نصرت جاوید
اپنی بقاء اور حقوق کی جنگ ہر قوم کو اکیلے ہی لڑنا ہوتی ہے۔ ’’عالمی ضمیر‘‘ نام کی شے دُنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی اور اس ناموجود ’’ضمیر‘‘ کو جگانے کے لئے پاکستان کے کسی صدر یا وزیر اعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کوئی دھواں دار تقریر کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔
برسوں سے ہمارے میڈیا نے باہم مل کر مگر یہ تاثر قائم کررکھا ہے کہ جیسے ستمبر کے دوسرے ہفتے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جو اجلاس کئی ہفتوں تک جاری رہتا ہے، وہاں اقوام عالم کے نمائندے بہت خلوص سے بیٹھ کر دُنیا کے مختلف حصوں میں ناقابلِ برداشت نظر آنے والے انسانی مسائل کے حقیقی اسباب کو جان کر ان کے تدارک کے راستے ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔
ہمارے صدر یا وزیر اعظم کو اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس سے کسی ایسی تقریر کی توقع کی جاتی ہے جو ’’عالمی ضمیر‘‘ کوجھنجھوڑ کررکھ دے جس کے بعد راوی ہمارے لئے چین ہی چین لکھنے کو تیار ہوجائے۔
وزیر اعظم نواز شریف سے اس سال اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے ایسی ہی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ بہت سے افراد تو اسی بات پر بہت شاداں ہیں کہ بالآخر ہمارا وزیر اعظم جنرل اسمبلی جیسے عالمی فورم سے پہلی بار اپنی قومی زبان میں خطاب کرے گا۔
اپنی ثقافت اور قومی تشخص کے اس اظہار کے بعد امید یہ بھی کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کچھ ایسے شواہد دنیا کے سامنے لائے جائیں گے جو بھارتی ریاست کی جانب سے پاکستان میں انتشار پھیلانے والی قوتوں کی مسلسل سرپرستی کو بے نقاب کردیں گے۔ یہ ثبوت دیکھنے کے بعد اقوامِ عالم کے نمائندے شسدر رہ جائیں گے۔ ان کا ضمیر انہیں مجبور کردے گا کہ وہ بھارت کو ایسی مذموم حرکتوں سے باز رکھنے کے راستے ڈھونڈیں۔
وزیر اعظم سے ایمان افروز تقریر کی ہوا باندھنے والے لکھاری اور اینکر حضرات پاکستان کے معصوم اور جذباتی عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کررہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ’’انسداددہشت گردی‘‘ کی کوئی عدالت نہیں ہوا کرتی۔ اس کے سالانہ اجلاس بنیادی طورپر رسمی اور روایتی کارروائی کی صورت ہوتے ہیں۔ جہاں مختلف ممالک کے سربراہان عمومی انداز میں مختصر تقاریر کے ذریعے اپنی قومی ترجیحات یا شکایات کا ذکر کرتے ہیں۔
کسی ملک کی جارحانہ دراندازیوں کے ازالے کے لئے اقوام متحدہ ہی کے دوسرے فورم موجود ہیں۔ ان تک کوئی معاملہ لے کر جانے سے پہلے مگر کڑا ہوم ورک کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے مہیا کردہ شواہد خواہ کتنے ’’ٹھوس‘‘ کیوں نہ ہوں، پانچ ایسے ممالک ہیں جو ویٹو کی طاقت کے ذریعے آپ کی ایسی شکایات کو مؤثر کارروائی کے ناقابل بنادیتے ہیں۔
چین جواپنا یار ہے،اس کے پاس بھی ویٹو کا یہ اختیار موجود ہے۔ اس نے اس اختیار کو حال ہی میں پاکستان کی مدد کے لئے بھی استعمال کیا تھا۔ اسی ویٹو کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم اوفا میں پاکستانی وزیر عظم سے ملاقات پر مجبور ہوا۔ اس ملاقات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے مشیران برائے امور قومی سلامتی کے مابین دہلی میں طے شدہ ملاقات نہ ہوپائی۔ برصغیر میں امن کے حصول کے لئے باقاعدہ مذاکرات کا کسی صورت آغاز ہی نہ ہوپایا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد میں گھبراگیا ہوں۔ اچانک یہ خیال آیا کہ شاید میرے لکھے سے یہ تصور کرلیا جائے گا کہ میں اپنے وزیر اعظم کو ’’دُنیا گئی بھاڑ میں‘‘ جیسا مشورہ دے رہا ہوں۔ 2015ء میں کوئی بھی ایسا شخص جسے عالمی امور کی تھوڑی بہت سمجھ ہے، ایسا احمقانہ مشورہ دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ عرض صرف اور صرف اتنی ہے کہ وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجودگی سے غیر حقیقی توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔
میری وزیر اعظم تک کسی طرح رسائی ہوتی تو انتہائی خلوص سے محض ایک پاکستانی شہری ہوتے ہوئے ان تک یہ درخواست پہنچاتا کہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کو تشریف نہ لے جائیں۔ سرتاج عزیز یا طارق فاطمی ان کی مؤثر نمائندگی کرسکتے تھے۔ باقی کام ڈاکٹر ملیحہ لودھی پر چھوڑ دیا جائے۔
ان میں موجود سفارت کاری کے جوہر سب سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو نے تلاش کئے تھے۔ دوسری بار اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ڈاکٹر صاحبہ کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر نامزد کیا تھا۔
جنرل مشرف نے اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کا تختہ الٹنے کے بعد جو فوری فیصلے کئے ان میں ڈاکٹر صاحبہ کی واشنگٹن میں بطور سفیر تعیناتی بھی شامل تھی۔ نائن الیون ڈاکٹر صاحبہ کی سفارت کے دوران ہی ہوا تھا۔ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے دنیا کے مقدر کا فیصلہ کرنے والوں کے اذہان کس طرح بدل گئے تھے اور پاکستان کو اس کی وجہ سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کئی صورتوں میں اب بھی کرنا پڑرہا ہے۔
اپنے گزشتہ ادوار حکومت میں نواز شریف اور ان کے زیادہ تر وزراء ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی صحافت سے بہت شاکی رہے تھے۔ تیسری بار وزیر اعظم ہائوس پہنچنے کے بعد مگر نواز شریف نے ڈاکٹر صاحبہ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب بناکر بھیجا ہے۔ یقینا ڈاکٹر صاحبہ کے سفارتی ہنر نے نواز شریف کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبورکیا ہوگا۔
زیادہ بہتر نہیں کہ اب اس ہنر کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے۔ ان کے دفتر کو ہر وہ سہولت، وسائل اور شواہد فراہم کیے جائیں جن کے ذریعے وہ ایک طویل المدتی منصوبے کے تحت اقوام متحدہ میں تعینات دوسرے ممالک کے سفارت کاروں کے ساتھ ’’خاموش سفارت کاری‘‘ کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا افغانستان، بھارت اور کشمیر جیسے بنیادی اور حساس موضوعات پر ایک مضبوط کیس تیار کریں۔
وقتی ٹھوں ٹھاں اور شعلہ افشانیوں سے محض پاکستانیوں کے لئے کچھ رونق لگائی جاسکتی ہے۔ حاصل مگر کچھ نہیں ہوگا۔ جس کو کام سونپا ہے، اسے تن دہی سے انجام دینے دیں اور خیر کی اُمید رکھیں۔
اقوام متحدہ کے بجائے وزیر اعظم کو پوری تیاری کے ساتھ امریکی صدر سے ملاقات کے لئے جانا چاہیے۔ اس ملاقات سے قبل بہت ضروری ہے کہ نواز شریف امریکی میڈیا اور منتخب اداروں کے زیادہ سے زیادہ افراد سے طویل ملاقاتیں کریں۔ انہیں کھل کر بتادیں کہ اپنی روایت کے عین مطابق امریکہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنا کام ہوجانے کے بعد پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ بڑے ہی ٹھوس اور دوررس تعلقات قائم کرنا شروع ہوگیا ہے۔
ان تعلقات کے ہمارے خطے میں جو اثرات ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں پاکستان کو ایک واضح پوزیشن لے کر دنیا کے سامنے رکھنا ہوگی۔ رسمی فروعات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے وہ کام کریں جنہیں اب مزید ٹالا نہیں جاسکتا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت لاہور