قرآن و سنت ہمارا شیوہ، آل انڈیا سنی علماء کونسل کی تجویز مسترد، مسلم پرسنل لاء بورڈ
لکھنؤ۔ 3 ستمبر۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے آج واضح طور پر کہا ہے کہ طلاق ثلاثہ کے نظام کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ بورڈ نے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا کہ تین مرتبہ طلاق دینے سے قبل لازمی طور پر تین ماہ کی مہلت دی جانی چاہئے تاکہ ازدواجی جوڑے میں باہمی مصالحت کی راہ ہموار ہوسکے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان مولانا عبدالرحیم قریشی نے کہاکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تین مرتبہ طلاق دینا ایک بڑا جرم ہے لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ طلاق ثلاثہ کے عمل کو مکمل تصور کیا جائے گا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ آل انڈیا سنی علماء کونسل نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے علاوہ دیوبند اور بریلوی مسلک کے حامل اداروں کو مکتوب روانہ کیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کیا اسلامی قانون میں یہ گنجائش فراہم ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص ایک ہی نشست میں تین مرتبہ طلاق دے دے تو بھی اسے ایک ہی طلاق تصور کی جائے۔
مولانا عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو تاحال ایسا کوئی مکتوب نہیں ملا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ہم اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دیگر اسلامی ممالک میں کیا ہورہا ہے۔
ہم یہ جاننا نہیں چاہتے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، سوڈان اور دیگر ممالک کیا طرزعمل اختیار کررہے ہیں۔ ہم صرف اور صرف قرآن مجید، حدیث شریف اور سنت رسول ؐ کو ہی اختیار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام میں ایک ہی نشست میں تین مرتبہ طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے لیکن ہمارے پاس مکمل نظام حیات ہے اور اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مولانا عبدالرحیم قریشی نے بتایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ملک بھر میں علماء کو ایک سوالنامہ روانہ کیا ہے جس میں یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا کسی شخص کو تین طلاق دینے پر سزاء دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قدیم فتویٰ موجود ہے جس کے مطابق ایک ہی نشست میں تین مرتبہ طلاق ایک جرم ہے لیکن طلاق پوری طرح واقع ہوجائے گی۔ پہلے اس طرح کے شوہروں کو کوڑے لگائے جاتے تھے لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے علماء سے یہ جاننا چاہا کہ موجودہ حالات میں کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ ہم ان تمام علماء کو مدعو کریں گے اور اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
جماعت رضائے مصطفی کے جنرل سکریٹری مولانا شہاب الدین نے کہا کہ ایک ہی نشست میں تین طلاق کو ایک طلاق تصور کرنے کا مطالبہ ماضی میں بھی کیا گیا تھا لیکن حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک نشست میں 3 مرتبہ طلاق دی جائے تو ازدواجی رشتہ منقطع ہوجائے گا۔
حیدر آباد(دکن) کی مسلمان تنظیم کے عہدیدار نے کہا ہے کہ مسلم معاشرہ کئی مسائل سے دوچار ہے اور ایسے حالات میں بعض نام نہاد تنظیمیں مسلمانوں کے شرعی امور میں مداخلت کی کوشش کررہی ہیں ۔ یہ تنظیمیں دراصل اسلام اور مسلمانوں سے بغض و عناد رکھتی ہیں لیکن خود کو ان کے ہمدرد کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دے رہی ہیں کہ شرعی معاملات بالخصوص نکاح اور طلاق جیسے امور میں تبدیلیاں لائی جانی چاہیے ۔
بھارتیہ مسلم مورچہ ، آندولن یا سنگھٹن کے نام پر یہ تنظیمیں کافی سرگرم ہیں اور نام نہاد سروے کے نام پر یہ رپورٹ پیش کررہی ہیں کہ مسلم خواتین کی اکثریت طلاق کے موجودہ نظام میں تبدیلی چاہتی ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیمیں ایسا کوئی سروے نہیں کرتی اور چند ایک افراد سے ربط قائم کرتے ہوئے یہ تاثر دیتی ہیں کہ سارے ملک کے مسلمانوں کی رائے پیش کی جارہی ہے ۔
حال ہی میں ایک تنظیم نے اسی طرح کی ایک سروے رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ مغربی بنگال ، بہار ، جھارکھنڈ ، مہاراشٹرا اور مختلف دیگر ریاستوں میں بے شمار خواتین سے طلاق موجودہ نظام کے بارے میں رائے حاصل کی گئی ۔ اکثریت نے یہ رائے دی کہ اس طریقہ کار میں تبدیلی لائی جانی چاہیے ۔ حالانکہ شرعی معاملات میں کسی کو بھی مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ واضح موقف اختیار کیا ہے کہ اسلامی احکامات میں کسی طرح کی تبدیلی یا ترمیم نہیں کی جاسکتی اور بحیثیت مسلمان ہم ان احکامات کو من و عن تسلیم کرنے کے پابند ہیں ۔
یہ تنظیمیں جو نام نہاد سروے کے نام پر غلط فہمیاں پیدا کررہی ہیں ، اپنی سرگرمیوں کو ملک بھر میں وسعت دے چکی ہیں ۔ انہیں بی جے پی اور اسی طرز کی دیگر فرقہ پرست جماعتوں کی بھرپور تائید حاصل ہے ۔ ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمانوں اور بالخصوص غریب اور پسماندہ زندگی گزارنے والی خواتین کو گمراہ کیا جائے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ رکن عظمیٰ ناہید نے اس طرح کے نام نہاد سروے کو یکسر مسترد کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی رائے حاصل نہیں کی جارہی ہے بلکہ سرسری طور پر بعض خواتین سے سوالات پوچھتے ہوئے اسے سروے رپورٹ کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ایسی سازشوں سے چوکس رہنا چاہیے کیونکہ یہ مسلم معاشرے میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش ہے ۔ یہی نہیں بلکہ نام نہاد مسلم افراد کو مباحثے کے نام پر مدعو کرتے ہوئے اسلام کی غلط تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے اور ہم اسلامی قوانین کے پابند ہیں ۔ اس میں کسی طرح کی تبدیلی کا ہمیں کوئی اختیار نہیں۔
بشکریہ : روزنامہ سیاست حیدرآباد انڈیا