امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس کا دورہ پاکستان

کمال احمدخان

BN-KB616_USPAKj_G_20150830135649

امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سوسن رائس نے اتوار کو پاکستان کا ایک روزہ دورہ کیا اور وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ آرمی چیف سے ملاقا ت کے فوراً بعد فوج کے تعلقات عامہ ، آئی ایس پی آر، کے سربراہ میجرجنرل عاصم باجوہ نے ٹویٹر پر پیغام جاری کیا کہ سوسن رائس نے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ( آپریشن ضرب عضب) کو سراہاہے اور پاکستان آرمی کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں اور قربانیوں کی تعریف کی ہے۔ عاصم باجوہ نے مزید کہا کہ دونوں رہنماؤں نے افغانستان اور خطے میں امن قائم کرنے کی اہمیت پرزور دیا۔

اس سے پہلے سوسن رائس نے وزیر اعظم پاکستان سے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے سوسن رائس کو اس خطے کی صورتحال کے بارے میں اعتماد میں لیا اور پاکستان کی کوششوں کا ذکر کیا۔ میڈیا کو جو بیان جاری کیا گیا اس کے مطابق اس ملاقات میں بھی سوسن رائس نے دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی حکومت نے امریکہ کی طرف سے 300 ملین ڈالر کی رُکی ہوئی امداد پر تشویش کا اظہار کیااور کہا کہ اگر یہ امداد بروقت ریلیز نہ ہوئی تو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔

لیکن امریکی میڈیا میں اس ملاقات کی جو تفصیلات شائع ہوئیں وہ پاکستانی میڈیا سے بالکل مختلف تھیں۔

وال سٹریٹ جرنل نے لکھا کہ سوسن رائس نے پاکستان کی ٹاپ ملٹری اور سویلین قیادت کو کہا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں عسکریت پسندوں کے حملے ناقابل قبول ہیں۔ رائس نے پاکستان پر زور دیا کہ اس کی سرزمین دہشت گردوں کے زیر استعمال ہے لہذا ان کے خلاف موثر کاروائی ہونی چاہیے۔ اس نے زور دیا کہ خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں جائیں جبکہ اسلام آباد نے الزام لگایا کہ یہ دونوں ملک پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور دونوں پاکستان مخالف عناصر کی مد دسے بدامنی پھیلا رہے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک، جو کہ افغانستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار ہے، کہ خلاف موثر کاروائی کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے حملوں کی روک تھام ہو سکے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہا۔اگست میں افغانستان میں طالبان کے حملوں میں تین امریکی فوجی اور درجنوں افغان شہری ہلاک ہو ئے ہیں۔ اور ان حملوں کا ذمہ دار حقانی نیٹ ورک ہے۔

نیو یارک ٹائمزکے مطابق، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے ایک سال سے شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہے ہیں اور کئی مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کا خاتمہ کیا ہیے۔ حال ہی میں پاکستانی فوج وادی شوال میں آپریشن کر رہی ہے۔مُلاقات میں پاکستان نے حسب معمول 300 ملین ڈالر کی رُکی ہوئی فوجی امداد کا معاملہ اٹھایاجو کہ امریکہ نے روک رکھی ہے ۔

اگلے روز پیر کے دن جرمنی کے وزیر خارجہ ڈاکٹر فرینک والٹر نے پاکستان کے دوروزہ دورے پر آئے ۔ پاکستان کے جزوقتی وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے انہیں بتایا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن ہورہا ہے اوریہ آپریشن حقانی نیٹ ورک سمیت تمام تنظیموں کے خلاف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کامیاب آپریشن کی وجہ سے حقانی نیٹ ورک کے پاکستان میں موجود تمام ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں اور انھوں نے اپنا ٹھکانہ افغانستان شفٹ کر لیا ہے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر والٹر نے وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی اور انہوں نے حکومت کی دہشت گردی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔

حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں۔ عام پاکستانی، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سرکاری صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے جہاں پر صرف وہی کچھ دکھایاجاتا ہے جو ہماری محب الوطن ایسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے۔ سوسن رائس اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان کیا بات ہوئی وہ اس وقت سامنے آئی جب امریکی اخبارات میں شائع ہوئیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا رہا ہے۔

نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے حکومت نے ایسے ڈاکٹر(صحافی ) ملازم رکھ رلیے ہیں جو میڈیا کے ذریعے عوام تک جھوٹی کہانیاں پھیلانے کے ماہر ہوتے ہیں اور اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ عوام اسے سچ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاک بھارت جنگوں کا یہی مسئلہ ہے ۔ پاکستانی ریاست دہشت گردی کے خلاف اپنی

کامیابیوں کی وہی داستان سنا رہی ہے جو پچھلے 68 سے ہمیں سنائی جارہی ہیں۔

نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ ہما رے ’’ڈاکٹروں‘‘ نے تاثر مگر یہ پھیلایا ہے کہ پاکستان۔بھارت سرحدوں پر حالیہ دنوں میں بڑھتی کشیدگی نے چین اور امریکہ کو پریشان کردیا ہے۔ دونوں ملک بڑی شدت سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر قابو نہ پایا گیا تو معاملہ ایٹمی جنگ کی طرف بھی جاسکتا ہے کہ ’’ایٹمی جنگ‘‘ کے امکانات کو شدت سے روکنے کی خاطر چینی حکام کی مشاورت سے سوزن رائس نے ’’اچانک‘‘ پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔یہ سب کچھ ہرگز نہیں ہوا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذکر ضرور ہوا، مگر سرسری۔ اصل توجہ افغان معاملات پر مرکوز رہی اور اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے بشرطیکہ ہمارے ’’ڈاکٹرز‘‘ خود سمجھ کر ہمیں سمجھانے کو تیار ہوں۔

Comments are closed.