ڈاکٹر پرویز پروازی
لکھنؤ کے صحافی ، افسانہ نگار، ادبی رسالہ کتاب کے مدیر جناب عابد سہیل کی خودنوشت ’’جو یاد رہا‘‘کے عنوان سے اردو اکادمی دہلی کی جانب سے 2012 میں دہلی سے چھپی ہے۔ اکادمی کے سیکرٹری انیس اعظمی نے حرف آغاز میں لکھا ہے کہ ’’اکادمی نے فیصلہ کیا تھا کہ اکادمی تین مشاہیر ادب کو دو سال کے لیے فیلو شپ دے تاکہ اس فیلو شپ کے دوران وہ کسی ادبی پراجیکٹ پر کام کریں۔ ان تین فیلو شپ میں دو دہلی والوں کے لیے مخصوص تھیں اور ایک نیشنل فیلو شپ تھی جس کے لیے ممتاز بزرگ ادیب ودانشور صحافی جناب عابد سہیل کو منتخب کیا گیا۔
صلاح مشورہ کے بعد جناب عابد سہیل نے اپنی زندگی اور طویل مدتی ادبی سفر کو اپنے پراجیکٹ کا موضوع بنایااور بڑی محنت اور جانفشانی سے ’’ جو یاد رہا‘‘ کے عنوان سے اپنی آپ بیتی تحریر کی‘‘ ( جو یاد رہا صفحہ16)۔ تقریباً سوا سات سو صفحات کی یہ خود نوشت تقسیم ہند کے بعد کے لکھنؤ اور اس کے ماحول کی عمدہ تصویر ہے۔ جس میں لکھنؤ کے ادبا ،شعرا ،اساتذہ، سیاست دان، صحافی سب ہی آگئے ہیں۔
زبان قدیم لکھنؤ کی وہ مقفیٰ مسجع زبان نہیں جس پر رجب علی بیگ سرور اور ان کے ہم عصر قدما کی چھاپ ہو۔ تقسیم ہند کے بعد کے لکھنؤ کی زبان ہے جس میں ہندی کی پیوند کاری نمایاں ہے۔ مستزاد کہ مصنف نے سرکاری اداروں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے مروجہ ہندی نام لکھے ہیں جو ہندی سے ناواقفیت رکھنے والوں کو سمجھ ہی نہیں آتے۔ ان کی زندگی کا اکثر حصہ انگریزی صحافت میں بسرا ہوا مگر اردو لکھتے ہوئے انگریزی کو درمیان میں نہیں آنے دیتے۔ ان کی خودنوشت کی زبان صاف ستھری رواں دواں زبان ہے اور سات سو صفحات پڑھ جانے والی قاری کو کتاب چھوڑدینے پر مجبوری نہیں کرتی۔
ابا کی وفات کے بعد ان کا بچپن غربت تنگدستی اور عسرت میں بسرا۔ اماں نے بڑی محنت اور خودداری سے انہیں پالا پوسا پڑھایا مگر ان کی اپنی طبیعت کا طور یہی رہا کہ تعلیم رک رک کر قسطوں میں حاصل کی۔ محنت مزدوری کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں آئی۔ٹیوشنیں پڑھا پڑھا کر اپنا اور ماں کا پیٹ پالتے رہے ، ہاکر کے طور پر اخبار یں بیچتے رہے ، کتابیں سائیکل پر لٹکا کر لوگوں کے گھروں میں لے جاتے اور اس طرح اپنا آذوقہ حاصل کرتے۔ کچھ عرصہ تک رکشا بھی چلایا۔ بی اے تو بہت ہی مشکل سے کیا ۔ان کے ماموں ڈاکٹر عبدالعلیم تھے ان سے رضیہ سجاد ظہیر نے کہیں کہہ دیا کہ عابد کے لیے کچھ کریں تو انہوں نے برا سا منہ بنا کر صاف کہا کہ ’’ وہ کچھ کر کے تو دکھائیں‘‘ (صٖفحہ 478) اخر گرتے پڑتے ایم اے کرکے اخبار نیشنل ہیرالڈ اور قومی زبان تک پہنچ گئے اور صحافت میں ساری عمر بسر کردی۔
نظریاتی طور پر کارڈ ہولڈر کمیونسٹ نہیں تھے مگر ثابت قدم رہے۔ دنیاوی آسائشوں سے اس حد تک استغنا تھا کہ مدتوں یہ سوچتے رہے کہ تعلیم ختم کرنے کے بعد بھکشو بن جاؤں گا۔(صفحہ 319)۔ انجمن ترقی پسند مصنفین سے تعلق استوار رکھا رضیہ سجاد ظہیر سے رابطہ تھااور متاثر تھے۔مشہور مزاح نگار احمد جمال پاشا کے بارے میں بعض بڑی دلچسپ باتیں انہوں نے لکھی ہیں ۔ احمد جمال پاشا صاحب اہلیہ کے ہمراہ حج کرنے کو چلے تو انہیں ’’ چالیس پینتالیس برس کی ایک تصویر یاد آئی جس میں لکھنؤ کا ایک نوجوان لند ن میں کارل مارکس کی قبر پر دعامانگ رہا تھا ’’ یا اللہ مسلمانوں کو مارکس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما‘‘ یہ عبارت پڑھ کر ہم لوگ بہت ہنسے لیکن رضیہ آپا نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا تحقیق طلب امر یہ ہے کہ مارکس کی قبر پر یہ وینیٹی بیگ کس خاتون کا رکھا ہوا ہے ‘‘ (صفحہ 533) اور یہ بھی کہ ’’احمد جمال پاشا تالے کھولنے میں بہت ماہر تھے کہا کرتے تھے چھوٹے موٹے تالے کو تو گھور کر دیکھوں تو خود بخود کھل جائے‘‘ (صفحہ 531)۔
عابد سہیل صاحب پاکستان اور بانی پاکستان جناح کے سخت خلاف ہیں اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے تنقید وتنقیص سے باز نہیں آتے۔ مگر یہ کہنے سے رک نہیں سکے کہ جناح صاحب نے کہا تھا کہ ’’پاکستان میں ہندوؤں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں انہیں بچانے کو موجود ہوں۔ میں مسلمانوں کا ہی رہنما نہیں اقلیتوں کا بھی رہنما ہوں‘‘ (صفحہ 271) اب پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
سرحد کے سرخ پوشوں کو مسلم لیگ نے اپنے ساتھ ملانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر عبدالغفار خان ان کے دام میں نہیںآئے۔یہاں آپ نے کسی اردو اخبار کے کارٹون کا حوالہ دیا ہے کہ ’’ عبدالغفار خان کسی مکان کی چھت پر کھڑے ہیں اور جناح صاحب انہیں اپنے پاس بلانے کی کوشش کررہے ہیں کارٹون کے نیچے فارسی کا یہ شعر لکھا ہوا تھا ، سرخ پوشے بہ لب بام نظر می آید، نہ بہ زوری نہ بہ زاری نہ بہ زرمی آید (صفحہ173)۔
اس شعر میں سرخ پوش کے لفظ نے عبارت میں جو معنویت پیدا کردی ہے وہ میں موجودہ دور کے فارسی سے نابلدِ محض قارئین کو کیسے سمجھاؤں؟ ترجمہ درج کر دیتا ہوں کہ ایک ’’سرخ پوش‘‘ لب بام نظر آرہا ہے مگر نہ زور سے قابو آتا ہے نہ زاری سے نہ زر سے!
حکومت اتر پردیش کے ایک وزیر کا ذکر ان کی زبان سے سنیے ’’ میں سائیکل سے اتر پڑا، اور وہ میرے پاس آگئے ۔ا نہیں اسمبلی پہنچنا تھا اچک کر میرے سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھ گئے کہ مجھے اسمبلی پہنچا دو ‘‘ ( صفحہ 239)۔ کیا آپ پاکستان کے کسی وزیر کے بارے میں ایسا تصور کر سکتے ہیں؟ اسی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کا ذکر بھی دیکھتے چلئے ’’ وہ سرکاری گاڑی پر میرٹھ کے لیے روانہ ہوئے ۔ رستہ میں کسی نے انہیں بتایا کہ ان کا استعفیٰ گورنر نے منظور کر لیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے سرکاری گاڑی وہیں سے واپس بھیج دی اور خود شاید بس سے میرٹھ چلے گئے‘‘( صفحہ 244) اے کاش ہمارے مومن ان کافروں کے رویہ سے ہی کوئی سبق حاصل کریں۔
مشہور مسلمان لیڈر رفیع احمد قدوائی کے انتقال پر مسولی میں ایک کانگریسی وزیر نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’ رفیع صاحب کا فلم انڈسٹری پر بڑا احسان ہے وہ گانا بہت اچھا گاتے تھے‘‘۔اخباروں نے اس احمقانہ تقریر کا خوب مذاق اڑایا لیکن متعلقہ منسٹر کا کچھ نہ بگڑا‘‘ ( صفحہ 294) اس کا مطلب یہ ہے کہ ادھر بھی ماشاء اللہ’’ پڑھے لکھے‘‘ وزراء موجود ہیں جن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
فراق صاحب کا ایک شعر جو اثر لکھنوی کے بارے میں ہے بہت مشہور ہوا کہ ’’ فراق اپنی غزل پڑھتا ہے جس دم ، اثر بیٹھے کیا کرتے ہیں ہی ہی‘‘ مگر اس کے جواب میں اثر نے جو غزل کہی اس کا چرچا ہم نے پہلی بار ان کے ہاں دیکھا ہے
اثر کو کرتے دیکھا کس نے ہی ہی، فراق ہوتی ہے حد اک جھوٹ کی بھی
بہت کچھ اور کہہ سکتا ہوں لیکن، جوابِ جاہلاں باشد خموشی، (صفحہ 432)۔
ہمارے ہاں بھی ادبی چخ چلتی رہی ہے اگر ہمارے متصادم حلقوں کے نقاد آخری حکیمانہ مصرعہ پر عمل پیرا ہوتے تو یہ قضیے جلد ہی اپنی موت آپ مر جاتے۔
ہمارے لیے اس خود نوشت کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں یگانہ لکھنؤی کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذکر ہے۔ اس سلوک کا تذکرہ تو بہت سنا تھا تفصیلات ان کے ہاں پہلی بار دیکھی ہیں۔
یگانہ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے حضور اکرم ؐ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے ہیں۔یہ جلوس 31 مارچ 1953 کو نکالا گیا تھا’’ یگانہ کو ایک گدھے پر بٹھایا گیا تھاان کے گلے میں سفید پھولوں کے ہارپڑے تھے جو پان کی پیک سے جگہ جگہ سرخ ہوگئے تھے۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد جس کا جی چاہتا ان کی ٹوپی اور چہرے پر پیک کی پچکاری ماردیتا۔ اس وقت تو خیال نہیں آیا لیکن اب ضرور سوچتا ہوں کہ بیشتر شرکائے جلسہ کی عمریں پان کھانے کی نہ تھیں ممکن ہے انہوں نے پان اسی کار نیک کے لیے کھایا ہو جو وہ انجام دے رہے تھے۔
یگانہ جن کو اس سے پہلے میں نے کبھی نہ دیکھا تھا صبر و ضبط کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ ایک آدھ بار جی تو چاہا کہ لوگوں کو ان کے چہرے پر پچکاری مارنے سے روکوں لیکن شرکائے جلوس کی تعداد دیکھ کر ہمت نے جواب دے دیا۔۔۔ دس بارہ منٹ کے بعد امین آباد کی طرف سے پولیس کی دو جیپیں آگئیں اور پولیس کی جیپ یگانہ کولے کر امین آباد کی جانب روانہ ہوگئی۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ یگانہ نے ایک نہایت غیر مصلحت اندیشانہ اور بدبختانہ خط نیاز فتح پوری کو لکھا تھا ۔ نیاز فتح پوری نے وہ خط مولانا عبد الماجد دریا آبادی کو بھیج دیا جنہوں نے اپنے ہفت روزہ میں یگانہ کو خوب خوب مطعون کیا لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔
بعد میں مولانا نے ہفت روزہ سرفراز کو غیرت دلائی تو اس نے یہ ’’کارنیک‘‘ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس کا نتیجہ جلوس کی شکل میں ظاہر ہوا۔۔۔ لکھنؤ میں یاس یگانہ چنگیزی کے ساتھ جو افسوسناک سلوک ہوا وہ محض اتفاقی ہنگامہ نہیں تھا اس کے پس منظر میں تیس پینتیس برسوں سے چلی آرہی رنجشیں اور رقابتیں تھیں‘‘ ( صفحہ 276)۔
اور اب آخر میں فیض کی پہلی معشوقہ کی دریافت اور بیان
’’فیض 1936 کے بعد پہلی بار لکھنؤ آئے انہوں نے یوپی اردو اکادمی کی سابقہ عمارت کے ہال میں اپنا کلام سنایا۔ ہال بہت پہلے سے سامعین سے چھلک رہا تھا اسی دوران ایک دبلی پتلی خاتون داخل ہوئیں اور سامعین کو الانگتے پھلانگتے اسٹیج کے بالکل سامنے جگہ بنا کر بیٹھ گئیں۔ لیکن بیٹھنے سے قبل انہوں نے ہاتھ بڑھایا تو فیض نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔فیض نے کلام سنانا شروع کیا اور ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ بجلی چلی گئی ان خاتون نے اپنے وینیٹی بیگ سے وہ چینی پنکھا نکالا جو لپیٹ کر ذرا سا رہ جاتا ہے اور وہ فیض کو جھلنے لگیں۔۔۔
دو سال بعد یہ بہ طور صحافی ان سے ملے اور ان سے سوال کیا ’’ آپ شاید فیض کو بہت دنوں سے جانتی ہیں ‘‘؟۔
’’ بہت دنوں سے امرتسر سے، ان کا مکان میرے گھر کے سامنے تھا چھریرے بدن کا لڑکا تھا بہت اچھا لگتا تھا لیکن میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنا بڑا شاعر بن جائے گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئیں اور اداس۔ پھر ایک دم بولیں’’ میں اس کی پہلی معشوقہ ہوں ‘‘ ۔ میں نے پوچھا آپ کا نام؟ انہوں نے میری طرف دیکھا ایک منٹ خاموش رہیں پھر بولیں ’’ مس سنگھ‘‘ ( صفحہ 620)۔
ان کے ماموں ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب سے کہا گیا کہ وہ اپنی خود نوشت لکھیں۔ علیم صاحب نے کہا ’’ بہت کچھ بھول گیا‘‘ (صفحہ480) غالباً اسی لیے عابد سہیل صاحب نے اپنی خود نوشت کا نام ’’جو یاد رہا‘‘ تجویز کیا ہے مگر یہ خود نوشت یادوں کی مکمل بازگشت کے عیب سے مملو ہے۔ اس کا عنوان ہونا چاہیے تھا جو کچھ بھی یاد رہا۔