ماضی حال اور مولانا آزاد

ڈاکٹر مبارک علی

????????????????????????????????????

مولانا ابولکلام آزاد ایک عظیم اسکالر، خطیب اور سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے مذہبی اور سیاسی رجحانات پر اثر ڈالا۔ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا لہٰذا ان کے بے شمار عقید ت مند بھی تھے جو ان کی تقلید کرنا عین ثواب سمجھتے تھے۔ ایک مذہبی اسکالر کی حیثیت سے وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کو مذہب کے ذریعے دوبارہ جوان کیا جا سکتا ہے۔

اپنے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے 1912 میں علمائے دین کی پارٹی تشکیل دی جسے حزب اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے علمائے دین کو سیاست میں شریک کیا تا کہ مذہب کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد کرنے کا مقصد حاصل کیا جا سکے اور اپنی بقاء کے لئے جدوجہد کے حوالے سے ان میں سیاسی شعور بیدار کیا جا سکے۔ اپنی اس تنظیم کی بنیاد پر وہ چاہتے تھے کہ علمائے مذہب کو سیاست کے اسرار و رموز کے حوالے سے ٹرین کیا جائے اور انہیں ان کی خود ساختہ تنہائی سے نکالا جائے۔

اپنے کردار کو آگے بڑھانے کے لئے آزاد ایک پین اسلامی بن گئے اور دو ہفتہ وار اخبارات شروع کئے، 1912 میں الہلال اور 1914 میں البلاغ جن کے ذریعے انہوں نے مسلم دنیا کی خبریں پھیلانا شروع کر دیں۔ جب سلطنت عثمانیہ بالکن جنگوں میں مصروف تھی تو ان کے اخبارات نے اس کے بارے میں اکثر خبریں رپورٹ کیں جن میں ترکی کاز کے ساتھ ہمدردی واضح تھی۔ ہندوستان کے اکثر مسلمان ان اخبارات کو پڑھنے لگے کہ اس سے ان میں شناخت کا احساس پیدا ہوتا تھا اور انہوں نے خود کو وسیع تر اسلامی دنیا کے ساتھ منسلک محسوس کرنا شروع کر دیا۔

آزاد نے علمائے دین کے تاریخی کردار کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بھی کوشش کی۔ اپنی کتاب تذکرہمیں انہوں نے مسلم کمیونٹی کے لئے علماء کے کردار کا کھوج لگایا اور شیخ احمد سرہندی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے مطابق شیخ سرہندی نے تنہا مغل شہنشاہ اکبر کے ملحدانہ نظریاتکے مقابلے میں اسلام کے لئے مزاحمت کی اور اس کا دفاع کیا۔ آزاد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے شیخ سرہندی کو بطور ہیرو پیش کیا اور اکبر کی مذہبی پالیسیوں پر تنقید کی۔

اکبر کے بارے میں آزاد غلط تھے کہ اس کے خیالات ملحدانہ تھے۔ تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات غلط ہے۔ اکبر ملحدیا دہریہ نہیں تھے بلکہ اس کے برعکس ان کا مقصد تو سچائی کی تلاش تھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے تمام مذاہب کے عالموں اور اسکالرز کو عبادت خانےآنے کی دعوت دی تھی جو کہ انہوں نے فتح پور سیکری میں قائم کیا تھا جہاں وہ ان سے ان کے عقائد کے حوالے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔

آزاد کی جانب سے تاریخ کی تشریح نے بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیا۔ اس کے نتیجے میں احمد سرہندی دو قومی نظرئیے کے ایک چیمپئن بن کر سامنے آئے جبکہ اکبر کی سیکولراور اسلام دشمن کے طور پر مذمت کی جانے لگی۔اس کے علاوہ انہوں نے شاہ ولی اللہ جیسے علماء کی ہندوستان کے مسلمانوں کے مصلح کے طور پر کی جانے والی خدمات پر تعریف کی۔ ان کی لکھی تحریروں سے ان علماء کی ساکھ بہتر ہوئی جنہوں نے آگے چل کر ہندوستانی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

وہ ایک ایسے پین اسلامسٹ سے جو کہ علمائے دین کو سیاست میں متعارف کروانے کا ذمہ دار مانے جاتے ہیں ایک نیشنلسٹ بن گئے۔ تاہم ان کی زیادہ تر زندگی پراسراریت کے پردوں میں چھپی رہی۔

جب ہندوستان میں خلافت موومنٹ کا آغاز ہوا تو آزاد اس کے پرجوش حمایتی بن گئے۔ اس کی ناکامی کے بعد، انہوں نے انڈیا کے مسلمانوں کا سپریم لیڈر بننے کی بھی کوشش کی تاہم وہ اس کوشش میں ناکام رہے کیونکہ مذہبی اسکالرز نے انہیں ایک امام کی حیثیت سے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس ناکامی کے باوجود ان کے ماننے والوں نے انہیں امام الہند کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ اس سے ہوا یہ کہ مزید اماموں کے لئے دروازے کھل گئے جیسے امام الشریعہ جو عطااللہ شاہ بخاری کا لقب ٹھہرا۔

آزاد نے اپنی اردو تحریروں میں ایک خاص انداز اپنایا۔ انہوں نے سر سید احمد خان کامتعارف کروایا گیا سادہ طرز تحریر تبدیل کر دیا۔ سر سید نے اس سادہ طرز تحریر کے ذریعے اردو کو فارسی ترکیبوں سے آزاد کروایا تھا جبکہ ان کے مقابلے میں آزاد نے زبان کو عربی زدہ کرنے کے لئے مذہبی ترکیبوں، استعاروں اور عربی الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا۔ اس سب کے نتیجے میں عام پڑھنے والوں کے لئے اردو زبان کو سمجھنا خاصی حد تک مشکل ہو گیا۔

آزاد کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ کسی کو ان کی جائے پیدائش نہیں معلوم اور اس حوالے سے بھی رائے میں اختلاف ہے کہ آیا انہوں نے الازہر سے تعلیم حاصل کی تھی یا نہیں تاہم اس حوالے سے وہ ہمیشہ خاموش رہے اور کبھی بھی اپنی پوزیشن واضح نہیں کی۔ شاید وہ اپنی شخصیت کو خود بھی اسرار کے پردوں میں چھپائے رکھنا چاہتے تھے۔

رفتہ رفتہ آزاد کے مذہبی اور سیاسی نظریات بدلتے گئے اور وہ ایک پین اسلامسٹ سے ہندوستانی نیشنلسٹ اور انڈین نیشنل کانگریس کے ممبر بن گئے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے جھگڑے میں انہیں مسلم لیگ کے ہمدردوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس تمام توہین اور بے عزتی کو برداشت کرتے ہوئے اپنی نیشنلسٹ اپروچ پر ڈٹے رہے جو ان کے خیال میں ہندوستان کے مسلمانوں کے مفاد میں تھی۔

بٹوارے کے موقع پر، انہوں نے مسلمانوں سے ہندوستان میں ہی رہنے اور اپنا ثقافتی ورثہ پیچھے چھوڑ کر پاکستان ہجرت نہ کرنے کی اپیل کی۔ آزادی کے بعد انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے نمایاں اور قابل تعریف کردار ادا کیا۔

ویسے آزاد کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہیں کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ان کے سیاسی اور سماجی خیالات تبدیل ہو گئے تھے اور یہ کہ اپنے کیرئیر کے آغاز میں ان سے کیا غلطی ہوئی۔ اب یہ کام تاریخ دانوں کا ہے کہ وہ آزاد کی شخصیت اور ان کے خیالات کے حوالے سے پڑے اسرار سے پردے اٹھائیں۔

4 Comments