ملک سراج اکبر
پچھلے سال فرنٹئیر کور نے گورنمنٹ عطا شاد ڈگری کالج کے ہاسٹل پر چھاپہ مار کر’’ ملک دشمن‘‘ کتابیں اور لٹریچر برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ملک دشمنی کی انتہا دیکھیں کہ ضبط شدہ کتابوں میں پاکستان دشمن رہنما گاندھی اور نہرو کی سوانح عمری بھی شامل تھیں۔ شکر ہے کہ ایف سی نے بروقت کارروائی کرکے نوجوانوں کے ذہن آلودہ کرنے والی کتابیں اپنی تحویل میں لے لیں۔ اب تو اس واقعے کی فوری طور پر تحقیق ہونی چائیے کیونکہ یہ تو وہی کالج (اور اب یونیورسٹی ) ہے جہاں سے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک فارغ التحصیل ہوئے تھے۔کہیں انھوں نے بھی زمانہ طالب علمی میں یہ گمراہ کن کتابیں تو نہیں پڑھی تھیں؟ کیا بلوچ نوجوانوں کو اتنا بھی پتہ نہیں تھا کہ پاکستان میں صرف ایک قسم کی لٹریچر کی اجازت ہے اور وہ ہے جہادی لٹریچر۔ کیا جہادی لٹریچر اسٹال پر نہیں ملتا ہے یا اس کی قیمت بڑھ گئی ہے جو بلوچ نوجوان’’گمراہ کن‘‘ لٹریچر پڑھنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟
ویسے تو بلوچستان کے بارے میں پاکستانیوں کو بہت کم علم ہے لیکن ایک بات جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے وہ یہاں کے نوجوانوں میں کتاب اور اخباربینی کا بہت شوق ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں شاید ہی آپ کو نوجوان اتنی بڑی تعداد میں اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے نظر آئیں لیکن بلوچستان میں طلبہ سیاست نے جو ایک اچھی روایت ڈالی ہے وہ یہ ہے بلوچ نوجوانوں میں پڑھنے کا بڑا رجحان ہے اور یہ روایت بہت پرانی ہے۔ اب بھی اگر آپ کسی بلوچ نوجوان سے اس کے مشاغل کے بارے میں پوچھیں تو اخبار کا مطالعہ یا کتاب بینی کا تذکرہ ضرور ملے گا۔
جہاں ایک طرف پاکستان میں ریاست نے نوجوانوں کی سوچ اور فکر پر تالے لگانے کی خاطر جھوٹی اور مسخ شدہ تاریخ سے متعارف کیا ہے ، تو دوسری طرف بلوچستان کے نوجوانوں کو اس طرح کے قدغن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک عام پاکستانی نوجوان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تاریخ کا آغاز سات سو بارہ میں سندھ پر محمد بن قاسم کی ’’ فتح‘‘ سے ہوتا ہے ، ہم سب مسلمان بھائی بھائی ہیں، ہندو ناپاک اور مکار ہیں اور وہ ہمارے ابدی دشمن ہیں۔بلوچستان میں نوجوانوں نے ہر وقت سچ کی تلاش میں خود کتابیں پڑھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں روسی اور غیر ملکی ادب کا بڑے شوق سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاریخ تعصب کے ساتھ نہیں پڑھی یا پڑھائی جاسکتی۔ تاریخ یا کسی موضوع پر درست رائے قائم کرنے کے لئے لازم ہے کہ اس کا خود مطالعہ کیا جائے۔
لگتا ہے کہ ہماری اور ایف سی کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ بلوچ نوجوان نہرو اور گاندھی جیسے رہنماوں کی سوانح عمری کا مطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن ایف سی اہلکاروں کو صحیح طریقے سے چھاپہ مارنا چائیے تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس فیڈل کاسٹرو ، چے گویرا ور ہوگو شاویز کی سوانح عمری بھی ہوئی ہوگی۔کتاب بینی ایک غیر معمولی خوبی ہے اور جس شخص کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا سمجھیں اس نے آدھی دنیا فتح کرلی۔
جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پکڑا گیا تھا تو پتہ چلا کہ ان کے گھر سے فحش سی ڈی برآمد ہوئی تھیں۔پچھلے مہینے جب پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل پر چھاپہ پڑا تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم کے کمرے سے شراب کی بوتلیں اور پستول برآمد ہوئے ۔ اس کے برعکس، شکر ہے کہ بلوچ نوجوانوں کے قبضے میں نایاب کتابیں برآمد ہوتی ہیں۔ ان طلبہ کے والدین کو اپنے بچوں پر فخر ہونا چائیے۔ کتابیں ہر کسی کے گھر یا کمرے سے برآمد نہیں ہوتیں۔ ایف سی کے چھاپے سے ہمیں یہ خوش خبری ملتی ہے کہ ہماری نئی نسل صیح سمت میں گامزن ہے۔
دنیا کی تاریخ میں بے پناہ ایسی مثالیں ملتی ہیں جب کسی فوج نے ایک خطہ کو فتح کرکے وہا ں کے کتاب خانوں کو نذرآتش کردیا تا کہ اس قوم کو اس کے ثقافتی و تاریخی ورثے سے محروم کیا جائے۔ بلوچستان میں یہ سلسلہ کافی عرصہ پہلے شروع کیا گیا جب ایف سی نے نواب بگٹی کی نجی لائبریری تباہ کردی اور اس کی نایاب کتابیں چرالیں۔ کچھ عرصہ قبل وزارتِ داخلہ نے ڈاکٹر نصیر دشتی کی دو کتابوں پر یہ کہہ کر پابندی لگائی کہ ان سے ملک کی سا لمیت خطرے میں پڑھ گئی تھی جب کہ ڈاکٹر صاحب سے میں نے حکومتی دعووں کے حوالے سے پوچھا تو وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ جس ملک کی سا لمیت اور یکجہتی کو دوکتابیں نقصان پہنچا سکتی ہیں تو اس ملک کو دنیا کی کوئی طاقت یکجااور سالم نہیں رکھ سکتی۔
اب جان بوجھ کر بلوچ نوجوانوں کی سوچ اور فکر پر پابندی لگانے کی خاطر ان سے وہ کتابیں چھین لی جارہی ہیں جن سے ان کی سو چ اور فکر کشادہ ہوسکتی ہے۔ حکومتی اداروں کی تو عرصہ دراز سے خواہش رہی ہے کہ بلوچوں کوروشن خیال لٹریچر کے بجائے مذہبی ، جہادی اور فسادی لٹریچر پڑھایا جائے تاکہ وہ ترقی پسند راہ سے ہٹ کر مذہبی جنونیت کا راستہ اختیار کریں۔ہمیں پکا یقین ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی زندگی میں کبھی اچھی کتابوں کا مطالعہ ترک نہیں کرینگے۔
نوجوان مجھ سے عموماً پوچھتے ہیں کہ وہ کن کن کتابوں کا مطالعہ کریں میرا سب سے پہلامشورہ یہ ہوتا ہے کہ آپ معلوم کریں کہ آپ کے ملک میں کن کن کتابوں پر پابندی عائد ہے۔ اورآپ وہ کتابیں ضرور پڑھ لیں کیونکہ ان کتابوں میں یقیناًکوئی خاص بات ہوگی جو باقی لوگوں کو پتہ نہیں ہیں اور حکومت آپ سے وہ باتیں چھپانا چاہتی ہے۔ عطاشاد ڈگری کالج پر ہونے والے چھاپے پر خفاہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ یہ بلوچ نوجوانوں کے لئے خوشی کی بات ہے کہ وہ کتابیں پڑھتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔
کتابیں قوموں کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچادیتی ہیں اور کسی بھی قوم کے لئے کتابوں سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں۔ آئیے سال دوہزار چودہ میں عہد کریں کہ ہم اور آپ کم از کم ایک ایسی کتاب کا مطالعہ ضرورکریں جس پر حکومت نے پابندی لگائی ہے یا اعتراض کیا ہو۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں یقیناً نہرو کی سوانح عمری ’’گلمپسز آف ورلڈ ہسٹری‘‘ پڑھنے کا مشورہ دوں گاجس کی کچھ کاپیاں اب ایف سی کے پاس بھی ہیں۔*۔
Pingback: مودی ایک ممتاز تاریخ دان کو شہید کرنے کے درپے – Niazamana