہیں ہے ، گو کہ بہادر شاہ ظفر ایک بڑے شاعر تھے ، لیکن فلمی دنیا نے اس غزل کو بہادر شاہ سے ایسا منسوب کیا کہ بس ’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘ بہادر شاہ کی ہو کر رہ گئی ،

لیکن جاوید اختر کی مضطر خیرآبادی کے کلام کی تلاش کے دوران خود ان کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی یہ غزل ان کے اور کلام کے ساتھ دستیاب ہوئی ،جس سے یہ بھرم ختم ہوگیا کہ ’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘ جیسی مشہور غزل کا شاعر مضطر ہے، ظفر نہیں ۔ یہ اردو ادب کی بڑی بحث تھی جوآخر پایۂ تکمیل کو پہونچی اور اس طرح اب مستند ہوگیا کہ مضطر خیرآبادی نے ہی اس غزل کو رقم کیا تھا ۔

پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ جاوید اختر کو نہ تو پوری طرح کوئی سمجھا ہے اور نہ سمجھے گا ۔ بھلا بتایئے کہاں فلمی دنیا کی ایک مشہور ہستی اور کہاں اردو ادب کی گتھی سلجھانے کا کام ،یہ جاوید اختر ہی کرسکتے ہیں ۔ خدا ان کو زندہ اور سلامت رکھے تاکہ وہ ایسے نایاب ادبی اور فنی گل کھلاتے رہیں ، جن کی خوشبو سے دبستان اردو ادب معطر ہوتا رہے ۔


اسی لئے ابھی انتظار کیجئے تھوڑی دیر ،جاوید اختر پھر حاضر ہوں گے ، ایک نئے شاہکار کے ساتھ ، اور تب تک آپ لطف اٹھایئے مضطر خیرآبادی کے دیوان ’خرمن‘ کا ، جو اب شائع ہوچکا ہے ۔

بشکریہ : روزنامہ سیاست حیدر آباد انڈیا

Comments are closed.