اخلاقی وثقافتی اقدار

ڈاکٹر مبارک علی

انسانی تاریخ میں تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ایک وہ موڑ آیا جب معاشرے کی اقلیت نے اکثریت پر غلبہ حاصل کرکے ان پر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ یہ اقلیت معاشرے کے چنیدہ، طاقتور اور مضبوط افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ جو اپنا اقتدار اپنی قیادت کو قائم رکھنے کے لئے نہ صرف ذرائع پیداوار کو اپنے قبضہ میں رکھتی ہے بلکہ معاشرے میں ایسی روایات، تصورات، نظریات اور اقدار کو بھی فروغ دیتی ہے جو اس کے اقتدار کو مزید مستحکم او رمضبوط بنا سکے۔


اگر ہم اپنے معاشرے کی اخلاقی اور ثقافتی اقدار کا تجزیہ کریں تو یہ وہ قدریں تصورات وخیالات ہیں جو اقلیتی بااثر طبقہ نے اکثریتی طبقہ کو اپنی غلامی میں لانے کے لئے پروان چڑھائے تاکہ اکثریتی طبقہ ذہنی طور پر پسماندہ ہوکر ان کے آگے سرنگوں رہے۔ ان اخلاقی وثقافتی قدروں کے ذریعہ سے ان کو روحانی طو رپر مفلوج بناکر اور ان کے کردار اور شخصیت کو کچل کر بے حس اور بے جان بنا دیا جائے تاکہ ان کا احساس و شعور اور ان کی سوچ وفکر ختم ہوکر رہ جائے۔

ہمارے معاشرے کی اخلاقی وثقافتی قدروں کی بنیاد حکمران طبقہ کی خصوصیات، ان کے کردار کے اوصاف اور ان کی خوبیاں ہیں۔ مثلاً ہماری زبان میں لفظ شریف کا استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ شخص کردار اور شخصیت کے لحاظ سے انتہائی نیک اور پاک باز ہے۔ اگر اس لفظ کی بنیاد کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ ’’شرف‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ممتاز کے ہوتے ہیں۔ اسی سے شریف نکلا، جس کی جمع اشراف ہے۔ یہ لفظ امراء، والیان اور شہزادوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ لہٰذا شریف اور اشراف وہ لوگ تھے جو امیر دولت مند یا صاحب اقدار ہواکرتے تھے۔ اسی حیثیت سے وہ معاشرے میں ممتاز اور بزرگ تھے۔ لہٰذا شرافت وخوبی اور وصف ہوا جس کی حامل معاشرے کے امراء تھے۔ اب اگر اس لفظ کو معاشرے کے عام افراد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر مہربانی وکرم کرکے اس حکمران طبقہ کے ایک وصف سے نوازا جارہا ہے۔

اسی طرح ایک دوسرے لفظ کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہ لفظ ہے ’’معزز‘‘ جو’’عز‘‘ سے نکلا ہے۔ اور جس کے معنی طاقت وقوت کے ہیں۔ یہ لفظ بھی حکمران طبقہ کے ایک وصف کو ظاہر کرتا ہے، یعنی معزز وہ لوگ ہوئے جو معاشرے میں بااثر اور صاحب اقتدار ہیں۔

ہمارے معاشرے کے بااثر صاحب ثروت اور حکمران طبقہ نے اپنی دولت کا سہارا لے کر ایسی قدروں کو فروغ دیا جس کے ذریعہ ان کا تسلط معاشرے پر قائم ودائم ہے۔ ایسی قدریں جن کا فروغ دولت کی وجہ سے ہوا وہ’’فیاضی‘‘ ’’سخاوت‘‘ اور’’جودوکرام‘‘ ہیں فیاض اور سخی وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے پاس ضروریات سے زیادہ مال ودولت ہو، اور اس دولت میں سے ایک حصہ کو وہ عوام میں’’خیرات‘‘ ’’عطیہ‘‘ ’’بخشش‘‘ اور’’صدقات‘‘ کا نام دے کر نیک نامی اور شہرت حاصل کرلیتا ہے۔ ایسے فیاض وسخی اور حاتم طائی لوگوں کی داستانیں سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی ادب وشاعری میں بھی نمایاں مقام حاصل کرلیتی ہیں۔

اس پس منظر میں جو جذبہ کار فرما نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو ان قدروں کے ذریعہ مرعوب کیا جائے اور اپنی عظمت ان سے منوائی جائے اور ساتھ ہی میں خیرات وبھیک دے کر کسی شخص کی مجبوری ولاچاری اور اس کے دکھوں کو ننگا کیا جائے اور اس ذریعہ سے اس کی خودداری غیرت و حمیت کے احساسات کو زخمی کرکے کچل دیا جائے۔ یہاں تک کہ اس کی پوری شخصیت اعتماد اور کردار کی مضبوطی سے محروم ہو جائے۔ ایک بار جب کسی شخص کو ذہنی طور پر مردہ بنادیا جائے تو اس شخص میں جدوجہد، عمل او رکوشش کے تمام جذبات ختم ہوجاتے ہیں اور وہ دوسروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص خود اپنی نظروں میں ذلیل وخوار ہوجاتا ہے اور اس کی ہستی معاشرے میں کیڑے مکوڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

یہ رحم وکرم یہ سخاوت وفیاضی، یہ عطاء وبخشش نہ صرف معاشرے کی اکثریتی طبقہ کی صلاحیتوں، امنگوں، اور جوش ولولہ کو ختم کردیتی ہے۔ بلکہ ان میں احساس کمتری، ذلت وخواری، او ربے غیرتی وبے حیائی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ان اقدار سے بااثر طبقہ اکثریت پر سیاسی وذہنی تسلط حاصل کرتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس تسلط سے نجات پانے کی عوام کی جانب سے کوئی کوشش نہیں ہوتی وہ ان اقدار کی صحیح حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم میں مالک وملازم، آقا و خادم، سرپرست وزیر دست اعلیٰ وادنیٰ کی اخلاقی قدریں بھی جدا جدا ہیں۔ مثلاً ایک خادم او رملازم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آقا کا وفادار ہو اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرے۔ اس کے احکامات کی بے چوں وچراتعمیل کرے یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر اپنے آقا کی خاطر جان تک دے دے۔ خادم میں یہ احساسات وجذبات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟

اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے آقا اور ملازم کی شخصیتوں کو دیکھا جائے، آقا وہ شخص ہے جو اپنے ملازم یا خادم کو معاش فراہم کرتا ہے، اس کی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے۔ اس کے عوض وہ یہ اُمید کرتا ہے کہ اس کا خادم اس کی اطاعت کرے اس کا وفادار رہے۔ ایسے خادم کو نمک حلال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ او رجو خادم مالک کی وفاداری کے جذبہ اور جوش میں قربانیاں دیتے ہیں ان کی مثالیں تاریخ اور ادب میں بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔ اور انہیں وفاداری کے پیکر اور ایثار کے مجسمے بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے اس سے متاثر ہوں اور اپنی جان دینے کے لئے رہیں۔

آقا اور خادم کے اس لین دین کے پس منظر میں ایک تاجر اور گاہک والا معاملہ ہے۔ آقا ایک تاجر ہے جو چند سکوں کے عوض خادم سے اس کی محنت اور زندگی کا سودا کرتا ہے اور اس کو’’وفاداری‘‘ اطاعت گزاری’’جانثاری‘‘ اور ایثار کی قدروں سے تقویت دیتا ہے، تاکہ اس کی مال وجان اور دولت کی حفاظت کے لئے پاسبان رہیں۔ اور ان پاسبانوں میں سے اگر کوئی ذرا بھی مخالفت کرے یا اپنے حق کی بات کرے یا نگہبانی میں کوتاہی کرے تو ایسے شخص کو ہمارے ہاں’’نمک حرام‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس کے پس منظر میں سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں کہ اقلیتی دولتمند اور بااثر طبقہ، غریبوں پر حکومت کرے اور ذہنی طور پر انہیں ان اخلاقی اور ثقافتی قدروں میں جکڑے رہے تاکہ ان کے خلاف نہ تو کوئی بغاوت ہو او رنہ کوئی آواز اٹھے۔

جب ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس کے علاوہ دوسرے تصورات خیالات، اور اقدار ملتی ہیں جن کی مدد سے طبقاتی تقسیم کو استحکام ملتا ہے۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں خاندان کا تصور انتہائی اہم ہے۔ اس لئے اگر کسی شخص کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ ان کا تعلق شریف معزز یا صاحب حیثیت گھرانے سے ہے یا یہ بڑے خاندانی آدمی ہیں تو ان صاحب کی بڑائی اور بزرگی کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ اعلیٰ یا بڑے خاندان والے میں سوائے نیکی، پاکبازی، شرافت، شرم وحیاء اور دوسری خوبیوں کے اور کچھ ہوہی نہیں سکتا۔

اس لئے اس موقع پر یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ آخر یہ خاندان کیا ہے؟ اور خاندان کے ساتھ جو یہ اضافی الفاظ لگائے جاتے ہیں یعنی شریف اور اعلیٰ یہ کیا ہیں؟

ہمارے ان سوالوں کا جواب ہمیں معاشرے کی طبقاتی تقسیم کی جانب لے جاتا ہے۔ وہ تقسیم جو دولت وطاقت اور اقتدار کی بنیادوں پر ہوتی ہے یعنی اعلیٰ شریف خاندان وہ ہوتا ہے جس کے پاس دولت وطاقت ہو اور جس کے پاس اقتدار ہو۔ اس کے مقابلہ میں غریب او رمفلس کا بھی خاندان ہوتا ہے۔ مگر وہ’’خاندانی آدمی‘‘ نہیں ہوتا ہے۔ خاندانی ہونے کا شرف ہمارے معاشرے میں ہر شخص کو نہیں بلکہ یہ ان محدود افراد کو ہے جن کا حسب و نسب اور جن کے خاندانی شجرے انہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز کریں۔ اس لئے معاشرے میں وہ شخص شریف اور معزز کہلانے کا مستحق نہیں جس کا خاندان اور حسب و نسب اعلیٰ نہ ہو۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہر وہ شخص جو دولت واقتدار سے محروم ہو وہ مجہول النسب شخص ہے۔ اور ہر وہ شخص جوکھاتے پیتے گھرانہ سے ہو معاشرے میں عزت کا مستحق ہے۔

مذہب، سرمایہ اور اقتدار کی بنیادوں پر بننے والے یہ خاندان وہ استحصالی قوتیں ہیں جو خود کو معاشرے کے دوسرے افرد سے افضل گردانتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر قائم شدہ خاندان سیدوں، صوفیوں، پیروں، اور درویشوں کے ہیں۔ سرمایہ اور اقتدار کی بنیاد والے خاندان جاگیرداروں، زمینداروں، سرمایہ داروں اعلیٰ عہدے داروں اور افسروں کے ہیں۔ یہ سب مل کر معاشرے میں خواص کا طبقہ پیدا کرتے ہیں۔

خاندان کے تصور کو مزید مستحکم اور مضبوط بنانے کے لئے ہمارے معاشرہ میں ایک اور اہم تصور ’’خون کی پاکیزگی‘‘ کا بھی ہے۔ ہمارے ہاں اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ جس کی رگوں میں’’شریف خون‘‘ گردش کرتا ہے وہ ہمیشہ صاحب کردار ہوتا ہے۔ یہ خون کی پاکیزگی کیا ہے؟ یعنی وہ خون جس میں عوامی خون کی آمیزش نہ ہو اور صرف اس طبقہ کا خون ہو جو خود کو اعلیٰ، ممتاز، شریف اور معزز کہلاتا ہے یہ اس بات کی کوشش ہے کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تقسیم مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم رہے۔

خون کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ صاحب اقدار طبقہ ’’نیکی و پاکیزگی‘‘ پر بھی زور دیتا ہے۔ مثلاً اردو زبان میں ’’اردوئے معلی اور بازاری زبان‘‘ کے فرق کو دیکھئے۔ اردوئے معلی شہزادوں اور امراء کے خاندانوں میں دھل کر سجی سجائی او رنکھر کر آئی ہے۔ اس لئے یہاں کے استعمال شدہ محاورے الفاظ اور ضرب الامثال معیاری ہیں۔ اس کے مقابلہ میں بازاری زبان ہے۔ چونکہ بازار ہمارے معاشرتی پس منظر میں عوامی علامت ہے اس لئے بازاری ذہن، بازاری بات چیت اور بازاری خیالات وہ فقرے ہیں جو کسی شخص کی پست اور حقیرذہنیت کے اظہار کے لئے بولے جاتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری زبان میں ایسے الفاظ، محاورے اور روز مرہ کا استعمال ہوتا ہے کہ جو ارباب اقتدار طبقہ کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور ہر موڑ پر معاشرتی تقسیم کی تلخ حقیقت کا احساس دلاتا ہے۔ مثلاً خواص وعام، اعلیٰ وادنیٰ افضل واسفل، برتر وکمتر، شریف ورذیل، معزز وحقیر اور امیر وغریب وغیرہ ان میں سے وہ الفاظ جو ابااثر طبقہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کے معنی اور استعمال میں خصوصیت ہے۔ مثلاً’’خواص‘‘ اور’’عام‘‘ خاص کا مفہوم ہر اس شے کے لئے ہوتا ہے جو قدر وقیمت کے لحاظ سے اعلیٰ و قیمتی ہو۔ یا وہ چیز جو دوسروں سے ممتاز ہو۔ اس کے مقابلہ میں’’عام‘‘ وہ چیز ہے جس کی کوئی اہمیت اور قدر وقیمت نہیں۔ اسی مناسبت سے افضل برتر، شریف ومعزز، اور امیر وہ الفاظ ہیں جو مفہوم کے لحاظ سے ایک محدود طبقہ کی افضیلت کو ہمارے روز مرہ اور بول چال میں ظاہر کرتے ہیں جبکہ نچلا اسفل کمتر، زیر دست رذیل اور حقیر وہ الفاظ ہیں جو معاشرے کے اکثریتی طبقہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ذہنی طور پر اکثریتی طبقہ نے صرف اس طبقاتی تقسیم کو قبول کرلیا ہے۔ بلکہ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس اقلیتی طبقہ کا ایک رکن بن جائے۔ ہمارے معاشرے میں اگر یہ شرف کسی کو حاصل ہوجائے تو یہ اس کی زندگی کی معراج ہوتی ہے، اگرچہ ایسے شخص کے لئے جس کا تعلق نچلے طبقہ سے ہو اور دولت وثروت کی بنیاد پر وہ اعلیٰ طبقہ میں شامل ہونا چاہے اور ان کے طور طریق اور عادات کو اختیار کرے تو ایسے شخص کا پہلے پہلے’’ نو دولتی‘‘ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اور’’کوّاچلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ والی کہاوت بھی کہی جاتی ہے۔

معاشرے کی اکثریت جو اس طبقہ کی حدوں سے بہت دور رہتی ہے، بعض اوقات خود کو ذہنی طور پر مطمئن رکھنے کے لئے اپنے ایسے نام رکھ لیتے ہیں جو ان کی اعلیٰ طبقہ سے وابستگی اور مرعوبیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً شہنشاہ، بادشاہ، شہزادہ، شہزادی، ملکہ، ثروت، راجہ اور رانی وغیرہ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ان اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے سہارے حکمراں اور بااقتدار طبقہ نے معاشرے میں اپنا تسلط قائم کیا اور حکومت کی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اخلاقی قدروں کی بنیاد ایک طبقہ سے وابستہ ہے۔ اس لئے ان قدروں کو آفاقی یا ابدی کہنا یا انہیں حق اور سچائی قرار دینا سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ نہیں۔ اس کے پس منظر میں حکمران طبقہ کی اس کوشش کے سوا اور کچھ نہیں کہ ان کی مدد سے عوام کے ذہنوں کو مسخر کیا جائے۔ ان کی فکر کو محدود کیا جائے اور ان کی صلاحیتوں کی نشوں ونما کو روکا جائے تاکہ معاشرے میں ان کے تسلط کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو۔ جب اس مزاحمت کا فقدان ہوگا تو آسانی سے عوام پر حکومت کی جاسکے گی۔*۔

Comments are closed.