لیاقت علی ۔ ایڈووکیٹ
اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ سید سبط الحسن ضیغم جن کی ’پہلی محبت‘ پنجابی زبان و ادب تھی ، کی شنا خت کا حوالہ ان کی اردو تحریریں بن رہی ہیں۔ سید مرحوم جو زندگی بھر پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے کوشاں رہے ، اپنی زندگی میں شاید اپنی اردو تحریروں کی یکجائی اور اشاعت کی اجازت نہ دیتے کیونکہ اردو میں لکھنے کا عمل ان کی شخصیت کا ایسا پہلو تھا جس پر گفتگوسے وہ با لعموم احتراز کرتے تھے ۔ اوریہ بات تو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ بعد از مر گ ان کی پنجابی تحریروں( اگر کوئی ہیں ) کی بجائے ان کے اردو مضامین کو جمع کرکے چھاپ دیا جائے گا ۔
سبط الحسن ضیغم کو جب کبھی اردو میں لکھنے کا موقع ملتا وہ انکار نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ ’اوائل عمری ہی میں جماعت اسلامی کے زیر اثر‘ اردو صحافت سے وابستہ ہوگئے تھے‘ لیکن کوئی دوسرا اردو لکھے ، بولے اور پڑھے یہ انھیں کسی طور گوارا نہیں تھا اور ایسا کرنے والا فرد ان کی طعن و تشنیع سے بچ جائے یہ بھی ممکن نہ تھا ۔ اپنی پنجابیت کے اظہار کے لئے سر پر مخصوص رنگ کی پگ رکھنے اور ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں بات چیت کرنے والے سید سبط الحسن ضیغم نے عمر کے آخری حصے میں ہاتھ میں تسبیح کا اضافہ کر لیا تھا ۔
سید سبط الحسن ضیغم کی زیر نظر کتاب میں شامل زیادہ تر مضا مین انھو ں نے 1991 سے 2008 کے دوران روزنامہ نوائے وقت کے لئے لکھے تھے ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاسی حا لات ومسائل ا ور بین الاقوامی صورت حال کے بارے میں ان کا نقطہ نظر اور حق و مخالفت میں ان کے دلائل، کم و بیش نوائے وقت کے ورلڈ ویو ہی کی باز گشت ہیں۔ حالانکہ دیباچہ نگار کا اصرار ہے کہ’’ سیاسی واقعات کا تجزیہ وہ بائیں بازو کے نظریات کے زیر اثر کرتے اور انہی نظریات پر کمر بستہ رہے اور اسی نقطہ نظرکی ترویج ان کا مطمع نظر تھا۔ ان کی ابتدائی زندگی کے نظریاتی جھکاؤ کا اشارہ شاید اس مجموعہ مضامین میں آپ نہ ڈھونڈ پائیں‘‘۔
بھارت دشمنی ، جنگجویانہ مذہبی قوم پرستی، خالصتان کے قیام کی خواہش اور پاکستان کو درپیش مسائل ومشکلات کی حقیقی ا ور معروضی وجوہات کا ادراک کرنے کی بجائے ان کے پس پشت ’’بین الاقوامی سازشوں‘ ‘ کی موجودگی سید صاحب کی ان تحریروں کے خصوصی موضوعات ہیں جو اس حقیقت کا اشارہ ہیں کہ اپنی ’’ابتدائی زندگی کے نظریاتی جھکاؤ ‘‘ سے تادم زیست وہ چھٹکار ا نہ پاسکے تھے۔
کسی فرد کی شخصیت اور اس کے فکری رحجانات کے ماخذ سمجھنے کے لئے خود انھوں نے جو پیمانہ بتا یا ہے اگر اس کو معیار مان لیا جائے تو ان کے مضامین میں رواں فکری دھارے کی تفہیم آسان ہوجاتی ہے ۔ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’کسی فرد کی شخصیت اور کردار کاخمیر اس کے ابتدائی سالوں کے ماحول میں تخلیق پاتا ہے‘‘(صفحہ57)۔ سید صاحب کے مضامین پڑھ کر ان کے اس ’قول ‘ کی تصدیق ہوتی ہے کہ کس طرح ابتدائی سالوں کے ماحول نے ان کی شخصیت کی تعمیر اور ان کے فکری رحجا نات کی تشکیل میں بنیاد ی رول ادا کیا تھا اور بائیں بازو کے ’زیر اثر‘ آجانے کے باوجود اپنے ابتدائی سالوں کے فکری رحجانات سے وہ عمر بھر چھٹکارا نہیں پاسکے تھے ۔
دیباچہ نگار کے مطابق ’’سید ضیغم کی صحافتی خدمات تقریباً چھ دہائیوں پر محیط ہیں ۔1950-51 میں طالب علمی کے زمانے کے خاتمہ پر جماعت اسلامی کے زیر اثرحافظ آباد سے بطور اخباری نامہ نگار اس کا آغاز کیا۔جماعت اسلامی سے ان کا تعلق غالبا مستقل رکن بننے تک نہیں پہنچا ۔ البتہ اس کے قوی شواہد ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبا کی تاسیس میں ان کا کردار نمایاں رہا‘‘ ( سید مرحوم کا سن پیدائش 1932 ہے اور اسلامی جمعیت طلبا 1948 میں قائم ہوئی تھی جس وقت ضیغم صاحب کی عمر محض 16 سال تھی )۔ ڈاکٹر اسرار احمد(مرحوم) اور ارشاد احمد حقانی(مرحوم) سے ان کے تعلقات اسی دور سے یاد گار ہیں ‘‘۔ گو کہ سید صاحب جماعت اسلامی سے بہت پہلے علیحدہ ہوگئے تھے لیکن اپنے تشکیلی دور میں جماعت سے وابستگی کی بنا پرجو نظری اور فکری اثرات ان کی شخصیت پر مرتب ہوئے تھے ’’اشتراکیت سے ان کا چہر ہ جھلس جانے ‘‘ کے باوجود عمر بھر وہ ان سے پیچھا نہ چھڑا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعے میں شامل ان کے مضامین کی اکثریت بہت حد تک جماعت اسلامی کے نظریات کا پرتو اور پاکستان کی سیاست کے بارے میں روزنامہ’ نوائے وقت ‘کی فکر کے عکاس ہیں ۔
دنیا بھر میں بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ افراد اور سیاسی جماعتیں ایٹم بم بنانے اور اس کے تجربات کو انسانیت کے خلاف جرم خیال کرتی ہیں ۔ لیکن سید صاحب پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر قرار دیتے ہیں ۔وہ رقم طراز ہیں کہ’’ پاکستان کے بارے میں جو دھند پھیل چکی تھی ان ایٹمی دھماکوں کی روشنی سے وہ دھند چھٹ چکی ہے ۔ پاکستانی پریس اور اس سے وابستہ سبھی لوگ اس مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی قوت کے اظہار سے پاکستان کو نہ صرف انقلاب آفرین کر دیا ہے بلکہ ایک نئی قوم کو جنم دیا ہے‘‘ ۔ مزید فرماتے ہیں’’یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کے واحد ملک پاکستان نے جب یہ دشوار گھاٹی(ایٹم بم کا حصول) سر کر لی تو ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی ۔گویا مسلم نشاۃ ثانیہ کے تصور کے خلاف متحد اور اجتماع کرنے والی قوتوں نے چچا سام کی قیادت میں یہو د و ہنود کی ’’مل ورتن‘‘سے ہمیں اندر سے سنگسار کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے ‘‘۔
بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کو پاکستانی فوج، جماعت اسلامی اور’ نوائے وقت ‘پاکستان کو’ دولخت ‘کرنا کہتے ہیں ۔ ان سب کا اصرار ہے کہ یہ بنگلہ دیشی عوام کی جدو جہد نہیں تھی جس نے بنگلہ دیش کا قیام ممکن بنایا بلکہ ہندوستان کی ’’سازشیں اور فوجی جارحیت‘‘تھی جس کی بدولت مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ سید سبط الحسن ضیغم بھی یہی کہتے ہیں ’مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش اور الگ ملک بنانے کا ایجنڈا امریکی مفادات کے لئے وضع کیا گیا تھا ‘۔ان کے نزدیک امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ ’مشرق بعید کے ممالک سے مشرقی پاکستان کے ذریعہ جو قرب ہے وہ مسلم بلاک کی تشکیل میں غیر معمولی کردار ادا سکتا ہے چنانچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنا ہے ‘۔ یعنی پیرٹی ہو یا بنگلہ دیش کے عوام پر مغربی پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے ہونے والی سیاسی ، معاشی اور لسانی زیادتیاں اور ناانصافیاں سب کچھ ہوائی باتیں تھیں ۔ اور اگریہ نہ بھی ہوتیں پھر بھی امریکہ نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا نا ہی تھا۔ سیدصاحب سازشوں کو سیاسی اور سماجی عمل کی قوت محرکہ مانتے ہیں اورجہاں تک سیاسی ،سماجی اور معاشی محرکات کا تعلق ہے تو اس کی ان کے نزدیک اول تو کوئی اہمیت ہی نہیں اور اگر کچھ ہے تو محض ثانوی ۔
سید ضیغم بھارت کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے خواہ اس کا جواز ہو نہ ہو ۔سارک میں شامل ممالک کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’بھارت کے دستور کے مطابق وہ ایک سیکولر ریاست ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ایک ہندو بنیاد پرست ریاست ہے۔ دستور کے لحاظ سے نیپال ایک ہندو ریاست ہے لیکن کریکٹر کے نقطہ نظر سے ایک سیکولر ملک ہے ۔اسی طرح سری لنکا بھی بدھ مت کی اکثریت ہونے کے باوجود ایک سیکولر سٹیٹ ہے ۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش،پاکستان اور مالدیپ مسلم ممالک ہیں اور تینوں ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود مذہبی ریاستیں نہیں ‘۔آزادی کے بعد بھارت میں ایک سے زائد مسلمان، سکھ اور دلت صدر مملکت ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اورمتعدد ریاستوں کے گورنرز بن چکے ہیں لیکن وہ اپنے کریکٹر کے اعتبار سے سیکولر سٹیٹ نہیں جب کہ پاکستان جہاں صدر تو دور کی بات ہے کسی صوبائی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بھی آج تک کوئی غیر مسلم نہیں بن سکا، سید صاحب کے نزدیک مذہبی ریاست نہیں ہے ۔ اسے کہتے ہیں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔
موچی دروازہ کامیدان بر صغیر کی سیاسی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔یہی وہ میدان ہے جہاں بر صغیر کی کم و بیش سب ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے عوام کی حمایت حا صل کرنے کے لئے اجتماعات منعقد کئے ۔لیکن ضیغم صاحب کو موچی دروازہ کی جو خوبی سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ کوئی اورنہیں علم دین ہے جس نے توہین مذہب کے نام پر ایک ہندو پبلشر راجپال کو قتل کردیا تھا ۔۔وہ موچی دروازہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’یہی وہ میدان ہے جہاں علم دین شہید نے ایمان کی وہ دولت پائی جس نے ہندوستان کی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا ‘۔
اشیا ئے خورد و نوش میں ملاوٹ تاجروں کی زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی ہوس نہیں بلکہ سید صاحب کے نزدیک یہ’ یہودی سازش‘کاکیا دھرا ہے ۔ اس ’سازش ‘کا انکشاف کرتے ہوئے کہتے ہیں ’سیاسی اور کاروباری بد دیانتی پیدا کرکے یہودی ہمیں تباہ و بر باد کر نا چاہتے ہیں‘ ۔
’نوائے وقت ‘کے مدیر مجید نظامی کی مدح سرائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں’گذشتہ 36سالوں میں( مجید نظامی ایڈیٹر ’نوائے وقت‘) مسٹر ایوب خان،یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو، ضیا ء الحق اور نواز شریف کی حکومتوں کو دیکھ چکے ہیں ۔اس میں فوجی مارشل لا اور سول مارشل لا کے طویل ترین زمانے(؟) بھی شامل ہیں لیکن کسی حکمران کے منہ پر سچی بات کہنے سے دریغ نہیں کیا ۔ہر عہد میں ٹکر لی ۔حکمرانوں کو قومی ،ملی اور جمہوری شاہراہ پر لانے کے جتن کئے ۔ہر محاذ پر ملک و ملت کو ذہنی طور پر فکری غذا مہیا کر کے انہیں چاق و چوبند رہنے کی تلقین کی ۔وہ اس عہد میں محنت کی عظمت کی زندہ ترین مثال ہیں ۔مستبد حکمرانوں کے سامنے واضح اور غیر مبہم برہان،ان کے جرات اظہار سے جاگیر داروں اور لیٹرا شاہی کو اپنے انداز تحکم کو تبدیل کرنا پڑا ‘۔اسے کہتے ہیں جادو جو سر چڑھ کر بولے۔
جنرل پرویز مشرف جب منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر چیف ایگزیکٹو بنے تو اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں ’12اکتوبر 1999کو نام نہا دسیاست (نواز شریف حکومت )کی اس بساط کو الٹنے پر ۔۔ہر فرد نے خواہ وہ شہری ہو یا دیہاتی ، سکھ کا سانس لیا ہے ‘۔وہ اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ دنیا جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام کی مخالفت کیوں کررہی ہے کہتے ہیں ’دنیا کی اچھی حکومتوں کا فرض تھا کہ اس عمل ( نواز شریف حکومت کا خاتمہ )کی مذمت کرنے کی بجائے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے کہ کن حالات نے انہیں اس مقام پر پہنچادیا جس کا نتیجہ 12اکتوبر 1999کی یہ تبدیلی وقوع پذیر ہوئی اور اللہ تعالی نے ملک اور پاکستان کے 14کروڑ عوام کو اس ہلاکت سے بچا لیا ‘۔
ضیغم صاحب کشمیر کی آزادی کو نہ صرف مذہب سے جوڑتے بلکہ اسی سیاق سباق میں اس کا تجزیہ اور مطالعہ کرتے ہیں ۔وہ کشمیر کی آزادی کو خالصتان کے قیام کی طرف ایک اہم قدم قرار دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں ’جموں کشمیر کے عوام مسلمان بھی ہیں اور تہذیبی ،ثقافتی ،لسانی طور پر اہل پاکستان ہی کا حصہ دکھائی دیتے ہیں ‘۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری ’جہاد‘کے حوالے سے امیر (سابق) جماعت اسلامی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’قاضی حسین احمد مجلس احرار سے بچپن سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا نام بجا طور پر اس کی شہادت دیتا ہے ۔قاضی صاحب نے بر وقت اپنے فکری پس منظر کو بروئے کار لا کر جماعت کو خواص کے حصار سے نکال کر فقید المثال انسانی زنجیر بنا کر مسئلہ کشمیر کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے اور مقبوضہ جمو ں کشمیر میں چلنے والی عوامی جنگ کو دنیا بھر میں موضوع سخن بنا کر اسے کامیابی سے ہمکنا ر ہونے کے قریب کر دیا ہے ۔یہ ایک ایسی لسی ( کشمیر ی عوام کی جدو جہد )ہے جو عوامی امنگوں سے سرشار سینوں میں ایمان کی حرارت سے بلوئی گئی‘۔
خالصتان سید صاحب کا محبوب ومرغوب موضوع ہے۔ مجموعے میں اس بارے میں ایک سے زائد مضامین شامل ہیں۔ ان کے مجوزہ خالصتان میں سکھوں کے سوا دیگر پنجابیوں کی گنجائش نہیں کیونکہ کہیں بھی انھوں نے ہندو،جین یا مسیحی پنجابیوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہندووں کا ذکر انتہائی حقارت سے کرتے اور انھیں’ چھچھوندر سے خوف زدہ ہونے والی قوم‘ قرار دیتے ہیں ۔ وہ خالصتا ن کو سکھ ہوم لینڈ اور اس کے قیام کو سکھ گرووں کے خوابوں کی تعبیر سمجھتے ہیں ۔دراصل کشمیر کی طرح خالصتان بھی پاکستان فوج کا پراجیکٹ ہے جس کا مقصد بھارت کو زچ کرنا اور اسے اپنی سرحدوں سے دور رکھنا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ایک مرحوم لیڈر اور آئی جی پولیس راؤ رشید نے پولیس فورس کے دور کی یاداشتیں اپنی وفات سے بہت سال قبل لکھی تھیں جن میں انھوں نے لکھا تھا کہ قیام پاکستان کے کچھ ہی سال بعد ہماری ایسٹیبلشمنٹ نے یورپ کے مختلف ممالک کے سفارت خانوں میں خالصتان سیل قائم کئے تھے تاکہ بھارتی پنجاب کے سکھوں کو علیحدگی پسندی کی طرف راغب کیا جائے ۔ ریڈیو پاکستان کا پروگرام ’پنجابی دربار ‘ اسی پراجیکٹ کا حصہ ہے جو آج بھی اسی کام میں مصروف ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے خالصتان کے اس فوجی پراجیکٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری تھی ۔ چوہدری ظہور الہی مرحوم ،’نوائے وقت‘ اور اس قبیل کے دیگر اداروں نے اس پراجیکٹ کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ خالصتان اورافغانستان میں ’تزویراتی گہرائی‘ کا حصول ایک ہی نوعیت کے منصوبے ہیں۔
سید سبط الحسن ضیغم کے لکھے مضامین کے اس مجموعے کو ’پنجاب: بدلتا تناظر‘ کا عنوان دیاگیا ہے جو مناسب نہیں لگتا کیونکہ اس میں پنجاب بالخصوص پاکستانی پنجاب کے بارے میں بہت کم مواد موجود ہے اور جہاں تک بھارتی پنجاب کاتعلق ہے تو اس کا ذکر بھی خالصتان کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ وہاں کیا سماجی و معاشی تبدیلیوں وقوع پذیر ہوئی ہیں ان کا ذکر ندارد ہے ۔ ان مضامین میں پاکستان کی سکیورٹی کا وہ تصور جو پاکستان کے عسکری اداروں سے منسوب ہے، بھارت دشمنی اور خالصتان کے قیام کی خواہش، بار بارجگہ پاتی ہے۔*۔
One Comment